پاکستان کے شہر لاہور کے قصور علاقے میں سات برس کی معصوم کلی زینب کے اغوا، عصمت دری اور بعد میں بڑی ہی بے دری کے ساتھ قتل کیے جانے میں ملوث ملزم عمران علی کو واردات کے نو ماہ بعد پھانسی پر لٹکا کر اپنے انجام کو پہنچا دیا گیا۔ ملزم کو ۱۷؍اکتوبر کے روز صبح ساڑھے پانچ بجے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں پھانسی دے کر منطقی انجام تک پہنچایا گیا۔اس موقعے پر مقتول زینب کے والد بھی موجود تھے، جنہوں نے سر کی آنکھوں سے اپنی معصوم کلی کو مسلنے والے درندہ صفت انسان کا عبرتناک انجام دیکھ لیا ۔جنسی زیادتی اور قتل جیسے بھیانک جرائم کے مجرم کو اتنی قلیل مدت میں کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے دنیا بھر میں پاکستانی عدالیہ کو داد دی جارہی ہے۔سوشل میڈیا پر دنیا بھر کے صارفین نے جرائم کی حوصلہ شکنی اور بیخ کنی کے لیے اس نوع کی قانونی بالادستی پر ملک کی عدالیہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ ہندوستان جہاں کے اکثر صارفین پاکستان کا نام سنتے ہی ناک بھوئیںچڑھا لیتے ہیں ، وہاں بھی سوشل میڈیاکے صارفین نے زینب کے قاتل کو صلیب دینے پر پاکستانی عدلیہ اور قانون کی بالادستی کو مثالی قرار دے کردوسرے ممالک کے لیے اس فیصلے کو مشعل راہ قرار دیا ہے۔بعض ہندوستانی صارفین نے اپنے ملک کی حکومت اور عدلیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اُنہیں انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے ذمہ دار بھی ٹھہرایا ہے۔
قصور پاکستان میں جن دنوں زینب کی عصمت دری اور قتل کی واردات ہوئی تھی اُنہی دنوں جموں وکشمیر کے کٹھوعہ علاقے میں ایک ایسے ہی سانحہ میں آصفہ نامی کمسن بچی کے ساتھ نہ صرف کئی دنوں تک اجتماعی زیادتی ہوئی تھی بلکہ درندہ صفت فرقہ پرست مجرمین نے اُن کا بڑی ہی بے دردی کے ساتھ قتل کرکے اُن کی لاش کو جنگل میں پھینک دیاتھا۔ پولیس کی سپیشل ٹیم نے جب واردات میں ملوث مجرمین کو ثبوتوں کے ساتھ گرفتار کرلیا تو پاکستانی عوام کی طرح یہاں کے عوام کے ایک مخصوص زعفرانی طبقہ نے مجرموں کے خلاف بغیر لیت و لعل سنگین سزا دینے کی مانگ کے بجائے ملزموں کے حق میں ریلی نکالی۔حد تو یہ ہے کہ مجرمین کے حق میں ریلی نکالنے والوں میں اُس وقت کی ریاستی سرکار کے دو منسٹر بھی شامل تھے اور ریلی میں شامل لوگ ہندوستانی قومی جھنڈا اُٹھائے ہوئے تھے۔ایک ساتھ زیادتی کا شکار ہونے والی دو معصوم بچیوں زینب اور آصفہ کے مجرموں کو ایک ہی جیسی اور ایک ہی ساتھ سزا ملنی چاہیے تھی لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں قانون نے ثابت کردیا ہے کہ مجرم کو کسی بھی صورت میں بخشا نہیں جائے گا جبکہ جموںو کشمیر کے حدود میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ابھی تک مجرموں کو مجرم ثابت کرنے میں ہی ناکام ثابت ہورہے ہیں۔اُنہیں مجرم ثابت کرنے میں نہ جانے کتنے سال بیت جائیں گے، پھر اُن کا جرم ثابت ہونے کے بعد عدالت اگر سزا بھی سنا دیتی ، تو کیا اُس پر عملدرآمد ہو گا؟تاحال دیکھنے میں یہ آیا کہ ہندوستان کی عدالتوں سے جنسی زیادتی اورقتل کے جرائم میں سزا پانے والے بہت ہی کم مجرمین کو سزا بھی بھگتنی پڑی ہو۔اس ملک میں قوم کے’’اجتماعی ضمیر‘‘ کو مطمئن کرنے کے لیے کشمیر کے سیاسی قیدی افضل گورو کو سولی پر چڑھایا جاتا ہے تاکہ ایسا کرنے سے وقت کے کانگریسی حکمران انتخابات میں ووٹ بٹورنے کی سیاست کھیل سکیں۔یعقوب میمن اور اجمل قصاب کو یکے بعد دیگرے تختۂ دار پر لٹکایا جاتا ہے کیونکہ اُن کے لٹکنے سے سیاست کی آفریدہ فرقہ پرست طاقتیں سینہ ٹھوک کراپنے’’بھگتوں‘‘ سے کہہ سکتی ہیں کہ وہ جو کہتے ہیں کرکے دکھاتے ہیں، لیکن جب اسی ملک میں بنت حوّا کی عصمت تار تار ہوجاتی ہے، جب وحشی درندے دن کے اُجالوں میں بھی اور رات کی تاریکیوں کے دوران بھی نازک کلیوں کو مسل کررکھ دیتے ہیں تو نہ ہی’’اجتماعی ضمیر‘‘ جاگ جاتا ہے اور نہ ہی ’’مذہبی بھگتوں‘‘کو اس طرح کے بھیانک جرائم کے خلاف’’دھرم یدھ‘‘ چھیڑنے کی سوجھتی ہے۔یہاں عدل و انصاف کے خواب ہی دیکھے جاسکتے ہیں کیونکہ زمام اقتدار اور انصاف کے ایوانوں پر اُن ہی لوگوں کا کنٹرول ہے جن کی سرپرستی میں 2002 ء میں گجرات میں سینکڑوں مسلم خواتین کی الف ننگا کرکے نہ صرف اُن کی عزت ریزی کی گئی، بلکہ بعد میں اُن کے جسموںکے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اُنہیں نذر آتش کردیا گیا تاکہ کوئی ثبوت باقی نہ رہے۔ حاملہ خواتین کے سینے چاک کرکے اُن کی کوکھ سے بچوں کو نکال کر تلواروں پر اچھالا گیا۔اُس وقت کے اخباروں کو دیکھ لیجئے ، ممبئی سے شائع ہونے والی کتاب’’گجرات کے جلتے دن رات‘‘ کا مطالعہ کیجئے ، آپ کو گجرات میں کی جانے والی سفاکیت کے سامنے چنگیزیت اور بربریت کا قد بہت ہی چھوٹا معلوم پڑ جائے گا۔
عصمت دری بھارت میں خواتین کے خلاف ہونے والا چوتھا سب سے زیادہ عام جرم ہے۔ 2013 ء کی ہندوستان کی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی سالانہ رپورٹ کے مطابق بھارت بھر میں 2012 ء میں 24923 عصمت دری کے مقدمات درج کیے گئے، جن میں سے24470 رشتہ دار یا پڑوسی کی جانب سے کیے گئے۔ 2012 ء کے اعداد و شمار کے مطابق بھارتی شہروں میں نئی دہلی میں عصمت دری کی تعداد سب سے زیادہ ہے جب کہ جبل پور عصمت دری کے فی کس واقعات کے لحاظ سے سب سے آگے ہے۔یہ بھارت کا حال ہے ، اب ذرا اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا مہذب کہلانے والے ملک امریکہ کی حالت دیکھ لیجئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 2 ؍کروڑ 20 لاکھ خواتین ریپ کا شکار ہیں یعنی ہر پانچویں عورت کی آبروریزی ہوتی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی کی شکار آدھی خواتین 18 ؍ سال سے کم عمر میں ہی جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔ امریکہ میں ہر پانچویں طالبہ کالج میں جنسی تشدد کا شکار ہوجاتی ہے۔امریکہ میں جنسی زیادتی کا شکار خواتین میں سے 72 ؍فیصد امریکی اور بھارتی خواتین شامل ہیں جبکہ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں51 ؍فیصد ہسپانوی، 22 ؍فیصد نیگرو اور 91 ؍فیصد یورپی خواتین ظلم و بربریت کا شکارہیں۔اِسی رپورٹ کی بنیاد پر امریکہ کے سابق صدر باراک اُوباما نے جنسی زیادتی روکنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کرنے کی تجویز پر دستخط کیے تھے۔لیکن ہر اقدام کے باوجود خواتین کے خلاف جرائم کی رفتا پہلے سے زیادہ ہے، کیونکہ دنیائے انسانیت میں رائج پورے سسٹم میں خرابی ہے، انسانی سوچ میں خرابی ہے، قانون کے نفاذ سے پہلے سماج کی اصلاح کے طریقوں میں خرابی ہے، رائج ا لوقت نظام اور فکر میں خرابی ہے۔ ایک جانب بنت حوا کے بدن سے لباس صرف اس لیے اُتارا جارہا ہے تاکہ سوئی سے لے کر گاڑی تک ہر چیز کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرواکے تجارتی منافع حاصل کیا جاسکے، یعنی انسان کی جنسی ضروریات اور خواہشات کا استحصال کرکے اُنہیں تجارتی منڈیوں کی جانب کھینچا جاتا ہے اور پھر یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ ایسے سماج میں جنسی جرائم نہ ہونے چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ صالحت کی بنیاد پر پہلے سماج کو تشکیل دیا جائے ، پھر ایسے قوانین کو نافذ العمل کیا جائے جن کی موجودگی میں جرم کے ارتکاب سے پہلے مجرم کو ہزار بار سوچنا پڑے ۔ ایسا سماج صرف اسلام ہی تشکیل دے سکتا ہے اور ایسا تعزیراتی قانون بھی صرف دین اسلام کے پاس ہے۔
بھارت سے لے کر امریکہ تک کے متذکرہ بالا اعداد و شمار یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ دنیا میں خواتین کے حقوق کی بات کرنے اور Feminism کے نام پر اس طبقے کوورغلانے والوں کے یہاں بنت حوا کی عزت و عصمت کے کیا اوقات ہیں۔خواتین کو سب کچھ کرنے کی آزادی فراہم کرکے دنیا کے یہ نام نہاد ترقی پسند اقوام اُن میں یہ مصنوعی احساس پیدا کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی آزادی کے روش ترین دور سے گزر رہی ہیں لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ دور جدید میں ’’آزادی ٔ نسواں‘‘ اور ’’میرا جسم میری مرضی‘‘جیسے کھوکھلے نعروںکے نام پر حوّا کی بیٹی کو جان بوجھ کر ایسے دلدل میں دھکیل دیا گیا جہاںذلت و رسوائی کے سوا کچھ بھی اُن کے ہاتھ نہیں آتا ہے۔دسمبر2012 ء میں دلی میں رات دیر گئے ایک لڑکی کو بس میں سوار ڈرائیور اور اُس کے ساتھی پکڑ کر نہ صرف اُس کی عصمت لوٹ لیتے ہیں بلکہ اُنہیں بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے، اُن کے جسم میں لوہے کی سلاخ گھسا دی جاتی ہے اور پھر اُنہیں نیم عریاں اور زخمی حالت میں چلتی بس سے نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔پورا بھارت دامنی/نربھیا نام کی اس لڑکی کی حمایت میں اُٹھ کھڑا ہوجاتا ہے، احتجاج ہوتے ہیں ، ملزم پکڑے جاتے ہیں، وہ اپنی خطا کو قبول بھی کرتے ہیں، اُنہیں کہنے کو کورٹ سزا بھی دیتی ہے لیکن سزا پر عمل ہونا ابھی بھی باقی ہے، یہ بات طے ہے کہ اُس کیس میں پھانسی کی سزا پانے والے کسی بھی بندے کو سولی پر نہیں چڑھایا جائے گا، کیونکہ یہاں ’’اجتماعی ضمیر‘‘ کو مطمئن نہیں ہونا ہے۔سال2006 ء میں لنگیٹ ہندواڑہ میں نویں جماعت کی طالبہ تابندہ غنی کو سرراہ کچھ آوارہ قسم کے غنڈے پکڑ کراُن کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے کے بعد اُن کا گلا کاٹ دیتے ہیں،اُنہیں بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے، پورا کشمیر احتجاج پر اُتر آتاہے، مجرم گرفتار کیے جاتے ہیں، 12 سال گزرنے کے باوجود نہ ہی قاتل سولی پڑ چڑھائے گئے اور نہ ہی ایسے کوئی آثار دکھائی دے رہے ہیں۔2009 ء میں شوپیان میں آسیہ اور نیلوفر نامی اس قوم کی دو بدنصیب بیٹیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ، اُس کی خبر پوری دنیا کو ہے، یہاں عوامی احتجاج اور غم و غصے کے باوجود جس مہارت کے ساتھ کیس کو دبایا گیا ا ُس کی مثال دنیا میں شاید ہی کہیں اور دیکھی جاسکتی ہے۔1990 ء میں وردی پوشوں کی جانب سے کنن پوش پورہ کپواڑہ میں جو قیامت صغریٰ برپا کی گئی اُس کی روداد سنتے ہی رونگٹھے کھڑا ہوجاتے ہیں، کس طرح 100 کے قریب عزت مآب خواتین کی آبروریزی کی گئی اور کس طرح دنیا ئے جمہور کے ’’باغیرت‘‘ سپاہ نے بے غیرتی اور بے شرمی کا مظاہرہ کیا۔16 دسمبر2017 ء کو دلی میں ایک دلدوز سانحہ میں پانچ سالہ بچی کی آبروریزی جرائم کی دنیا کاسب سے زیادہ سفاکانہ جرم ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق جس طرح بربریت کا مظاہرہ کیا گیا وہ ناقابل بیان ہے۔ ملزم منوج کمار نے بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اور درندگی کا مظاہرہ کرکے اسے مردہ سمجھ کر اپنے کمرے میں بند کرکے وہاں سے فرار اختیار کرلی تھی۔یہ بچی40 گھنٹے تک بند رہی تھی اور اس دوران کسی پولیس یا کسی نے بھی بند کمرے کی طرف توجہ نہیں دی۔ پڑوسی کے کراہنے کی آواز سننے پر کمرہ کھولا گیا تو سامنے دلدوز منظر تھا۔یہ وہ دلدوز واقعات ہیں جن سے انسان کے اخلاقی دیوالیہ پن کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور جن سے قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مجموعی کارکردگی کا پتہ چل جاتا ہے۔
جب ہم بھارت، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں کرنے والے مجرمین کے انجام کو دیکھتے ہیں اوراِن ممالک میں قانون کی سست رفتاری اور مجرمین کا کبھی بھی عبرتناک انجام سے دوچار نہ ہونا دیکھتے ہیں تو پھر پاکستانی عدالت کا ریکارڈ وقت میں زینب انصاری کے قاتل کو سولی پرچڑھائے جانے کو سلام کیا جانا چاہیے۔حقوق نسواں کے علمبردار وں کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا بھی مسلم ورلڈ کو آڑے ہاتھوں لے کر اُنہیں خواتین کے حقوق سلب کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ خواتین کو جنسی آورہ گردی کی اجازت نہ دینے، اُن کے لیے Live in Relation کو حرام قرار دینے، Adultry کو جرم تصور کرنے، لبرلرازم اور Feminism کے نعروں کو انسانیت بالخصوص خواتین کے خلاف سازش قراردینے والی باتیں مغرب اور اُن کے مشرقی حواریوں کو ہضم نہیں ہوتی ہیں، اس لیے اُنہیں اسلامی فکر و تصورِ زندگی میں خواتین یرغمال نظر آتی ہیں ، اُن کی ذہن اور نظر پر پڑے پردے کی وجہ سے اُنہیں وہ حقیقی آزادی نظر نہیں آرہی ہے جو اسلام نے خواتین کو فراہم کی ہے، جس میں عزت بھی ہے اور عصمت کے تحفظ کی ضمانت بھی، جس میں سماجی طور پر برابری کے حقوق بھی ہیں اور اُس کے پورے وجود کا تقدس بھی شامل ہے۔
کاش کہ دنیا بھر کے ممالک اسلام کے تعزیراتی قوانین کا دل سے مطالعہ کرتے، خدا واسطے کا بیر رکھنے کے بجائے اِس آفاقی دین کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ اسلام کے تعزیراتی قوانین کو قبول کرکے ان پر عمل کیا جاتا تو شاید ہی دسمبر ۲۰۱۲ء میں دامنی کی چیخیں دلی کی گہماگہمی میں گم ہوجاتیں،تو پھر یہ ممکن ہی نہ تھا کہ چکاچوند اور تیز رفتار زندگی میں ہوس کے پجاری وہ وحشی درندے اُن کو اپنی درندگی کا شکار بناتے۔ پھر ۲۰۰۶ء میںلنگیٹ ہندواڑہ کی معصوم کلی تابندہ غنی کے قاتلوں کا عبرتناک انجام دنیا نے کب کا دیکھ لیا ہوتا۔پھراُوڑی بارہمولہ میں حسد اور جلن کی آگ میں بھسم سوتیلی ماں کی کبھی یہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ اپنی ہی اولاد کم سن مسکان کے ساتھ گھناؤنا کھیل کھیل کر اُس معصوم کے جسم کونوچ ڈالتی اور اُن کا قتل کرتی۔پھر نہ ہی گجرات ، کنن پوش پورہ اور مظفر نگر کے بدکار عبرتناک انجام سے بچ پاتے ، نہ ہی آسیہ اور نیلوفر کے قاتل یوں پردوں میںرکھے جاتے۔