ملا کا دین۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر شکیل شفائی

ملا کا دین۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر شکیل شفائی

یہ ترکیب انگریزی دور کی پیداوار ہے – جب انگریز اپنے دورِ اقتدار میں مسلمانوں کی ہر چیز کو بنظرِ حقارت دیکھتے تھے (اور آج بھی دیکھتے ہیں) انہیں علمائے دین سے زبردست بغض تھا کیونکہ علمائے دین کا اسلامی سماج پر گہرا اثر تھا (اور آج بھی بہت حد تک باقی ہے) علماء کی موجودگی میں ان کے مسیحی، صہیونی، سیاسی عزائم پورے ہونے کے امکانات معدوم نظر آرہے تھے انہوں نے علماء کا اثر ختم کرنے اور مسلمانوں کو علماء سے بدظن کرنے کے لئے لفظِ "مُلّا” کا (جو کہ دراصل مولانا کا مُخَفَّف ہے) حقیرانہ استعمال شروع کیا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ لفظ گالی کی صورت اختیار کر گیا –
آج بھی جب کوئی شخص دینِ اسلام کو عملی سطح پر اپنانے کے بجائے "علمی عیاشی” کے بطور اپنانا چاہتا ہے چنانچہ کوئی داڑھی صاف کر کے ، ارکان اسلام سے پیچھا چھڑا کے ، اسلامی طرزِ زندگی سے انحراف کرکے ، حلال و حرام کی تمیز ختم کرکے ، عورتوں کو بے پردہ کرکے ، سنتوں پہ ہاتھ صاف کر کے بھی اسلام کا مفکر ، داعی ، عالم ، صحافی ، پروفیسر ، سپاہی ، مبلغ بنے رہنا چاہتا ہے لیکن مسلم عوام اس کو قبول نہیں کرتے تو یہ اپنا غصہ ، جھنجلاہٹ ، ناکامی اور خفگی کی بھڑاس ان غریب ” مُلّا ؤں ” پر نکالتے ہیں – ” مُلّا کا دین ” کی آڑ میں پورے دین ہی سے دامن جھاڑ لیتے ہیں –
ان لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ خود تو عربی کی ایک معمولی عبارت پڑھنے اور سمجھنے پر قادر نہیں مگر علماء پر طعن و تشنیع کرنے میں ان کی زبانیں قینچی کی مثل چلتی ہیں – ان کے دلوں میں جھانک کر دیکھیں آپ پائیں گے کہ ان کو حد سے زیادہ نفرت ، بغض ، چِڑ دین پسند / تحریک پسند جوانوں سے ہوگی – داڑھی، عمامے، دینی شعائر ، اسلامی تہذیب ، تمدن ، ثقافت اور طرزِ زندگی تو ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتی –
آخر یہ ” مُلّا” کون ہے ؟ یہ وہ عالمِ دین ہے جو دین کا داعی بھی ہے ، معلم بھی ہے اور محافظ بھی ہے اسی لئے تو اغیار کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے – کیا آپ نے غور کیا ہے امام ابوحنیفہ ، امام بخاری ، امام ابو الحسن اشعری ، امام غزالی ، امام رازی ، امام ابن تیمیہ ، امام ابن قیم ، امام ابن دقیق العید ، امام ابن حجر ، امام مجدد الف ثانی ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، شیخ محمد بن عبدالوہاب ، مولانا محمد قاسم نانوتوی ، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا احمد رضا خان بریلوی ، مولانا سید ابو الاعلی مودودی ، امام حسن البناء شہید ، شیخ عبد اللہ بن باز ، مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہم اللہ کون تھے ؟ یہ سب "مُلّا ” ہی تو تھے – مسلمانوں کے جملہ مکاتیب فکر انہی ” مُلّا ؤں” سے دین کے فہم ، تعبیر اور تشریح میں استفادہ کرتے آرہے ہیں – کیا یہ سب لوگ ختمی مرتبت نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دین سے برگشتہ اور منحرف تھے اور یہ جاہل ، صہیونی خاکوں میں رنگ بھرنے والے متجدد اسلامی شاہراہ پر گامزن ہیں ؟ ما لكم كيف تحكمون ؟ مانتے ہیں کہ ہمارے علماء کرام کو اپنے نصاب ، طریقہ تعلیم ، اور تبلیغ دین جدید تقاضوں کے مطابق انجام دینے کے مسائل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے لیکن اس کا حق بھی علماء ہی کو ہے یا اخبار کے کالم نویسوں کو؟ یہ جس اردو میں کالم لکھتے ہیں وہ بھی ان ” مُلّا ؤں” کی ہی دین ہے ، اردو آج مدارس کی وجہ سے ہی زندہ ہے ، اسلامی علوم ، قرآن کی قرأت ، زبان ، تفسیر ، اصولِ حدیث ، فقہ، اصولِ فقہ ، تاریخ ، علم العقائد ، ادب غرض علم کی ہر شاخ ان "مُلّا ؤں” کی وجہ سے باقی ہیں لیکن پھر یہ غریب مردود بھی ہیں ، مقہور بھی ہیں، مطعون بھی ہیں فالی الله المشتكى

Leave a Reply

Your email address will not be published.