ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے حوالے سے کافی سرگرم رہنے والے سفارت کار اور ایک بھارتی تھنک ٹینک گروپ’’سنٹر فار پیس اینڈ انیشیٹیو‘‘ کے چیئرمین اُو پی شاہ گزشتہ ہفتے کافی سرخیوں میں رہے۔ تحریک حریت کے چیئرمین محمد اشرف صحرائی سے اْن کی ملاقات اور پھر غیر رسمی ملاقات میں صحرائی صاحب کی جانب سے مشرف کے چار نکاتی فارمولے کے موضوع پر کھری کھری باتیں بھی سامنے آئی ہیں۔ اُو پی شاہ نے وادی ٔ کشمیرکے اپنے ایک اور دورے کے اختتام پر اخباری نمائندوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ اْنہوں نے بیشتر مزاحمتی قائدین کے ساتھ ساتھ ہند نواز جماعتوں سے وابستہ سیاست دانوں سے بھی ملاقاتیں کی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وادی میں اپنے ایک ہفتے کے قیام کے دوران مسٹر شاہ نے ہند نواز جماعتوں، تجارتی انجمنوں ، سول سوسائٹی سے وابستہ ممبران،وکلاء کے علاوہ مزاحمتی قیادت سے گفت وشنیدکی۔ موصوف نے حریت (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی کے علاوہ تحریک حریت کے سربراہ محمد اشرف صحرائی، پروفیسر عبدالغنی بٹ اور کئی دیگر مزاحمتی لیڈروں کے ساتھ مکالمت کی۔اُوپی شاہ نے از خود اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ جہاں مزاحمتی لیڈرشپ نے اپنے مؤقف یعنی حق خود ارادیت کے حق میں اقوام متحدہ کی کشمیر قراردادوں پر عمل آوری کی وکالت کی ،و ہیں نیشنل کانفرنس کے علاوہ بقیہ کئی ہند نواز جماعتوں نے اندرونی خودمختاری یا اٹانومی کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ او پی شاہ نے ان ملاقاتوں سے یہ بات از خود اخذ کی ہے کہ ’’ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ گھڑی کی سوئیاں پیچھے گھماکر1947ء تک لے جائی جائیں۔او پی شاہ نے اپنے تاثرات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہاں ہر کوئی 1947ء کی پوزیشن پانے کی بات کرتا ہے، لوگ اٹانومی کو بحال کرکے وزیر اعظم اور صدر ریاست کے مناصب کی بحالی بھی چاہتے ہیں،افسپا کی صورت میں فوج کو حاصل خصوصی اختیارات کو کالعدم کرنے کی بھی مانگ کی جاتی ہے۔شاہ نے کشمیریوں کو ہندوستان کے ساتھ بات چیت کرکے آوٹ آف بکس کشمیرحل نکالنے کی صلاح بھی دے ڈالی اور کہا کہ ’’ بھارت میں کوئی بھی سیاسی جماعت کشمیر کی علاحدگی کے حق میں نہیں ہے۔‘‘
اُوپی شاہ دلی میں کشمیر اْمور سے وابستہ پالیسی ساز لوگوں کے کافی قریب مانے جاتے ہیں اور آپ گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل کشمیر آتے رہتے ہیں اور یہاں سماج کے مختلف طبقات بالخصوص مزاحمتی جماعتوں سے وابستہ لیڈروں سے ملاقاتیںکرکے اْن کو دلی کے ساتھ کسی صلح سمجھوتے پر قائل کرنے کی انتھک کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان موصوف نے ماضی میں یہاں سمینارز کا بھی اہتمام کیا تھا جن میں مختلف الخیال لوگوں کو بلایا جاتا تھا اور وہ حالات کے حوالے سے اپنی آراء اور تجاویز پیش کر تے رہتے۔ چنانچہ ہر سال او پی شاہ کا کشمیر ٹیور لازماً ہوتا رہتا ہے ، چند دن تک میڈیا میں سماج کے مختلف طبقات سے ان ملاقاتوں کے حوالے سے خبریں اور تجزیئے شائع ہوتے رہتے ہیں اور پھر اگلے سال تک اس موضوع پرمکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔ کشمیری لیڈران سے ملنا ، بات چیت یا مذاکرات کے لیے ماحول سازگار بناناکوئی بری بات نہیں ہے مگر آج تک اس ضمن میں صرف ایک ہی پوزیشن سامنے آتی رہی ہے کہ سوائے بھارتی حکومت کے مسئلہ کشمیر سے جڑے تمام فریق بات چیت کو حتمی میکایزم قرا ردے کر اس کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کے خواہش مند بھی ہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ دنوں صد ر پاکستان جناب عارف علوی نے بھی ببانگ دہل اسلام آباد کا سرکاری موقف دہرایا کہ کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہے بلکہ یہ قضیہ صرف مذاکرات کا متقاضی ہے۔البتہ جس طرح سے دلی کے مسند اقتدار پر براجمان لوگ بار بار بیان بازیاں کرکے کبھی کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیتے ہیں ،کبھی یہاں کے عوام کو ’’ورغلائے ہوئے‘‘ جتلاتے ہیں، کبھی حکومتی ہستیاں براہ راست کشمیریوں کے نام دھمکیوں کی بمباری کر تے ہیں۔ اب تو یہ رِیت بھی چل پڑی ہے کہ بھارت کے آرمی چیف تیز طرار لہجے میں کشمیری نوجوانوں کو سنگین نتائج بھگتنے کی چیتاونی دیتے ر ہتے ہیں۔ پاکستان جو مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اور جس کی کشمیر مذاکرات میں شمولیت کے بغیر یہ مسئلہ کبھی حل ہونا متصور ہی نہیں ، کیونکہ کشمیر کا ایک بڑا حصہ اس کی تحویل میں ہے، اس کے ساتھ بھارت کی موجودہ حکمران جماعت کشمیرمذاکرات کے لیے کبھی تیار ہی نہیںہوتی ہے۔ فی الوقت ہندوستان میں پاکستان کے نام گالی گلوچ اور شب وروز جذباتی باتیں کرنا الیکشن کے لیے ایک بہترین کارڈ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ووٹ بنک سیاست کے چلتے نیتا لوگ پاکستان کو’’ بھوت‘‘ بناکر ہندوستانی عوام کے سامنے بھولے سے بھی اْن کے حل طلب مسائل نہیں چھیڑتے بلکہ ہمیشہ ہمسایہ ملک سے مکتی دلانے کے نام پر لوگوں میں جذبات کی بپھراہٹ سے ایسا اْبال پیدا کرتے ہیں کہ ووٹر جذباتیت کے عالم میں آنکھ بند کر کے اپنا ووٹ اْسی کے حق میں دے ڈالتے ہیں جو پاکستان بیزاری اور فرقہ وارانہ منافرت کو بڑھاوادینے کی زیادہ کامیاب ادا کاری کرے۔ یہ نیتا لوگ اپنے انتخابی بیانیے سے عوام کا کچھ ایسا زہرناک مائنڈ سیٹ بناتے ہیں جیسے عام آدمی کو اپنے روزمرہ مسائل کے نپٹارے سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ سب کی مشترکہ آروزو پاکستان کو ملیامیٹ کرنا ہے۔ اسی سیاسی جادوگری سے رائے دہندگان سے منڈیٹ حاصل کر نے کی ساری کشمکش عبارت ہوتی ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ پھر ہر الیکشن کے بعد پانچ سال تک اس مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل عوام اس الف لیلوی انتظار میں رہتے ہیں کہ اْن کی ویر سینا کل نہیں تو پرسوں پاکستان میں گھس کر ۲۲؍کروڑ کی آبادی والے اس ایٹمی ملک پر لمحاتی سرجیکل اسٹرائیک کرکے اسے ختم کردے گی۔ یہی خواب دیکھتے دیکھتے ایک اور الیکشن آجاتا ہے اور پھر ان سنہرے سپنے دیکھنے والوں کی ’’دیش بھگتی‘‘ اور ’’ بیرونی دشمن ‘‘ کے خاتمے کے نام پر دوبارہ استحصال کرکے اْن کا ووٹ بٹورا جاتا ہے۔ حق یہ ہے کہ اپنے اپنے سیاسی مفاد کے لئے عوامی جذبات سے کھیلنا سیاست دانوں کا پرانا ہتھیار ہے اور المیہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے اس دور میں جس طرح سے ہندوستانی عوام کے جذبات کا بھر پور استحصال کیا جاتا ہے، شاید ہی دنیا میں کئی اور ہوتا ہوگا، یہاں تک کہ صیہونی اسرائیل میں بھی نہیں۔ بھارت کی قومی سیاست کے تعلق سے جب تک پاکستان دیو ہیکل دشمن کی شکل وشہابت میں کھڑا کیا جاتا رہے گا، سیاسی جماعتیں بدترین کارکردگی کے باوجود اقتدار کا مزا لیتی رہیں گی، جس روز پاکستانی بھوت کا یہ مفروضہ ختم ہوجائے گا اور لوگ تعمیر و ترقی اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی بنیاد پر اور حکومتی کار کردگی کا میرٹ دیکھ کر انتخابی جماعتوں کو پرکھنا شروع کریں گے ، تو فریب کار سیاسی جماعتوں کا پتہ صاف ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ یہ سب تلخ حقیقت جانتے ہوئے بھی بھلا ووٹ بنک کی پروردہ سیاسی جماعتیں پاکستان سے مذاکرات کی کیونکر حامی بھریں گی؟ اس لیے او پی شاہ جیسے لوگوں کو جنہوں نے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کو اپنا مستقل پیشہ بنارکھا ہے، بنیادی حقیقتوں کو سمجھنا ہوگا، اْنہیں اپنے ملک کے مخصوص سیاسی کلچر کو دیکھ بھال کر اور اس کے اثرات کاصحیح اندازہ کرکے ہی کشمیریوں کو اپنے’’ زریں مشوروں‘‘ سے نوازنا چاہیے۔
حال ہی میں روس کی میزبانی میں ماسکو میں بارہ ملکوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں افغانستان میں قیام امن کے مسئلے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس کانفرنس میں پہلی بار بر سر پیکار طالبان کے ایک وفد نے بھی شرکت کی۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کی براہِ راست میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس میں افغان طالبان اور افغان ہائی پیس کونسل کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ امریکہ، پاکستان، چین، ایران، بھارت، وسطی ایشیائی ریاستوں تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان، ازبکستان اور کرغیزستان پر مشتمل بارہ ممالک کے وفود نے شرکت کی۔جن بر سر پیکار مزاحمت کار افغانیوں نے روس کے بعد امریکہ کے چھکے چھڑائے ، جن کو امریکہ اور بھارت دہشت گرد قرار دیتے ہوئے تھکتے نہیں، جن کے ساتھ یہ برسر جنگ ہیںاورجس طالبان کو افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومت ’’اچھوت‘‘ قرا ردیتی رہی ہے، اْسی طالبان کے ساتھ امریکہ اور بھارت سمیت بارہ ممالک ماسکو میں مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھ کر اْنہیں قائل کرنے کی جی توڑ کوشش کرتے رہے کہ وہ افغانستان میں امن کا قیام عمل میں لاکر وہاں سے امریکہ کی باعزت واپسی کو یقینی بنانے میں تعاون دیں۔طالبان وفدنے کانفرنس میں دوٹوک انداز میںواضح کردیا کہ وہ اگر مذاکرات کریں گے تو کابل کی کٹھ پتلی حکومت سے نہیں بلکہ براہ راست امریکہ سے کریں گے اور اس کے لیے اْن کی اولین شرط بیرونی فوج کا انخلاء ہے۔ امریکہ نے طالبان کے سامنے جنگ بندی کی پیش کش رکھ دی لیکن طالبان جنگ بندی کو مسترد کرکے امریکی غرور کو خاک میں ملادیا۔
بھارت بھی افغانستان میں اپنے ریجنل مفادات کی خاطر طالبان کے ساتھ شانہ بشانہ مذاکرات کی میز پر بیٹھا ہوا تھا۔ یہاں ریاست جموں وکشمیر میں کئی حلقوں نے سوال کھڑا کیا کہ اگر بھارت افغانستان جاکر طالبان کے ساتھ مذاکرات کرسکتا ہے تو بھلا کشمیر میں مزاحمتی اور عسکری جماعتوں کے ساتھ دلی کیوں نہیں بیٹھ سکتی؟ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جب یہ سوال کھڑا کیا تو اْن کا منہ بند کرنے کے لیے بی جے پی کے ترجمان نے تیز طرار الفاظ میں یہ کہہ ڈالا کہ’’کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور یہاں لڑنے والے پاکستان کے ایماء پر لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عمرعبداللہ عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔‘‘حالانکہ سچائی یہ ہے کہ بھارت کے لیے طالبان کے ساتھ بیٹھنا گوارا ہے لیکن وہ کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ کشمیر حل کرنے کواس لیے ضروری نہیں سمجھتا، کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ کشمیری قوم اصولوں کی بات کرتے ہیں اور اصولوں کے ساتھ کسی قوم کو سمجھوتہ کروانا آسان کام نہیں ہوتا ہے۔ مذاکرات کی میز پر کشمیریوں کو پلڑا بھاری ہے اسی لیے دلی مذاکرات کے نام پر کشمیریوں کے ساتھ ہمیشہ مذاق کرتی آئی ہے۔بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے کشمیر میں حقوق کی بازیابی کی بات کرنے والوں تک کو ’’انتہا پسند‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ کشمیر میں انتہا پسندوں سے براہِ راست مذاکرات کا کوئی امکان نہیں۔ کسی ملک کا سربراہ خود دہشت گردوں سے بات چیت نہیں کرتا۔ حکومت نے کشمیر کے لیے مذاکرات کار کا تعین کردیا ہے اور مذاکرات کار دینشور شرما کے دروازے ہر اُس گروہ اور شخص کے لیے کھلے ہیں جو مذاکرات کا خواہاں ہو۔ کشمیر میں بالواسطہ مذاکرات کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ جنگجوؤں کو ہتھیار چھوڑ کر اس مذاکراتی عمل کا حصہ بننا چاہیے۔‘‘یہ لب و لہجہ دل کی اْس سخت گیر پالیسی کا پردہ چاک کردیتا ہے جس میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی خانے میں یہ گمان بیٹھا ہوا ہے کہ فریق مخالف کی کسی بھی بات کو قابل غور سمجھنا طاقت والے کی توہین ہوگی۔ اس طرح کا لب و لہجہ کبھی امریکہ( صحیح تر الفاظ میں جبر یکہ ) افغانستان کے حوالے سے اختیار کئے ہوئے تھا، لیکن سولہ سال کی آوارہ گردی اور وہاں کی صحراؤں کی خاک چھاننے کے بعد بالآخر دنیا کے سپرپاور کو یہ احساس ڈسنے لگا ہے کہ سچائی اور حقیقت کے لیے اگرکوئی ذرّہ بھی ثابت قدمی کے ساتھ ٹِک جائے تو پہاڑبھی جھکنے پر مجبور ہوتا ہے۔
کشمیری عوام بے شک کمزور ہیں، دنیا کشمیر کاز کی حمایت پر عملاً آمادہ بھی نہیں ہے، دلی کے پاس بے انتہا فوجی طاقت بھی ہے اور معاشی اعتبار سے بھی یہ ملک ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے، چلئے یہ بھی مانتے ہیں کہ کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد سے ان کی ملکی سیاست ومعیشت پر کو کوئی بْرا اثر پڑتا ہی نہیں ہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ کشمیر مسئلہ کی حقیقت بدل جائے گی گو کہ یہ وقتی طور دب بھی جائے۔ بایں ہمہ او پی شاہ صاحب کو بھی یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ قربانیوں کے کھاتے پہ کھاتے کھولنے والی کشمیری قوم کو شکست تسلیم کرنے کی صلاح دیں اور اْنہیں پرانی تنخواہ پر ہی کام کر نے کا مشورہ دیں۔ وہ اگر مخلص اور وسیع القلب ہیں تو انہیں دلی سمیت اپنے ملکی عوام کو بغیر کسی ابہام کے بتانا چاہئے کہ پْرامن مذاکراتی کشمیر حل ملکی مفاد میں ہے ، پڑوسی ملک کے ساتھ دشمنیوں کا خاتمہ کیجئے، کشمیر حل کی راہ سے امن و امان اور تعمیر وترقی کو موقع دیجئے۔ زبانی کلامی یہ کہنا کہ’’ گولی سے نہ گالی کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا اہل کشمیر کو گلے لگانے سے‘‘ اس وقت تک بے کار ہے جب تک دلی خلوص دل سے یہ آرزو نہ کرے کہ کشمیر میں قیامِ امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو ، برصغیر کے کروڑوں عوام پرہر وقت جنگ کے خطرات منڈلاتے نہ رہیں ، ملکی بجٹ کا معتدبہ حصہ بے تحاشہ جنگی ساز و سامان کی بھینٹ نہ چڑھے ، جنگ وجدل کے فتنہ پرور ماحول میں عام لوگ بنیادی سہولیات سے محروم نہ رہیں، حکومت یکسوئی کے ساتھ قوم کی غربت ، بیماری اور بھو ک کو اولین توجہ دے۔ اگر ایسی مثبت اور عوام دوست سوچ بالادست طاقت کے ایوانوں میں کبھی پنپ جائے تو تاریخ لازماً دیکھے گی کہ سب سے پہلے بحالیٔ اعتماد کے اقدامات کے ضمن میں افسپا کشمیر میں کالعدم قرار پائے گا ، فوج بارکوں میں واپس بلالی جائے گی، قید و بند اور داروگیر کا سلسلہ ختم کرکے کشمیریوںکی جیل سے رہا ئی ہوگی، حقوق البشر کااحترام ہوگا ، پریس اور پلیٹ فارم کی آزادی نعرہ ہی نہیں بلکہ حقیقت کا روپ دھارن کرے گا۔ اوپی شاہ کو اسی نتیجہ خیز اور امن پرور ایجنڈے کو لے کر اپنا مثبت کردار ادا کر نا چاہیے۔ کشمیر کے بارے میں دلی کی طرف سے یہ ایسے ناقابل التواء اقدامات ہیں جن سے کشمیریوں کا اعتماد بھی بحال ہوگا اور ہندوستان اور پاکستان مذاکرات کی میز پر بھی آتے ہوئے دیکھیں جائیں گے۔اس کے برعکس جب تک بالادست قوت کی جانب سے فوجی طاقت کا بے تحاشا استعمال مسلسل ہو تا رہے گا اور لوگوں کی سیاسی آرزوؤں کو دبانے کے لیے ہر اوچھا حربہ بروئے کار لایا جا تا رہے گا، اْس وقت ایسے میں او پی شاہ صاحب یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ کشمیر میں امن کی پروائیاں چلیں اور آگ وآہن میں لتھڑی یہ بستی امن چین کی بانسری بجائے؟؟؟