میں اکیسویں صدی کا مسلمان ہوں۔اُس دور کا مسلمان جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اسلام کے نام لیواؤں پر غیر اقوام اس طرح ٹوٹ پڑیں گے جیسے بھوکا کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے، اُس دور کا مسلمان جس کے بارے میں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ مسلمان’’وھن‘‘ کا شکار ہوجائیں گے۔ یعنی اُنہیں زندگی سے پیار اور مو ت سے نفرت ہوجائے گی۔میں اسلام کا وہ نام لیوا ہوں،جو اپنی بے عملی اور بدعملی کی بدولت اس وقت دنیا کا مظلوم ترین بندہ ہے۔ مشرق و مغرف، شمال و جنوب میں میرا قافیہ حیات تنگ کیاگیا ہے۔ میرے شب و روز میںہر وقت بے شک مجھے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم تعداد میں ڈیڑھ ارب ہیں اور میری اپنی آزاد 57 ریاستیں دنیا کے نقشہ پر موجود ہیں ، اس کے علاوہ ایسا کوئی ملک نہیں جہاں میرا وجود نہ ہو، مگر حالت یہ ہے کہ افرادی قوت کے باوجود میری حیثیت سمندر کے پانیوں میں اُس جھاگ سے زیادہ نہیں ہے، جس سے ہوا کا ایک معمولی جھونکا بھی بکھیر کر رکھ دیتا ہے۔ قدرتی وسائل سے میری سر زمین مالا مال ضرور ہے لیکن ادنیٰ سے ادنیٰ چیز کے لیے بھی غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے محتاج بن بیٹھا ہوں۔ میرے وسائل کا استعمال وہ کررہے ہیں، میری زمین پر اُن کی اجارہ داری ہے۔میرے ملکوںمیں گھس کر مجھے مارا جارہا ہے، عراق ہو یا شام، فلسطین ہو یا پھر کشمیر، مصر ہو یا میانمار ، بنگلہ دیش ہو یا افغانستان، پاکستان ہو یا پھر چیچنیا ہرجگہ میرے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، ہر جگہ میری لاشوں کے ڈھیر لگائے جاتے ہیں، ہر جگہ میری املاک تباہ و برباد کی جارہی ہے، ہر جگہ میرے معصوم بچوں کا قتل عام ہورہا ہے، ہر جگہ میری عزت و عصمت پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں، ہر جگہ مجھ پر ہی الزام لگتے ہیں۔ میرے لیے ہی گوانتاناموبے اور ابوغریب جیسے بدنام زمانہ تعذیب خانے ہیں۔میں ہی جرم بے گناہی میں سولی پر چڑھایا جارہا ہے۔ میرے ہی مسکن کو زمین بوس کیا جاتا ہے، میری ہی مسجد پر بم برستے ہیں، میرے ہی سجدوں پر پہرے بیٹھائے جاتے ہیں۔مجھ سے ہی سوال ہوتا ہے کہ میں کیوں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرتاہوں، مجھ سے ہی اعتراض ہوتا ہے میں کیوں اپنے دین کی بات کہتا ہوں۔ میری بات میں دنیا کو شدت پسندی نظر آتی ہے، میری چال میں اُنہیں دہشت گرد دکھائی دیتا ہے، میری نماز اُنہیں گوارا نہیں، میرا طواف اُنہیں قبول نہیں، میری بات کرنا اُنہیں برداشت نہیں ہوتا اور المیہ تو یہ ہے کہ میرا خاموش رہنا بھی اُنہیں اپنی زندگی میں طوفان برپا کرنے والا عمل دکھائی دیتا ہے۔
میں سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتا ہوں۔ اپنی کمزوری کو صبر کے لبادے میں اُتارلیتاہوں۔ اپنی سلطنتوں کو تحت و تاراج ہوتا دیکھ کر سہ لیتا ہوں، اپنے نونہالوں اور معصوموں کی لاشوں پر بھی آہ نہیں کرتا ہوں۔ وہ مجھے دہشت گرد کا نام دیں تو میں اپنی خاموشی سے قبول کرتا ہوں، وہ مجھے شدت پسند کہیں تو میں سزا کے لیے اپنی پیٹھ پیش کرتا ہوں۔ وہ میرے قبرستان آباد کرتے ہیں تو میں تقدیر کا کھیل سمجھ کر اپنی نصیب کی کتاب کو دوش دیتا ہوں، وہ میرے وسائل پر ڈاکہ ڈال دیتے ہیں، میں خندہ پیشانی سے جان کی امان کے بدلے قبول کرلیتا ہوں۔وہ میرے گھر اُجاڑ دیتے ہیں تو میں اُف بھی نہیں کرتا ، وہ میری مسجدوں پر بمباری کرتے ہیں تو میں زمین کے ہر گوشے کو مسجد کہہ کر اپنی بزدلی کو چھپانے کی کوشش کرتا ہوں۔وہ میری عزت مآب ماؤں اور بہنوں کے چہرے سے نقاب اُتار دیں تو میں’’ دل کا پردہ ہونے‘‘ کی آڑ لیتا ہوں۔ وہ میری سوچ و فکر کو غلط کہتا ہے تو میں ’’حکمت‘‘ کو ’’فلسفہ‘‘ بناکر جواز پیدا کرتا ہوں۔ وہ میرے قرآن پر اُنگلی اُٹھاتا ہے تو میں اللہ کی اصطلاحوں کی من مانی تشریح کرکے اُسے راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہارا’’تعداد ازواج‘‘، ’’سود ‘‘، ’’جنسی آزادی پر قدغن‘‘ انسانی حقوق کی ’’بدترین خلاف ورزی ‘‘ ہے تو میں روشن خیال بن کر راہیں تلاش کرتا ہوں اور اُن کی ہاں میں ہاں ملاتا ہوں۔ گویامیں اُنہیں ہر طرح سے راضی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اُن کے اُٹھائے ہوئے اعتراضات پر اپنے دینی احکامات تک کو چھوڑ دیتا ہوں۔ مگر وا حسرتا! وہ کچھ بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ چنگیز اور ہلاکو کی طرح بس میرے مٹ جانے پر ہی راضی ہوسکیں گے۔ وہ الجھنے کو ہی زندگی کہتے ہیں، وہ خون کے پیاسے ہیں، وہ حریص اور لالچی ہیں، وہ مکاری اور فریب کاری کے ذریعے سے میرے حصہ کا نوالہ تک چھیننے کے منصوبہ ساز ہیں۔
سب حربے آزمالینے کے بعد اب وہ حدود پھیلانگنے لگے ہیں۔ وہ اُس لکیر کو پار کرنے کی جسارت کرنے لگے ہیں جو تمام تر کمزوریوں کے باوجود میرے ایمان کو نئی حرارت عطا کرنے والی ہے۔ وہ میری دیوانگی، میرے جنون، میری محبت ، میری عزت، میری آبرو اور میری چاہت پر وار کرنے لگے ہیں۔ وہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اپنی کند اور بیمار ذہنیت کا اظہار کرکے گستاخی پر اُتر آئے ہیں۔ان کمبخت اور ذلیل لوگوں کو شاید تاریخ معلوم نہیں کہ جن کمینہ صفت افراد نے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اُن کا کیا حشر ہوا۔ کاش اُنہیں معلوم ہوتا کہ ابو لہب نے جب گستاخی میں حد کر دی تو اللہ تعالیٰ نے تاصبح قیامت ’’ٹوٹ گئے ابو لہب کے ہاتھ اور نامراد ہوگیا وہ‘‘کی وعید سنا کر اُنہیں نشانِ عبرت بنادیا۔ ابو لہب کی طرح اُن کا بیٹا بھی اپنے باپ کی طرح گستاخ رسول تھا۔ اس بدبخت نے رسولؐکو ایسی تکلیف پہنچائی کہ آپؐ نے اس کے لیے یہ بددعافرمائی: ’’اے اللہ! اس پر تو اپنے کتوں میں سے ایک کتامسلط فرما دے‘‘پھر جب ابو لہب کے بیٹے کو میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بددعا کا پتہ چلا تو اس کی نیند حرام ہوگی۔ ہروقت وہ اس خطرے سے دوچار رہتاتھا کہ کب محمدؐ کی بددعارنگ لائے گی اور قدرت انتقام لے کر اُسے اُس کے منطقی انجام تک پہنچا دے گی۔ ایک دفعہ وہ تجارتی قافلے کے ہمراہ سفر پررواں دواںتھا کہ رات کا اندھیراچھاگیا۔اس نے لوگوںسے کہا: سارے قافلے والو! تمام سامان میرے ارد گرد رکھ دو اور خود بھی میرے آس پاس حلقہ بناکر پڑائو ڈالو، میری جان کی حفاظت کرو، کہیں کوئی جانور حملہ آور نہ ہو سکے۔لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ مگر رات کے کسی وقت نہ جانے کہاں سے اللہ کا بھیجا ہوا کوئی درندہ آیا اور اس ملعون کو چیر پھاڑ کر چلاگیا۔ اِن شیطان کے چیلوں کو غزوہ اُحد کا وہ منظر شاید یاد نہیں جب دشمنان اسلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔جب عتبہ بن ابی وقاص نے آپؐ پر بھاری پتھر پھینکا ، جس کی وجہ سے آپ ؐ گر پڑے۔آپؐکا سامنے کادندانِ مبارک شہید ہوگیا۔ چہرہ مبارک بھی زخمی ہو گیااور نچلے ہونٹ سے خون بہنے لگا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان گڑہوں میں سے ایک گڑ ھے میںگرگئے ، جس کو ابو عامر فاسق نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے میدان جنگ میں کھودا تھا۔ حضرت علی ؓ نے آپؐ کادستِ مبارک پکڑکر اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی علیہ تعالیٰ عنہانے اپنی گود میں لے کر آپؐ کو باہر نکالا۔عبداللہ بن قمیہ نے بھی آپؐ کو بڑی اذیت پہنچائی تھی اور آپؐ کے چہرے مبارک کو بھی زخمی کیاتھا۔طبرانی کی روایت میں ہے کہ اس نے رسولؐکا چہرہ انور زخمی کیا۔ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور سے خون بہہ رہا تھا یہ لعین کہہ رہا تھا کہ ’’میرا یہ وارسنبھال اور میں قمیہ کا بیٹا ہوں۔‘‘آپؐنے اپنے چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے اس کا یہ فخریہ قول سن کر فر مایا :’’قماک اللہ‘‘۔ اللہ تجھے ذلیل و خوار کر ے۔ اس بددعاکا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے اس پر ایک پہاڑ ی بکر ا مسلط کیا ،جس نے سینگ مار مار کر اس بدبخت کا انگ انگ الگ کردیا۔
اِن گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہونا چاہیے کہ میرا تعلق اس قوم و ملت سے ہے جن کے اسلاف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخوں کو ایک پل کے لیے بھی برداشت نہیں کرتے۔ وہ اصحابِ ؓ کیا تھے کہ کبھی اُن میں سے کسی نے حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں خود گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر کو چیر دیا اور کسی نے نذر مان لی کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور قتل کروں گا۔ کبھی کسی نے یہ عزم کر لیا کہ خود زندہ رہوں گا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ زندہ رہے گااور کبھی کسی نے تمام رشتہ داریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سرلاکر رکھ دیا۔ تاریخ نے دیکھ لیا کہ نابینا صحابی ؓنے اپنے دو بچوں کی ماںکو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کی پاداش میں عبرتناک موت سے ہمکنار کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا بیان ہے کہ:’’ ایک اندھے شخص کی ایک اُم ولد لونڈی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی، وہ اسے منع کرتا تھا وہ گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی، وہ اسے جھڑکتا تھا مگر وہ نہ رکتی تھی ، ایک رات اس عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینا شروع کیں، اس نابینا صحابیؓ نے ایک بھالا لے کر اس کی پیٹ میں پیوست کردیا اور اسے زور سے دبا دیا جس سے وہ مر گئی۔ صبح اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا۔ میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے یہ کیا۔ اُس نے جو کچھ کیا میرا اُس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ایک نابینا آدمی کھڑا ہوگیا۔ اضطراب کی کیفیت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔اس نے آکر کہا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے منع کرتا تھا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی۔ میں اسے جھڑکتا تھا مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی تھی۔ اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری رفیقہ حیات تھی ۔ گزشتہ رات جب وہ آپ کو گالیان دینے لگی تو میں نے بھالا لے کر اس کی پیٹ میں پیوست کردیا۔ میں نے زور سے اسے دبایا یہاں تک کہ وہ مرگئی۔‘‘( ابوداؤد)۔ مجھے شاتم رسول اور اپنے رسول کی شان میں گستاخی کرنے والی کی موت کا کبھی کوئی افسوس نہیں ہوگا۔ گستاخانِ رسول کو عبرتناک انجام تک پہنچانے کی بحیثیت مسلم میری منصبی ذمہ داری ہے کیونکہ میرے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی اُسے قتل کیا جائے اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو گالی دی اسے کوڑے مارے جائیں۔( طبرانی)
میرے پاس کچھ نہیں بچا ہے۔ میری کوئی عمل نہیں ہے، میرے پاس دنیاکے عیش و آرام بھی نہیںہیں۔دنیا بھر کی شیطانی طاقتوں نے مجھے مادیت کے دلدل میں پھنسا دیا، سود کی لعنت میں مبتلا کردیا، بے حیائی اور بے شرمی ، فحاشیت و عریانیت کی وباء کا شکار بنا دیا۔ مجھ اللہ اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرنان بناکے رکھ دیا گیا۔ میری ایمانی غیرت و حمیت مجھ سے چھین لی گئی ہے، میرے دل میں دنیا کی محبت اس قدر بٹھا دی گئی کہ اب مجھے موت سے ڈر محسوس ہونے لگتا ہے۔ گویا ہرحیثیت سے میں اُس معیار کا نہیں رہا ہوں جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مطلوب تھا۔ میرے روحانی اور فکری طور پر حیات ہونے کی اب صرف ایک ہی کرن باقی بچی ہے ، اور امید کی یہ کرن اتنی مضبوط ہے کہ مجھ پھر سے دنیا کی امامت کے منصب جلیلہ پر فائز کرسکتی ہے۔ میرے دل میں حُب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ میں سب کچھ برداشت کرسکتا ہوں لیکن اپنے آقا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرسکتا۔ کوئی میرے رسول کی شان میں گستاخی کرے ،میرے نزدیک اُس کا انجام عبرتناک موت مرناہی ہے، میرا عقیدہ ہے کہ گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جینے کا کوئی حق نہیں ہے، اُسے اللہ کی زمین کے کسی گوشے میں رہنے نہیں دیا جانا چاہئے ۔ میرے دل کو اُس وقت تک سکون میسر نہیں ہوتا جب تلک نہ اُسے اپنے بُرے انجام کو پہنچا دیا جائے۔ توہین رسالت ؐ کا معاملہ ہو تو مجھے ڈنمارک کے اخبار چارلی ہبڈو پر ہونے والے حملے پر کوئی افسوس نہیں ہوتا، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہو تو پھر مجھے سلمان تاثیر کو عبرتناک انجام تک پہنچانے والا ممتاز قادری وقت کا عظیم مجاہد لگتا ہے۔ دنیا کو جان لینا چاہیے کہ مجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر محبت ہے کہ اپنی جان ، اہل وعیال،مال و اسباب قربان کرنا تو چھوٹی بات، کسی کی جان لینا بھی میرے لیے معمولی بات بن کر رہ جاتی ہے۔میری اس سوچ پر کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جینے کا کوئی حق نہیںہے اور اُس کی عبرتناک موت تک مجھے کوئی سکون میسر نہیں ہوگی، دنیا مجھ دہشت گرد کہے یا شدت پسندی کے القاب سے نوازے، جاہل سمجھے یا پھر مذہبی جنونیت کاشکار کہے… مجھے ہر طعنہ قبول ہے لیکن اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ کسی بھی صورت میں قبول نہیں ، کیونکہ میرا نبی صلی اللہ علیہ میری آبرو ہے ۔