اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے کہ وہ ہر دور اور ہر علاقے میں ایسے علما ، مفکّرین اور مصلحین پیدا فرماتا ہے جو دین کی تجدید و احیا کی خدمت انجام دیتے ہیں ، اسے شوائب اور آمیزشوں سے پاک کرکے خالص صورت میں پیش کرتے ہیں ، اس پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہیں اور امّت کی تربیت کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ چودہویں صدی ہجری /بیسویں صدی عیسوی میں بھی اللہ تعالی نے اپنے کچھ بندوں کو اس کی توفیق دی ۔ برِّ صغیر ہند میں جن علمائے کرام نے تجدید و احیائے دین کا فریضہ انجام دیا ان میں ایک نمایاں نام مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ (۱۹۰۳ ۔ ۱۹۷۹ء) کاہے ۔ مولانا کی خدمات کے مختلف پہلو ہیں ۔ یہاں چند امتیازی پہلوؤں کا تذکرہ اختصار کے ساتھ کیا جا رہا ہے:
۱ ۔ انیسویں صدی مسلمانوں کی سیاسی مغلوبیت کے ساتھ ان کی فکری مغلوبیت کی بھی صدی تھی ۔ عالم اسلام کی طرح برِّ صغیر میں بھی اس کے اثرات بہت نمایاں تھے ۔ اس زمانے میں سرمایہ داری اور سوشلزم کا طوطی بول رہا تھا ۔ ان نظریات کو قبولِ عام حاصل تھا ۔ لوگ ان پر فریفتہ ہو رہے تھے اور ان کو انسانی مسائل کا حل سمجھ رہے تھے ۔ مولانا نے ان غیر اسلامی نظریات پر زبردست تنقید کی اور ان کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیے ۔ انھوں نے اپنی کتابوں: مسئلہ ملکیتِ زمین ، اسلام اور جدید معاشی نظریات ، سود وغیرہ میں جہاں ان نظریات کا محاکمہ اور رد کیا ، وہیں اسلامی نظریہ کی بھی اچھی طرح تفہیم کی اور اس کی برتری ثابت کی ۔
۲ ۔ غیر اسلامی نظریات کے غلبے کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کا اسلام سے ا عتماد متزلزل ہو رہا تھا ۔ نئی نسل اپنے دین سے دور ہو رہی تھی ۔ اسلامی عقائد ، عبادات اورطرزِ معاشرت اس کے لیے اجنبی بن رہے تھے ۔ اسلام سے وابستگی کا اظہار اس کے باعثِ شرم تھا ۔ مولانا نے نوجوانوں کا اسلام پر اعتماد بحال کیا ، ان کے دلوں میں اس سے گہری وابستگی پیدا کی ۔ ان کی تحریریں پڑھ کر لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں بدل گئیں اور وہ اسلام کے سچے داعی اور سپاہی بن گئے ۔
۳ ۔ مولانا کی تحریروں میں عقلی استدلال پایا جاتا ہے ۔ وہ جدید ذہن کو اپیل کرتی ہیں ۔اسلامی اقدار و ایمانیات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا روایتی انداز میں تذکرہ اس دور میں کافی نہ تھا ، بلکہ ضروری تھا کہ ان کی معقولیت بھی ثابت کی جائے اور انھیں عقل کی کسوٹی پر جانچ پرکھ کر بتایا جائے کہ وہ انسانیت کے لیے مفید ہیں ۔’علم اسرارِ دین‘ ایک ضروری اور مفید علم ہے ۔ امام غزالیؒ ، شاہ ولی اللہؒ اور دوسرے علما نے اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اوراس پر قابلِ قدر کام کیا ہے ۔ مولانا نے بھی اس کی اہمیت محسوس کی ۔ ان کی تمام تحریروں میں یہ پہلو بہت نمایاں ہے ۔ خاص طور پران کے مجموعہ ہائے مضامین ’تنقیحات‘ اور ’تفہیمات‘ اس کا بیّن ثبوت فراہم کرتے ہیں ۔ اسی بنا پر انھیں بجا طور پر ’ متکلّمِ اسلام‘ کے خطاب سے نوازا گیا ہے ۔
۴ ۔ مولانا نے اسلام کا جامع اور حرکی تصوّر پیش کیا ۔ ان کے نزدیک اسلام دیگر مذاہب کی طرح محض ایک مذہب نہیں ، جو صرف پوجا پاٹ کے چند طریقوں اور چند رسوم و روایات کے مجموعے کا نام ہو اوراس کے علاوہ زندگی کے دیگر میدانوں میں اس سے کوئی رہ نمائی نہ ملتی ہو ، بلکہ وہ ایک دین ہے ، جو زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسانوں کو رہ نمائی فراہم کرتا ہے ۔ ان کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی ، خاندانی و معاشرتی زندگی ہو یا سماجی ، معاشی زندگی ہو یا سیاسی ، وہ مسجد میں ہوں یا بازار میں ، گھر میں ہوں یا اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں ، وہ ہر جگہ اور ہر معاملے میں انھیں اللہ کے قانون کے تابع کرتا اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی تاکید کرتا ہے ۔ اسلام کا جامع تصور خود مسلم عوام کے ذہنوں سے اوجھل تھا ۔ وہ بس نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج کو مکمل دین سمجھ بیٹھے تھے ۔ مولانا نے زور دے کر یہ بات کہی کہ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی میں اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے حکموں پر چلے ۔ محض مسلمانوں جیسا نام رکھ لینا ، یا چند رسوم و روایات پر عمل کرنا کافی نہیں ہے ۔ مولانا نے اپنی کتابوں’ دینیات‘ اور’ خطبات‘ میں یہ بات بہت آسان ، عام فہم اور مؤثر اسلوب میں کہی ہے ۔
۵ ۔ مولانا نے اجتماعیت کے تصوّر کو بہت ابھار کر پیش کیا ۔اس زمانے میں اللہ اور بندے کے تعلق پر بہت زور دیا جاتا تھا اور اسی کو اصل دین سمجھا جاتا تھا ۔ انھوں نے بتایا کہ جہاں دین میں فرد کا ذاتی ارتقا مطلوب ہے وہیں دینی بنیادوں پر معاشرے کی تشکیل بھی ضروری ہے ۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ مولانا اس معاملے میں اُس زمانے میں رائج بعض نظاموں اور ازموں سے متاثر اور مرعوب تھے ، جس کی وجہ سے انھوں نے اسلام کو ’نظام‘ کی حیثیت سے پیش کیا ۔ حالاں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ اُس زمانے میں اسلام کا اجتماعی پہلو دبا ہوا تھا ، اس لیے مولانا نے اس پر زور دیا اور اسے نمایاں کرکے پیش کیا ۔
۶ ۔ مولانا نے پوری قوت کے ساتھ یہ بات کہی کہ اسلام میدانِ سیاست میں بھی انسانوں کی مکمل رہ نمائی کرتا ہے ۔ اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے وجود بخشا ہے اوراس میں انسانوں کی ضروریات کی تما م چیزیں فراہم کی ہیں ۔ کائنات کی تمام مخلوقات اللہ کے حکموں کی پابند ہیں ۔ وہ ان سے سرِ مو انحراف نہیں کر سکتیں ۔ انسانوں کو محدود دائرے میں ارادہ و اختیار کی جو آزادی دی گئی ہے اس میں ان کا امتحان ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اپنے اختیار کو استعمال کرکے اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتے ہیں یا اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتے ہیں ۔ مولانا نے تکوینی حاکمیتِ الٰہ کے ساتھ تشریعی حاکمیتِ الٰہ کا تصوّر پیش کیا ۔ بعض حضرات نے اسے ’دین کی سیاسی تعبیر‘ کا نام دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا کا پیش کردہ ’ سیاسی اسلام‘ کا تصوّر درست نہیں ہے ۔ حالاں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ اس زمانے میں مذہب اور سیاست کے درمیان علیٰحدگی کا تصوّر عام تھا ۔ مولانا نے یہ فکر پیش کی کہ میدانِ سیاست کو اسلام سے خارج سمجھنا درست نہیں ہے ۔ اسلام نے جہاں زندگی کے تمام میدانوں میں رہ نمائی کی ہے وہاں سیاست کا میدان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔
۷ ۔ مولانا نے مسلم عوام کو قرآن مجید سے جوڑا ۔ اس زمانے میں یہ تصور عام تھا کہ قرآن کا سمجھنا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ۔ اس کے لیے بہت سے علوم میں درک و مہارت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ کام صرف خواص اور علما کا ہے ۔ عوام کا کام ان کی بات ماننا اور ان کے پیچھے چلنا ہے ۔ مولانا نے یہ فکر پیش کی کہ قرآن اس لیے نہیں نازل کیا گیا ہے کہ اسے بے سمجھے بوجھے پڑھ لیا جائے ، مکان یا دوکان کے افتتاح یا کسی کی وفات کے موقع پر قرآن خوانی کروالی جائے ، بلکہ وہ کتابِ ہدایت ہے ۔ اس میں زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ، اس لیے ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ اسے سمجھنے کی کوشش کرے ۔ انھوں نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا ، اس پر حواشی لکھے ، اس کی تفسیر کی اور درسِ قرآن کی مجلسیں قائم کیں ۔ ان کوششوں کے نتیجے میں عوام کا ربط قرآن سے مضبوط ہوا ۔
۸ ۔ مولانا نے اپنی مؤثر تحریروں کے ذریعے اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کا بھرپور جواب دیا ۔ الجہاد فی الاسلام ، مرتد کی سزا اسلامی قانون میں ، پردہ وغیرہ اس کا بیّن ثبوت پیش کرتی ہیں ۔ مولانا کے اسلوب کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مدافعانہ اور معذرت خواہانہ لب و لہجہ سے پاک ہے ۔ وہ اعتراض کرنے والوں پر اقدامی حملہ کرتے ہیں ، ان کی خامیاں اور کم زوریاں نمایاں کرتے ہیں اورپورے اعتماد کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی تشریح و توضیح کرتے ہیں ۔ ان کی تحریریں اعتراضات کا مُسکت جواب فراہم کرتی ہیں اور اسلامی تعلیمات کی معقولیت کو دلائل سے ثابت کرتی ہیں ۔
۹ ۔ مولانا نے بہت سے فتنوں کا بر وقت تدارک کیا اور پوری قوت کے ساتھ ان کی سرکوبی کی ۔ اُس زمانے میں منکرینِ حدیث ، جو اہلِ قرآن کے نام سے مشہور تھے ، ان کا فتنہ سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔ انکارِ حدیث کے پردے میں وہ بہت سے مسلّماتِ دین کا انکار کر رہے تھے ۔ مولانا نے ان سے مباحثہ کیا ، ان کے شبہات زائل کیے اور ان کے اعتراضات کے تارو پود بکھیر کر رکھ دیے ۔ ان کی تصنیف ’ سنّت کی آئینی حیثیت‘ اسی مباحثہ و مجادلہ کی روداد پر مشتمل ہے ۔ اسی طرح قادیانیت کا فتنہ بھی اس زمانے میں زوروں پر تھا ۔ مولانا نے اس کے خلاف محاذ سنبھالا ۔ عملی طور پر بھی جدّوجہد کی اور علمی طور پر بھی اس کے خلاف مؤثر و مدلّل لٹریچر فراہم کیا ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کی تصنیف ’ قادیانی مسئلہ‘ کو بنیاد بناکر ان کے بدخواہوں نے انھیں تختۂ دار تک پہنچانے کی کوشش کی ، لیکن مشیّتِ الٰہی سے وہ اپنے ارادوں میں ناکام رہے۔
* * *
سنّت ہے کہ وہ ہر دور اور ہر علاقے میں ایسے علما ، مفکّرین اور مصلحین پیدا فرماتا ہے جو دین کی تجدید و احیا کی خدمت انجام دیتے ہیں ، اسے شوائب اور آمیزشوں سے پاک کرکے خالص صورت میں پیش کرتے ہیں ، اس پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہیں اور امّت کی تربیت کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ چودہویں صدی ہجری /بیسویں صدی عیسوی میں بھی اللہ تعالی نے اپنے کچھ بندوں کو اس کی توفیق دی ۔ برِّ صغیر ہند میں جن علمائے کرام نے تجدید و احیائے دین کا فریضہ انجام دیا ان میں ایک نمایاں نام مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ (۱۹۰۳ ۔ ۱۹۷۹ء) کاہے ۔ مولانا کی خدمات کے مختلف پہلو ہیں ۔ یہاں چند امتیازی پہلوؤں کا تذکرہ اختصار کے ساتھ کیا جا رہا ہے:
۱ ۔ انیسویں صدی مسلمانوں کی سیاسی مغلوبیت کے ساتھ ان کی فکری مغلوبیت کی بھی صدی تھی ۔ عالم اسلام کی طرح برِّ صغیر میں بھی اس کے اثرات بہت نمایاں تھے ۔ اس زمانے میں سرمایہ داری اور سوشلزم کا طوطی بول رہا تھا ۔ ان نظریات کو قبولِ عام حاصل تھا ۔ لوگ ان پر فریفتہ ہو رہے تھے اور ان کو انسانی مسائل کا حل سمجھ رہے تھے ۔ مولانا نے ان غیر اسلامی نظریات پر زبردست تنقید کی اور ان کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیے ۔ انھوں نے اپنی کتابوں: مسئلہ ملکیتِ زمین ، اسلام اور جدید معاشی نظریات ، سود وغیرہ میں جہاں ان نظریات کا محاکمہ اور رد کیا ، وہیں اسلامی نظریہ کی بھی اچھی طرح تفہیم کی اور اس کی برتری ثابت کی ۔
۲ ۔ غیر اسلامی نظریات کے غلبے کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کا اسلام سے ا عتماد متزلزل ہو رہا تھا ۔ نئی نسل اپنے دین سے دور ہو رہی تھی ۔ اسلامی عقائد ، عبادات اورطرزِ معاشرت اس کے لیے اجنبی بن رہے تھے ۔ اسلام سے وابستگی کا اظہار اس کے باعثِ شرم تھا ۔ مولانا نے نوجوانوں کا اسلام پر اعتماد بحال کیا ، ان کے دلوں میں اس سے گہری وابستگی پیدا کی ۔ ان کی تحریریں پڑھ کر لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں بدل گئیں اور وہ اسلام کے سچے داعی اور سپاہی بن گئے ۔
۳ ۔ مولانا کی تحریروں میں عقلی استدلال پایا جاتا ہے ۔ وہ جدید ذہن کو اپیل کرتی ہیں ۔اسلامی اقدار و ایمانیات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا روایتی انداز میں تذکرہ اس دور میں کافی نہ تھا ، بلکہ ضروری تھا کہ ان کی معقولیت بھی ثابت کی جائے اور انھیں عقل کی کسوٹی پر جانچ پرکھ کر بتایا جائے کہ وہ انسانیت کے لیے مفید ہیں ۔’علم اسرارِ دین‘ ایک ضروری اور مفید علم ہے ۔ امام غزالیؒ ، شاہ ولی اللہؒ اور دوسرے علما نے اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اوراس پر قابلِ قدر کام کیا ہے ۔ مولانا نے بھی اس کی اہمیت محسوس کی ۔ ان کی تمام تحریروں میں یہ پہلو بہت نمایاں ہے ۔ خاص طور پران کے مجموعہ ہائے مضامین ’تنقیحات‘ اور ’تفہیمات‘ اس کا بیّن ثبوت فراہم کرتے ہیں ۔ اسی بنا پر انھیں بجا طور پر ’ متکلّمِ اسلام‘ کے خطاب سے نوازا گیا ہے ۔
۴ ۔ مولانا نے اسلام کا جامع اور حرکی تصوّر پیش کیا ۔ ان کے نزدیک اسلام دیگر مذاہب کی طرح محض ایک مذہب نہیں ، جو صرف پوجا پاٹ کے چند طریقوں اور چند رسوم و روایات کے مجموعے کا نام ہو اوراس کے علاوہ زندگی کے دیگر میدانوں میں اس سے کوئی رہ نمائی نہ ملتی ہو ، بلکہ وہ ایک دین ہے ، جو زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسانوں کو رہ نمائی فراہم کرتا ہے ۔ ان کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی ، خاندانی و معاشرتی زندگی ہو یا سماجی ، معاشی زندگی ہو یا سیاسی ، وہ مسجد میں ہوں یا بازار میں ، گھر میں ہوں یا اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں ، وہ ہر جگہ اور ہر معاملے میں انھیں اللہ کے قانون کے تابع کرتا اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی تاکید کرتا ہے ۔ اسلام کا جامع تصور خود مسلم عوام کے ذہنوں سے اوجھل تھا ۔ وہ بس نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج کو مکمل دین سمجھ بیٹھے تھے ۔ مولانا نے زور دے کر یہ بات کہی کہ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی میں اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے حکموں پر چلے ۔ محض مسلمانوں جیسا نام رکھ لینا ، یا چند رسوم و روایات پر عمل کرنا کافی نہیں ہے ۔ مولانا نے اپنی کتابوں’ دینیات‘ اور’ خطبات‘ میں یہ بات بہت آسان ، عام فہم اور مؤثر اسلوب میں کہی ہے ۔
۵ ۔ مولانا نے اجتماعیت کے تصوّر کو بہت ابھار کر پیش کیا ۔اس زمانے میں اللہ اور بندے کے تعلق پر بہت زور دیا جاتا تھا اور اسی کو اصل دین سمجھا جاتا تھا ۔ انھوں نے بتایا کہ جہاں دین میں فرد کا ذاتی ارتقا مطلوب ہے وہیں دینی بنیادوں پر معاشرے کی تشکیل بھی ضروری ہے ۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ مولانا اس معاملے میں اُس زمانے میں رائج بعض نظاموں اور ازموں سے متاثر اور مرعوب تھے ، جس کی وجہ سے انھوں نے اسلام کو ’نظام‘ کی حیثیت سے پیش کیا ۔ حالاں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ اُس زمانے میں اسلام کا اجتماعی پہلو دبا ہوا تھا ، اس لیے مولانا نے اس پر زور دیا اور اسے نمایاں کرکے پیش کیا ۔
۶ ۔ مولانا نے پوری قوت کے ساتھ یہ بات کہی کہ اسلام میدانِ سیاست میں بھی انسانوں کی مکمل رہ نمائی کرتا ہے ۔ اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے وجود بخشا ہے اوراس میں انسانوں کی ضروریات کی تما م چیزیں فراہم کی ہیں ۔ کائنات کی تمام مخلوقات اللہ کے حکموں کی پابند ہیں ۔ وہ ان سے سرِ مو انحراف نہیں کر سکتیں ۔ انسانوں کو محدود دائرے میں ارادہ و اختیار کی جو آزادی دی گئی ہے اس میں ان کا امتحان ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اپنے اختیار کو استعمال کرکے اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتے ہیں یا اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتے ہیں ۔ مولانا نے تکوینی حاکمیتِ الٰہ کے ساتھ تشریعی حاکمیتِ الٰہ کا تصوّر پیش کیا ۔ بعض حضرات نے اسے ’دین کی سیاسی تعبیر‘ کا نام دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا کا پیش کردہ ’ سیاسی اسلام‘ کا تصوّر درست نہیں ہے ۔ حالاں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ اس زمانے میں مذہب اور سیاست کے درمیان علیٰحدگی کا تصوّر عام تھا ۔ مولانا نے یہ فکر پیش کی کہ میدانِ سیاست کو اسلام سے خارج سمجھنا درست نہیں ہے ۔ اسلام نے جہاں زندگی کے تمام میدانوں میں رہ نمائی کی ہے وہاں سیاست کا میدان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔
۷ ۔ مولانا نے مسلم عوام کو قرآن مجید سے جوڑا ۔ اس زمانے میں یہ تصور عام تھا کہ قرآن کا سمجھنا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ۔ اس کے لیے بہت سے علوم میں درک و مہارت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ کام صرف خواص اور علما کا ہے ۔ عوام کا کام ان کی بات ماننا اور ان کے پیچھے چلنا ہے ۔ مولانا نے یہ فکر پیش کی کہ قرآن اس لیے نہیں نازل کیا گیا ہے کہ اسے بے سمجھے بوجھے پڑھ لیا جائے ، مکان یا دوکان کے افتتاح یا کسی کی وفات کے موقع پر قرآن خوانی کروالی جائے ، بلکہ وہ کتابِ ہدایت ہے ۔ اس میں زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ، اس لیے ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ اسے سمجھنے کی کوشش کرے ۔ انھوں نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا ، اس پر حواشی لکھے ، اس کی تفسیر کی اور درسِ قرآن کی مجلسیں قائم کیں ۔ ان کوششوں کے نتیجے میں عوام کا ربط قرآن سے مضبوط ہوا ۔
۸ ۔ مولانا نے اپنی مؤثر تحریروں کے ذریعے اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کا بھرپور جواب دیا ۔ الجہاد فی الاسلام ، مرتد کی سزا اسلامی قانون میں ، پردہ وغیرہ اس کا بیّن ثبوت پیش کرتی ہیں ۔ مولانا کے اسلوب کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مدافعانہ اور معذرت خواہانہ لب و لہجہ سے پاک ہے ۔ وہ اعتراض کرنے والوں پر اقدامی حملہ کرتے ہیں ، ان کی خامیاں اور کم زوریاں نمایاں کرتے ہیں اورپورے اعتماد کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی تشریح و توضیح کرتے ہیں ۔ ان کی تحریریں اعتراضات کا مُسکت جواب فراہم کرتی ہیں اور اسلامی تعلیمات کی معقولیت کو دلائل سے ثابت کرتی ہیں ۔
۹ ۔ مولانا نے بہت سے فتنوں کا بر وقت تدارک کیا اور پوری قوت کے ساتھ ان کی سرکوبی کی ۔ اُس زمانے میں منکرینِ حدیث ، جو اہلِ قرآن کے نام سے مشہور تھے ، ان کا فتنہ سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔ انکارِ حدیث کے پردے میں وہ بہت سے مسلّماتِ دین کا انکار کر رہے تھے ۔ مولانا نے ان سے مباحثہ کیا ، ان کے شبہات زائل کیے اور ان کے اعتراضات کے تارو پود بکھیر کر رکھ دیے ۔ ان کی تصنیف ’ سنّت کی آئینی حیثیت‘ اسی مباحثہ و مجادلہ کی روداد پر مشتمل ہے ۔ اسی طرح قادیانیت کا فتنہ بھی اس زمانے میں زوروں پر تھا ۔ مولانا نے اس کے خلاف محاذ سنبھالا ۔ عملی طور پر بھی جدّوجہد کی اور علمی طور پر بھی اس کے خلاف مؤثر و مدلّل لٹریچر فراہم کیا ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کی تصنیف ’ قادیانی مسئلہ‘ کو بنیاد بناکر ان کے بدخواہوں نے انھیں تختۂ دار تک پہنچانے کی کوشش کی ، لیکن مشیّتِ الٰہی سے وہ اپنے ارادوں میں ناکام رہے۔
* * *