’انسانی حقوق‘ (Human Rights)کا موضوع زبان زد عام و خاص ہے ۔ اس کا تذکرہ ہر مجلس میں ہوتاہے ۔ ہر ادارہ ، ہر انجمن ، ہر ملک اس کا چرچا کرتاہے اور اس کی دہائی دیتاہے ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ انسانی حقوق پر عمل نہیں کرتے ، دوسرے لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم کرتے ہیں اور انہیں غصب کرنے میں آگے آگے رہتے ہیں ، وہ بھی ان حقوق کی دہائی دینے سے نہیں تھکتے ۔ آئندہ سطور میں واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ خاتم النبیین حضرت محمدﷺ نے انسانی حقوق کا کیا تصور دیاہے ؟ آپؐ نے جو تعلیمات پیش کی ہیں وہ انسانی حقوق کے موجودہ رویوں اور بیانات سے کس قدر مختلف ہیں؟ آپؐ نے ان پر کس طرح خود عمل کرکے دکھایا ہے ؟ اور آپؐ کے پیروکار وں نے بھی کس طرح ان پر عمل کیا ہے –
Human Rights
کی اصطلاح اصلاً مغرب سے آئی ہے ۔ یہ تقریباً ایک ہزار سال سے رائج ہے ، لیکن اس میں تیزی تین سو سال پہلے سے آئی ہے ۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں جو شہری تمام طرح کے انسانی حقوق سے محروم تھے ، جس کے ہاتھ میں طاقت ہوتی تھی وہ ہر طرح کی منمانی کرتا تھا ، جو حقوق چاہے اپنے عوام کو دے اور جو چاہے نہ دے، کوئی اس سے باز پرس کرنے والا نہیں ہوتا تھا ۔ سترہویں صدی سے یہ تصور پیداہوا کہ ریاست کو منمانی کرنے کا حق نہیں ہے ، پارلیمنٹ وجود میں آنی چاہیے، عوام کی حکومت ہونی چاہیے ، حکومت میں عوام کی شرکت ہونی چاہیے ۔ اس طرح گزشتہ تین سو سال میں عوام کو ایک ایک کرکے حقوق حاصل ہوئے ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں جتنے حقوق کا تذکرہ کیاگیاہے وہ تمام حقوق انسانوں کو یک بارگی دے دیے گئے ہیں ۔ تاریخی اعتبار سے دیکھاجائے تو۱۶۷۹ء میں برطانیہ نے سب سے پہلے ’حبسِ بے جا‘ کا قانون منظور کیا ، یعنی کسی شخص کو بغیر کسی ثبوت کے یا بغیر اس کا کوئی جرم بیان کیے ہوئے گرفتار کرنے کا حق نہیں ہے ۔ ۱۶۸۹ء میں برطانیہ ہی میں’ بل آف رائٹس‘ منظور کیاگیا ، یعنی شاہ کو مطلق العنان حقوق حاصل نہیں ہیں ، بلکہ اس کے حقوق محدود ہیں ۔ شاہ سے کچھ حقوق لے کر پارلیمنٹ کو دیے گئے کہ جب تک ان کو پارلیمنٹ سے منظور نہیں کیاجائے گا ،ان کے سلسلے میں شاہ کو اپنا اختیار استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ۱۷۷۶ء میں امریکہ کی ریاست ورجینیا نے کچھ حقوق کی ضمانت دی۔ پریس کی آزادی ، مذہب کی آزادی، عدالتی چارہ جوئی کا حق ، یہ حقوق عوام کو دیے گئے ۔اسی سال امریکہ کا اعلانِ آزادی منظور کیاگیا، جس میں شہریوں کو مساوات، زندگی کے تحفظ اور آزادی کے حقوق دیے گئے۔اسی طرح انیسویں صدی میں ۱۸۶۸ء میں امریکی دستور میں جب چودہویں مرتبہ ترمیم کی گئی تو اس میں بہت سے شہری حقوق شامل کیے گئے۔بیسویں صدی میں آکے ۱۹۴۶ء میں فرانس اورجاپان میں اور ۱۹۴۷ء میں اٹلی میں’بنیادی حقوق‘ (Fundamental Rights) کے نام سے کچھ حقوق کو دستور میں شامل کیاگیا۔ ۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ کے تحت’ انسانی حقو ق کا منشور‘ (Charter of Human Rights) منظور کیاگیا،جس میں بنیادی طور پر تیس(۳۰) دفعات ہیں،جن میں عوام کو آزادی کا حق، شہریوں کو حبسِ بے جا میں نہ رکھنے کا حق، نجی زندگی میں دخل نہ دینے کا حق، اسی طرح دیگر سماجی حقوق منظور کیے گئے۔
خلاصہ یہ کہ مغرب میں ’ہیومن رائٹس‘ کا جو تصور ہے اس میں دو باتیں بہت نمایاں ہیں:
اول یہ کہ جو حقوق منظور کیے گئے وہ خوشی سے نہیں دیے گئے۔ ریاست نے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے یہ حقوق نہیں منظور کیے، بلکہ عوام جوں جوں طاقت ور ہوتے گئے، انہوں نے احتجاج کیے، مظاہرے کیے، اپنی طاقت کا اظہار کیا، اس طرح انہیں ایک ایک حق ملتاگیا۔ آج ہم جتنے حقوق دیکھ رہے ہیں کہ اقوام متحدہ نے ان کی ضمانت دی ہے، وہ حقوق ایسے نہیں ہیں جو اقوام متحدہ نے یا مختلف حکومتوں نے خوشی سے لوگوں کو دیے ہیں۔
دوم یہ کہ یہ حقوق دنیا کے تمام انسانوں کو نہیں دیے گئے ہیں ، بلکہ یہ سراسر نیشنلزم کے تصور پر مبنی ہیں۔ مغرب کا صریح اعلان ہے کہ یہ حقوق صرف ہمارے لیے ہیں، دوسروں کے لیے نہیں ہیں۔جو ہماری قومیت کے دائرے میں آتاہے وہ ان حقوق سے بہرہ ور ہوگا اور جو اس دائرے میں نہیں آتاوہ ان سے بہرہ ور نہیں ہوگا۔ فرانس کے دستور میں جب بنیادی حقوق شامل کیے گئے تو ان کا استحقاق صرف فرانس کے شہریوں کو دیاگیا، اس کی جوکالونیاں تھیں ان کو ان حقوق کی ضمانت نہیں دی گئی۔ ٹھیک اسی طرح برطانیہ کے دستور میں جن حقوق کی صراحت کی گئی ان سے اس زمانے میں برطانیہ کی کالونیوں میں رہنے والوں کو محروم رکھا گیا۔ امریکہ میں کچھ آبادی سیاہ فام لوگوں کی ہے اور کچھ سرخ فام لوگوں کی ۔ وہاں سفید فام لوگوں کے لیے جن حقوق کی ضمانت دی گئی وہ کافی دنوں تک سیاہ فام لوگوں یا ریڈانڈینس کو حاصل نہیں تھے۔
مغرب میں بنیادی انسانی حقوق کاجو زبردست چرچاہے اس میں دو باتیں پائی جاتی ہیں : ایک یہ کہ عوام نے طاقت کے بل پر وہ حقوق حاصل کیے ہیں اور دوسرے یہ کہ وہ حقوق نیشنلزم کے تصور پر مبنی ہیں۔
اس پس منظر میں آئندہ سطور میں اسلام کے عطاکردہ انسانی حقوق کا مطالعہ کیاجائے گا، خاص طور سے ان حقوق کا تذکرہ کیاجائے گا جن کا تذکرہ اللہ کے رسولﷺ نے اپنی احادیث میں کیا ہے اور ان کی ضمانت دی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے حجۃ الوداع میں اعلان کیا:
انّ اللّٰہ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ قَد أعطیٰ لِکُلِّ ذِی حَقٍّ حَقَّہ۔(ترمذی:۲۱۲۰)
’’اللہ تعالیٰ نے ہر صاحبِ حق کو اس کا حق دیاہے۔‘‘
اس موقع پر آپؐ نے بہت سے حقوق بیان کیے ،حتّیٰ کہ اب ایسی کتابیں بھی آگئی ہیں کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں جتنے حقوق کا تذکرہ ہے، ایک ایک حق کے بارے میں محققین علماء نے صراحت کی ہے کہ ان کی اصل اللہ کے رسول ﷺ کے اس خطبے میں موجود ہے۔ اس خطبے میں آپؐ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے ہر ذی حق کو اس کا حق دے دیاہے۔ اس سے پتا چلتاہے کہ اسلام نے جن بنیادی حقوق کی صراحت کی ہے وہ کسی نے جدّ وجہد کرکے نہیں حاصل کیے ہیں، کسی نے اپنی طاقت کے بل پر ان حقوق کی ضمانت حاصل نہیں کی ہے ، بلکہ یہ حقوق بحیثیت انسان اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو دیے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کی ادائیگی میں کوتاہی کرتاہے، یا ان کو پامال کرتاہے تو گویا وہ کسی دوسرے انسان کا حق نہیں مارتا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کا حق مارتاہے اور اس نے جن حقوق کی ضمانت دی ہے ان کی ادائیگی میں کوتاہی کرتاہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے حقوق کا ایک بہت جامع تصور پیش کیاہے۔ ہم بنیادی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ حقوق کی اسلام میں دو قسمیں کی گئی ہیں:ایک اللہ کا حق ، دوسرے بندوں کا حق۔ دونوں کا درجہ برابر ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتاکہ اللہ کا درجہ بڑا ہے انسانوں کے مقابلے میں۔ اس لیے اللہ کے حقوق کی ادائیگی انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کے مقابلے میں زیادہ ضروری ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نبوی میں دونوں حقوق کاتذکرہ ایک ساتھ آیاہے اور دونوں کی ادائیگی کی تاکید برابر کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَاعْبُدُواْ اللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکُواْ بِہِ شَیْْئاً وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً وَبِذِیْ الْقُرْبیٰ وَالْیَتٰمیٰ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِیْ الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ مَن کَانَ مُخْتَالاً فَخُوراً۔(النساء:۳۶)
’’اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔حسن سلوک کرو والدین کے ساتھ، رشتہ داروں کے ساتھ، یتیموں کے ساتھ، مسکینوں کے ساتھ،اس پڑوسی کے ساتھ جو تمہارا رشتہ دار ہے،اس پڑوسی کے ساتھ جو تمہارا رشتہ دار نہیں ہے اور اس پڑوسی کے ساتھ جس کا تھوڑی دیر کے لیے تمہارا ساتھ ہوگیاہواور مسافر کے ساتھ اور اس کے ساتھ جو تمہارا زیر دست ہو۔‘‘
حقوق کی تفصیل ایک حدیث میں بہت دل چسپ انداز میں بیان کی گئی ہے۔حضرت سلمان فارسیؓ حضرت ابودرداءؓ کے ہاں مہمان ہوئے۔کھانے کا وقت آیا تو ابودرداءؓ نے کہا کہ آپ کھائیے، میں تو روزے سے ہوں۔ حضرت سلمانؓ نے کہا : میں نہیں کھاؤں گا جب تک آپ ساتھ میں نہیں کھائیں گے۔چنانچہ دونوں نے ساتھ میں کھانا کھایا۔حضرت سلمانؓ کی اہلیہ نے حضرت ابودرداءؓ سے کہا کہ آپ کے بھائی تو بہت متقی اور پرہیزگار ہیں۔ وہ دن میں روزہ رکھتے ہیں اور راتوں میں عبادت کرتے ہیں۔ بظاہر تو انہوں نے اپنے شوہرکی تعریف کی تھی ، لیکن حضرت سلمانؓ سمجھ گئے تھے کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہیں؟ انہوں نے ابو درداءؓ کو مخاطب کرکے فرمایا:
إنّ لِرَبِّکَ عَلَیکَ حَقّاً،وَلِنَفسِکَ عَلَیکَ حَقّاً،وَلِاَھلِکَ عَلَیکَ حَقّاً، وَلِضَیفِکَ عَلَیکَ حَقّاً۔(بخاری:۱۹۶۸،۶۱۳۹،ترمذی:۲۴۱۳)
’’تم پر تمہارے رب کا حق ہے، تم پر تمہارے نفس کا حق ہے،تم پر تمہارے گھر والوں کا حق ہے اور تم پر تمہارے مہمان کا حق ہے۔‘‘
اس حدیث میں بھی حقوق کی ایک جامع تعریف بیان کی گئی ہے اور یہ ساری باتیں اگر چہ ایک صحابی کی بیان کردہ ہیں، لیکن روایت میں ہے کہ جب اللہ کے رسولﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپؐ نے فرمایا:
صَدَقَ سَلمَان۔
’’سلمان نے بالکل صحیح بات کہی۔‘‘
گویا حضرت سلمانؓ نے جو باتیں کہی تھیں، انھیں اللہ کے رسول ﷺ کی تائید حاصل ہوئی گئی۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ بعض مرتبہ حقوق العباد کا درجہ حقوق اللہ سے بڑھ جاتا ہے۔ اس کی تائید ایک حدیث سے ہوتی ہے۔ام المومنین حضرت عائشہؓ اور نبی کریم ﷺ کے خادمِ خاص حضرت انس بن مالکؓ دونوں سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
الدَّوَاوِیْنُ عِنْدَ اللّٰہِ ثَلاثَۃٌ۔
’’بارگاہِ الٰہی میں تین طرح کے رجسٹر ہوں گے۔ ‘‘(جو قیامت کے دن ہر شخص کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔)
حدیث میں آگے تشریح آئی ہے: نامۂ اعمال کا پہلا رجسٹر وہ ہوگاجس میں یہ درج ہوگا کہ آدمی نے شرک کیاہے کہ نہیں ؟اگر کسی نے شرک کیاہوگا تو اس نے چاہے کتنے ہی اچھے اعمال کیے ہوں، اللہ تعالیٰ اسے کسی صورت میں معاف نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاءُ ۔(النساء:۴۸،۱۱۶)
’’جو شرک کرتاہے اللہ تعالی اسے کسی بھی صورت میں معاف نہیں کرے گا۔لیکن اگر کسی نے شرک نہیں کیا ہے تو اس نے چاہے کتنے ہی گناہ کیے ہوں، اللہ تعالیٰ اسے بخش سکتاہے۔‘‘ دوسرا رجسٹر وہ ہوگا جس میں بندے نے اللہ تعالیٰ کے حقوق میں جو کوتاہی کی ہوگی اس کا اندراج ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا اپنی شانِ کریمی سے معاف کردے گا۔وہ بڑا رحیم و کریم ہے، بڑا معاف کرنے والا ہے۔
تیسرا رجسٹر انسانوں کے آپسی حقوق کا ہوگا۔ کسی نے کسی شخص کا مال غصب کیاہوگا ، کسی نے کسی پر ظلم ڈھایا ہوگا ، کسی نے کسی کو گالی دی ہوگی۔ حدیث میں صراحت ہے کہ جب تک متعلقہ فرد نہ معاف کردے، اللہ تعالی کبھی اس کو معاف نہیں کرے گا ۔ (مسند احمد:۲۶۰۳۱)
اللہ کے رسول ﷺ نے یہ تصور دیا کہ اس دنیا میں اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی حق تلفی کرے گا، یہی نہیں بلکہ دوسروں کے جو حقوق اس پر واجب ہوتے ہیں ان کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا تو قیامت میں لازماً اس کا مواخذہ ہوگا۔ ایک حدیث میں ہے:
لَتُؤَدُّنَّ الحُقُوقَ الٰی أھلِھَا یَومَ القِیامَۃِ ،حَتّٰی یُقادَ لِلشَّاۃِ الجَلحاءِ مِنَ الشَّاۃِ القَرنَاءِ(مسلم:۲۵۸۲)
’’قیامت میں ضرور حقوق کا بدلہ لے کر رہاجائے گا، یہاں تک کہ اگر سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری کو مارا ہوگا تو قیامت میں اس سے بھی بدلہ لیاجائے گا۔‘‘
اس حدیث میں بڑی لطیف تعبیر استعمال کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جانوروں میں مارپیٹ ہوتی ہے۔ جانور بے شعور ہیں۔ انسانوں میں جو حق تلفیاں ہوتی ہیں ان کا موازنہ جانوروں سے نہیں کیا جاسکتا۔ محض زور دینے کے لیے اللہ کے رسولﷺ نے یہ بات فرمائی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ انسانوں کے حقوق کے معاملہ میں جو کوتاہی ہوتی ہے، قیامت میں اس کا کس طرح حساب و کتاب ہوگا؟
اللہ کے رسول ﷺ کے ارشادات میں حقوق کے سلسلے میں جو کچھ کہاگیا ہے اس میں غور کرنے سے ہمارے سامنے کئی باتیں آتی ہیں۔آپؐ نے ایک ایک کرکے ان افراد کی نشان دہی کی جن کے حقوق دوسرے پر واجب ہوتے ہیں۔آپؐ نے ان کا تذکرہ کیا اور ان کے حقوق بیان کیے ۔ ساتھ ہی آپ نے عام انسانی حقوق کا بھی آپ نے تذکرہ کیا ۔ آپؐ نے یہ بھی بتایا کہ حقوق کی ادائیگی کا کیا معیار ہونا چاہیے؟
پہلی بات یہ کہ آپؐ نے حقوق کا ایک عام تصور پیش کیا۔ انسانوں کی جتنی قسمیں ہوسکتی ہیں، ان کے جتنے طبقات ہوسکتے ہیں، ان سب کاآپ نے تذکرہ کیا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کاحکم دیا۔
سب سے پہلے رشتہ داروں کا حق آتاہے۔ رشتہ داروں سے بھی مقدم ماں باپ کا حق ہے ۔ان میں بھی ماں کے حق کو اللہ کے رسولﷺ نے برترقرار دیاہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیا: میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟آپؐ نے فرمایا : تمہاری ماں۔ یہ بات آپؐ نے تین بار ارشاد فرمائی۔ چوتھی مرتبہ جب پوچھنے والے نے پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: تمہار۱ باپ۔(ابوداؤد:۵۱۳۹،ترمذی: ۱۸۹۷) ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: یَدُ المُعطِی العُلیَا۔’’دینے والے کا ہاتھ بلندہوتاہے لینے والے کے مقابلے میں۔‘‘آدمی دے تو کس کو دے؟آپؐ نے فرمایا:أمَّکَ (تمہاری ماں) وَأبَاکَ(تمہارا باپ) وَأختَکَ (تمہاری بہن) وَأخاکَ (تمہارا بھائی)ثُمَّ أدنَاکَ أدنَاکَ۔ ’’پھرجو قریب رشتہ دار ہیں ان کو دو۔‘‘ (مسند احمد: ۷۱۰۵،۱۶۶۱۳)
رشتہ داروں کے تعلق سے عام طور سے آدمی کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ وہ میرا خیال ہی نہیں رکھتے ہیں، وہ مجھے پوچھتے ہی نہیں ہیں، جب میں کسی مصیبت میں پھنستاہوں تو ان کے اندر کوئی بے چینی پیدانہیں ہوتی ، تو میں ان کے ساتھ کیوں اچھا برتاؤ کروں؟اللہ کے رسول ﷺ نے سوچنے کے اس انداز پر ضرب لگائی ۔آپؐ نے فرمایا:
لَیسَ الوَاصِلُ بِالمُکافِئ ، وَلٰکِنَّ الوَاصِلَ الَّذِی اِذا قُطِعَت رَحِمَہ وَصَلَھا۔(بخاری: ۵۹۹۱)
’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ میں صلہ رحمی کرے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا حقیقت میں وہ ہے کہ جب اس کے رشتہ دار اس کا خیال نہ رکھیں تو وہ ان کا خیال رکھے اور ان سے رشتہ نبھائے۔‘‘
رشتہ داروں ہی کی طرح کی حیثیت پڑوسیوں کی ہوتی ہے۔ آدمی پر اچانک جب کوئی افتاد پڑتی ہے تو رشتہ دار بعد میں پہنچتے ہیں، اس کی چیخ و پکار پہلے پڑوسیوں تک پہنچتی ہے اور وہ اس کی مدد کے لیے آتے ہیں۔ اسی لیے اللہ کے رسولﷺ نے پڑوسیوں کا حق رشتہ داروں سے بڑھ کر قرار دیاہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
مَازَالَ جِبرِیلُ یُوصِینِی بِالجَارِ ، حَتّٰی ظَنَنتُ أنَّہ سَیُوَرِّثُہ۔ (بخاری: ۶۰۱۴، مسلم:۲۶۲۴)
’’حضرت جبریل ؑ میرے سامنے برابرپڑوسی کے حقوق بیان کرتے رہے، یہاں تک کہ میں گمان کرنے لگاکہ وہ وراثت میں بھی اسے حق دار بنادیں گے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
وَاللّٰہِ لَایُؤمِنُ۔
’’اللہ کی قسم، وہ شخص مومن نہیں ہے ۔‘‘
یہ بات آپؐ نے تین مرتبہ فرمائی۔صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! کون؟آپ نے فرمایا:
الَّذِی لَایَأمَنُ جَارُہ بَوَائِقَہ۔(بخاری:۶۰۱۶)
’’وہ شخص جس کی تکالیف سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔‘‘
اللہ کے رسولﷺ نے جب لوگوں کے حقوق بیان کرنے شروع کیے تو خاص طور سے سماج کے جو کم زورطبقات تھے، ان کے حقوق پر آپؐ نے زیادہ زور دیااوران کی ادائیگی کی تاکید کی۔آپؐ کے یہ ارشادات خطبۂ حجۃ الوداع میں بھی پائے جاتے ہیں اور اس سے ہٹ کر زندگی کے دوسرے مواقع پر بھی آپؐ نے ان حقوق کی تاکید کی۔ اس زمانے میں جو کم زورطبقات تھے ان میں خاص طور سے عورت تھی۔ عورت چاہے ماں ہو،یا بہن ہو ،یا بیوی ہو،یا بیٹی ہو،عرب سماج میں اس کو کسی بھی لحاظ سے بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں تھے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس کے حقوق کی تاکید کی اور عورت بحیثیت عورت کے حقوق بیان کیے۔ آپؐ نے خطبۂ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا: اِستَوصُوا بِالنِّسَاءِ خَیراً۔(ابن ماجہ:۱۸۵۱)
’’ عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
فَاتَّقُواللّٰہِ فِی النِّسَاءِ۔(مسلم:۱۲۱۸)
’’عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو۔‘‘
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کی پامالی کے سلسلے میں اللہ سے ڈرنے کی بات کیوں کہی گئی ہے؟ اس لیے کہ تم جو کسی انسان کواس کا حق دیتے ہو وہ دراصل اللہ کا حق ہوتاہے، جس کی تم ادائیگی کرتے ہو۔ گویا کسی انسان کے حق کی ادائیگی درحقیقت اللہ کے تعالیٰ کے حق کی ادائیگی ہے۔
اُس زمانے میں غلاموں کو کسی طرح کے انسانی حقوق حاصل نہیں تھے۔ان کا درجہ حیوانات سے بھی بدتر سمجھا جاتاتھا۔ اللہ کے رسولﷺ نے ان کے انسانی حقوق بیان کیے ۔ آپؐ نے فرمایا:
إخوَانُکُم خَوَلُکُم ،جَعَلَھُمُ اللّٰہُ تَحتَ أیدِیکُم ، فَمَن کَانَ أخُوہُ تَحتَ یَدِہِ فَلیُطعِمہُ مِمَّا یَأکُل ، وَلیَلبِسہُ مِمَّایَلبِس، وَلاَ تُکَلِّفُوھُم مَا یَغلِبُھُم،فَاِن کَلَّفتُمُوھُم فَاَعِینُوھُم۔(بخاری:۳۰،مسلم:۱۶۶۱)
’’یہ تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ نے تمہارا ماتحت بنادیاہے۔ پس اگر کسی کا بھائی اس کے قبضہ میں ہو تو جو وہ خود پہنے وہ اسے بھی پہنائے اور جو خود کھائے وہ اسے بھی کھلائے۔ان سے کوئی ایسا کام نہ لو جو وہ نہ کرسکتے ہوں۔اگر ان سے ایسا کام لینا مجبوری ہوتو ان کا تعاون کرو اور ان کا ساتھ دو۔‘‘
یہ حدیث حضرت ابوذر غفاریؓ نے روایت کی ہے ۔ان کے شاگرد کہتے ہیں کہ ابوذرؓ کا معاملہ یہ تھا کہ جس طرح کا کپڑا وہ خود پہنتے تھے اسی طرح کا کپڑا اپنے غلام کو پہناتے تھے۔میں نے ان سے پوچھا :حضرت !آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ان کی حیثیت کے مطابق انہیں دوسرا کپڑا پہناسکتے ہیں ۔اس پر انھوں نے یہ حدیث سنائی۔(بخاری و مسلم، حوالہ سابق)
حضرت ابو مسعود انصاریؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے غلام کو ایک تھپڑ مار دیا۔ پیچھے سے آواز آئی: ابو مسعود! جتنا تم اس پر قادر ہو اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ تم پر قادر ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اللہ کے رسولﷺ تھے۔ میں نے فورا کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! وہ آزاد ہے۔ آپؐ نے فرمایا :اگر تم ایسا نہ کرتے تو جہنم کی آگ تم کو گھیر لیتی۔(مسلم:۱۶۵۹)
اس حدیث پر ہم غور کریں۔ دیکھیں کہ اس زمانے میں غلاموں کی کیاحیثیت تھی؟ اور اللہ کے رسولﷺ نے ان کو کتنا بلند مقام عطاکیا۔انہیں بھائی قرار دیا اور حکم دیا کہ ان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کیاجائے جیسا بھائی کے ساتھ کیا جاتاہے۔
حقوق انسانی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ کے رسولﷺ نے انسانوں کے کیا بنیادی حقوق بیان کیے ہیں؟اور ان حقوق کی کیا ضمانت دی ہے؟
سب سے پہلا حق جان کا ہے۔ ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کی جان کے در پے ہواور اس کو قتل کرے۔ انسانی جان کی پامالی آج ہمارے سماج میں عام ہوگئی ہے۔ ہمارے ملک ہی میں نہیں، بلکہ پوری دنیا میں جتنی پامالی ہورہی ہے اتنی انسانی تاریخ نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ۔ اس تعلق سے قرآن مجیدکی آیتیں بھی ہیں، لیکن میں یہاں صرف حدیث پیش کرتاہوں۔اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَوِ اجتَمَعَ أَھلُ السَّمَاءِ وَالأَرضِ عَلَی قَتلِ امرَئٍ مَسلِمٍ لَعَذَّبَھُمُ اللّٰہُ۔(طبرانی )
’’اگر آسمان اور زمین کے تمام لوگ کسی ایک مسلمان شخص کو قتل کریں تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں تمام لوگوں کو عذاب دے گا۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَزَوَالُ الدُّنْیَا أھْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ( ترمذی:۱۳۹۵)
’’پوری دنیا کا فنا ہوجانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل سے ہلکا ہے۔‘‘
انسانی جان کا آپؐ نے کتنا احترام بتایاہے؟ اس کا اندازہ ان احادیث سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان میں اگرچہ مسلمان کا تذکرہ ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں کسی مسلمان کو قتل کرنے کی سزا بیان کی گئی ہے، کسی غیر مسلم کو قتل کرنے کی یہ سزا نہیں ہے۔ ایسی تمام حدیثیں جن میں کسی مسلمان کا تذکرہ ہو، ان کے بارے میں محدثین کہتے ہیں :ذِکرُ المُسلِمِ غَالِبِیّ،یعنی اللہ کے رسولﷺ نے جس سماج میں یہ باتیں کہی ہیں اس کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی، اس لیے آپ نے مسلمان کا تذکرہ کیا، ورنہ جتنا شنیع عمل کسی مسلمان کو قتل کرنا ہے اتنا ہی شنیع ، گھناؤنا اور قابل جرم عمل کسی بے قصور غیر مسلم کو قتل کرنا ہے۔ چنانچہ حدیث میں اس کی بھی صراحت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
مَن قَتَلَ مُعَاھِداً لَم یَرِح رَاءِحَۃَ الجَنَّۃِ ، وَإنَّ رِیحَھَا تُوجَدُ مِن مَیِسرَۃِ أربَعِینَ عَاماً۔(بخاری:۳۱۶۶)
’’جس شخص نے کسی ایسے غیرمسلم شخص کو جو کسی معاہدے کے تحت اسلامی ریاست میں رہتاتھا، قتل کیا تو جنت میں جانا تو بہت دور کی بات ہے، اس کو جنت کی خوشبو بھی نہیں ملے گی۔‘‘
اسلامی تعلیمات کی عظمت یہ ہے کہ ہم جان داراس شخص کو سمجھتے ہیں جو اس دنیا میں آگیاہو، اس بچے کو سمجھتے ہیں جو پیدا ہوگیا ہو، لیکن اسلام نے حقوق کی ضمانت، پیداہونے سے پہلے دی ہے۔ ماں کے پیٹ میں جو جنین ہے، اس کو بھی قتل کرنے کی کسی بھی حالت میں اجازت نہیں ہے۔
آج دنیا آبادی میں تناسب کے بگاڑسے پریشان ہے ۔خود ہمارے ملک میں یہ مسئلہ ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کا تناسب کم ہے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ پیدائش سے قبل ہی جنین کی جنس معلوم کرلی جاتی ہے اور اگر وہ لڑکی ہے تو مختلف تدابیر سے اس کو ہلاک کردیا جاتا ہے۔ قتلِ جنین کی مذمّت قرآن کریم میں بھی آئی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاِذ المَوءُُ دَ ۃُ سُئِلَت ، بِأیِّ ذَنبٍ قُتِلَت۔(التکویر:۸۔۹)
’’جب قیامت کے دن زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے گاکہ اس کو کس جرم میں قتل کیاگیا؟‘‘
آیت میں جو شناعت ہے ، جو شدّت ہے ، اللہ تعالیٰ کا جو غضب ہے ، اس کا اندازہ اس سے کیاجاسکتاہے کہ مجرم سے نہیں پوچھاجائے گا، اگر چہ اس کے جرم کا ثبوت ہوگا، اس کے اعضا گواہی دیں گے، دنیا میں اعمال کا ریکارڈ کرنے والے فرشتے گواہی دیں گے، لیکن مجرم کے گناہ کی شناعت اتنی زیادہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف التفات نہیں کرے گا،بلکہ اس مظلوم لڑکی سے، جس کو زندہ درگور کردیا گیا تھا ، پوچھا جائے گاکہ تم بتاؤ، تم کو کس جرم میں درگور کیاگیاتھا؟ یہ شناعت حدیث میں بھی بیان کی گئی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
إ نَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیکُم عُقُوقَ الأُمَّھَاتِ و وَأدَ البَنَاتِ۔(بخاری:۲۴۰۸۔مسلم: ۵۹۳)
’’اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کیاہے کہ تم اپنے والدین کی نافرمانی کرو ،اسی طرح اس نے تم پر یہ بھی حرام کیاہے کہ تم لڑکیوں کو زندہ درگور کرو۔‘‘
ایک دوسرا حق عزت و آبرو کا ہے۔ کسی کو کسی کی عزت سے چھیڑچھاڑ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ خطبۂ حجۃ الوداع میں اللہ کے رسول ﷺ نے اعلان فرمایاتھا: اے لوگو! بتاؤ، آج کون سا دن ہے؟یہ کون سا مہینہ ہے؟ یہ کون سا شہر ہے؟ہر سوال کے جواب میں صحابۂ کرام نے فرمایا : یہ محترم دن ہے، یہ محترم مہینہ ہے،یہ محترم شہر ہے ۔تب آپؐ نے فرمایا:
إنَّ دِمَاءَ کُم وَأموَالَکُم وَأعرَاضَکُم عَلَیکُم حَرَامٌ کَحُرمَۃِ یَومِکُمْ ھٰذَا فِی بَلَدِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا۔(بخاری:۱۷۳۹،مسلم:۱۶۷۹)
’’تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت وآبرو ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح آج کا دن ،یہ شہر اور یہ مہینہ حرام ہے۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
بَایِعُوْنِی عَلیٰ أنْ لاَ تُشْرِکُوا بِاللّٰہِ شَیْئاً وَلاَ تُسْرِقُوا وَلاَ تَزْنُوا وَلاَ تَقْتُلُوا أوْلاَدَکُمْ۔(بخاری:۱۸،مسلم:۱۷۰۹)
’’مجھ سے بیعت کرو اس پر کہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک نہ کروگے ،کسی کا مال چوری نہ کروگے،کسی کے ساتھ بدکاری نہ کروگے اور اپنی اولاد کو قتل نہ کروگے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ألَالَاتَظْلِمُوْا۔
’’لوگو! سن لو۔ کسی کے اوپر زیادتی نہ کرو۔‘‘
آپؐ نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا، پھرفرمایا:
إنَّہ لَایَحِلُّ مَالُ إمرئٍ إلّا بِطِیْبِ نَفْسٍمِنْہُ۔(مسند احمد: ۲۰۶۵۹)
’’ کسی شخص کا مال لینا تمہارے لیے جائز نہیں ہے ، اس کی اجازت کے بغیر۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَتْ لَہ مَظْلِمَۃٌ لِأحَدٍ مِّنْ عِرْضِہِ أوْ شَیْءٍ فَلْیَتَحَلَّلْہَ مِنْہُ الیَوْمَ ، قَبْلَ أنْ لَایَکُوْنَ دِینَارٌ وَلَادِرْھَمٌ، إنْ کَانَ لَہ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنہُ بِقَدْرِ مَظلِمَتِہِ، وَإنْ لَمْ تَکُنْ لَہ حَسَنَاتٌ اُخِذَ مِنْ سَیِّءآتِ صَاحِبِہ فَحُمِلَ عَلَیہِ۔(بخاری:۲۴۴۹)
’’جس شخص نے کسی کی عزت وآبرو یا کسی اور تعلق سے کسی پر زیادتی کی ہو تو وہ آج ہی اس سے اپنے آپ کو پاک کرلے، یعنی اس سے معافی مانگ لے،اس دن سے قبل جب دینار و درہم کام نہیں آئیں گے، بلکہ اس شخص کے نیک اعمال اس شخص کو دے دیے جائیں گے جس پر اس نے کسی طرح کی زیادتی کی ہوگی اور اگر اس کے نیک اعمال ختم ہوگئے تو اس شخص کی برائیاں اس پر لاد دی جائیں گی اور اس کو جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔‘‘
ایک حق جو بہت زیادہ پامال ہوتاہے وہ ہے نجی زندگی کے تحفظ کا حق۔ کسی شخص کو کسی کی جاسوسی کرنے کا حق نہیں ہے، کسی کی نجی زندگی میں جھانکنے کا حق نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے گھر کے اندر کوئی برائی کررہاہے تو کسی بھی تدبیر سے اس برائی کو ریکارڈ کرنے اور اس کو عوام میں پھیلانے کا حق نہیں ہے۔ یہ بات قرآن میں کہی گئی ہے:
وَلَا تَجَسَّسُوْا۔(الحجرات:۱۲)
’’اور ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ لگو۔‘‘
یہ بات اللہ کے رسولﷺ کی احادیث میں بھی بار بار آئی ہے۔
ایک شخص آپؐ سے ملنے آیا ۔اس نے اجازت لینے کے بجائے دیوار میں سوراخ سے جھانکا۔آپؐ کو اندازہ ہوگیا ۔اس وقت آپؐ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، جس سے سر کھجارہے تھے ۔آپؐ نے فرمایا: اگر مجھے پتہ چل گیا ہوتا تو یہ لکڑی میں تمہاری آنکھ میں گھسادیتا۔پھر آپؐ نے فرمایا:
إنَّمَا جُعِلَ الأذْنُ مِنْ قِبَلَ الأبْصَارِ۔(بخاری:۵۹۲۴)
’’اجازت لینے کا حکم اسی لیے تو دیاگیاہے کہ کسی کی نگاہ کسی ایسی چیز پر نہ پڑجائے جس کو آدمی ناپسند کرتاہے۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک صاحب نے اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیا: کیا میں اپنی ماں کے گھر جاؤں تب بھی اجازت لوں؟ آپؐ نے فرمایا : ہاں اجازت لو۔انہوں نے کہا : میری ماں الگ مکان میں رہتی ہیں توکیا وہاں جاؤں تب بھی اجازت لوں؟ آپؐ نے فرمایا :ہاں ، وہاں جاؤ تب بھی اجازت لو۔ انہوں نے پھر کہا : مجھے بار بار جانا پڑتاہے ۔ کیا بار بار اجازت لوں؟اللہ کے رسول ﷺ نے سمجھانے کے انداز میں فرمایا: اگر تمہاری ماں کسی ایسی حالت میں ہو جس کو دیکھنا تمہارے لیے مناسب نہ ہو اور تم اچانک وہاں پہنچ جاؤ اور ان پر تمہاری نظر پڑجائے تو کیا تم اس کو پسند کروگے؟ انہوں نے کہا :اے اللہ کے رسول !میں پسند نہیں کروں گا۔ آپ نے فرمایا :اسی لیے اجازت لینے کا حکم دیاگیاہے۔(مؤطا امام مالک:۲۷۶۶)
ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ حضرت سعد بن عبادہؓ سے ملنے کے لیے تشریف لے گئے ۔آپؐ نے کہا: السلام علیکم۔ کوئی جواب نہیں ملا۔ پھر السلام علیکم کہا ،مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ تیسری مرتبہ پھر السلام علیکم کہا ،پھر کوئی جواب نہیں آیا تو آپؐ خاموشی سے واپس ہوگئے۔ حضرت سعدؓ پیچھے سے دوڑ کر آئے ، آپؐ سے چمٹ گئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں نے ہر بار آپ کا سلام سنا ،لیکن میں چاہتاتھا کہ آپؐ بار با ر میرے لیے سلامتی کی دعاکریں۔ اللہ کے رسولؐ نے کسی طرح کی ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔(ابوداؤد:۵۱۸۵) اس لیے کہ قرآن مجیدمیں حکم دیا گیاہے کہ جب تم کسی کے گھر جاؤ تو اجازت لو۔ اگر کوئی جواب نہ ملے تو واپس ہوجاؤ۔(النور:۲۷)
حقوق کے سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ ان کی ادائیگی میں کسی طرح کے مراتب کا لحاظ نہیں کیاجائے گا۔ ہر انسان بحیثیت انسان ان حقوق کا مستحق ہے، چاہے وہ رشتہ دار ہو یا اجنبی ، آقا ہو یا غلام،چاہے وہ جس سماجی حیثیت کا مالک ہو، اللہ کے رسولﷺ نے اس چیز کی ضمانت دی ہے کہ اس کے تمام بنیادی حقوق ادا کیے جائیں اور اس میں ذرا بھی کوتاہی نہ کی جائے۔خطبۂ حجۃ الوداع میں آپؐ نے پہلے سورۂ حجرات کی تلاوت کی :
یٰأَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنٰکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقٰکُم۔ْ (آیت:۱۳)
’’لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیداکیااور تمھیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا، تاکہ تمہارا ایک دوسرے سے تعارف ہو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ہے۔‘‘
پھر فرمایا:
ألَا لَافَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلیٰ عَجَمِیٍّ ، وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلیٰ عَرَبِیٍّ ، وَلَا أحْمَرَ عَلیٰ أسْوَدَ وَلَا أسوَدَ عَلیٰ أحْمَرَ إلَّا بِالتَقْویٰ۔(مسند احمد:۲۳۴۸۹)
’’نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر، نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر ، نہ کسی کالے کو کسی گورے پر، نہ کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت ہے۔ اگر فضیلت ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر ۔‘‘
اس حدیث کی معنویت ، جامعیت اور عظمت کا احساس ہمیں اس وقت ہوگا جب اس زمانے کا عرب سماج ہماری نگاہوں میں ہو۔ عرب اپنے آپ کو دنیا کی تمام مخلوقات سے برتر سمجھتے تھے۔ اسی لیے وہ ان کو’ عجم‘ کہتے تھے۔ عجم کے معنیٰ ہوتے ہیں گونگا۔پھر عربوں میں بھی بعض قبیلے ایسے تھے جواپنے آپ کو برتر اور دوسرے قبیلوں کو حقیر سمجھتے تھے۔ مثال کے طور پر قریش کے لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھتے تھے ۔ چنانچہ وہ حج کے دوران مزدلفہ تک ہی جاتے تھے اور دوسرے لوگوں کو تمام مراسم کی ادائیگی کرنی پڑتی تھی۔دوسرے قبائل میں بھی اونچ نیچ کا تصور راسخ تھا۔عربی شاعر کہتاہے:
فَغُضِّ الطَّرْفَ اِنَّکَ مِنْ نُمَیْرٍ
فَلَا کَعْباً بَلَغْتَ وَ لَا کِلَابا
"تو قبیلۂ نمیر کا آدمی ہے، اپنی نگاہ جھکاکر رکھ۔تو نہ کعب کے برابر پہنچ سکتاہے ، نہ کلاب کے برابر۔”
جس سماج میں قبیلوں کے درمیان اتنی اونچ نیچ تھی، اس میں آپؐ نے اعلان کیا کہ کسی طرح کی کوئی اونچ نیچ نہیں ہے۔ بحیثیت انسان تمام انسان برابر ہیں۔
یہ محض آپؐ کی تعلیمات ہی نہیں تھیں ، بلکہ ان پر آپؐ نے عمل کرکے دکھایا۔ جب مکہ فتح ہوا تو آپؐ نے حضرت بلالؓ کو بلایا اور فرمایا : بلال تم خانۂ کعبہ کے اوپر چڑھ کر اذان دو۔ روایات میں آتاہے کہ یہ منظر دیکھ کر بعض لوگوں کی قبائلی عصبیت بھڑک اٹھی ۔ ایک صاحب تو کہنے لگے: اچھا ہوا کہ اس منظر کو دیکھنے سے پہلے میرے باپ کا انتقال ہوگیا۔ لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے ہر طرح کی جاہلی عصبیت اور اونچ نیچ کو ختم کیا۔
آخر میں اس جانب توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتاہے کہ حقوق انسانی کے چارٹر کی دفعات پر ہم تنقید کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو صرف خوب صورت نعرے ہیں، اچھے اچھے سلوگنس ہیں، محض اعلانات ہیں، لیکن ان کے پیچھے قوتِ نافذہ نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم اسلامی تعلیمات پیش کرتے ہیں، اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات پیش کرتے ہیں اور ان کے امتیازات بیان کرتے ہیں۔لیکن ہمارے لیے غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اگر ہم بھی ان ارشادات اور تعلیمات کو مختلف مواقع پر صرف بیان کردیاکریں ، ہماری زندگیوں میں ان کے اثرات نہ پائے جاتے ہوں تو گویا ہم بھی ان ارشادات کو خوب صورت نعروں کے انداز میں پیش کرنے والے ہوں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود بھی ان تعلیمات پر عمل کریں اوراپنی زندگیوں میں انہیں نافذ کریں۔ افسوس ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے سلسلے میں اللہ کے رسول ﷺ کی ان تعلیمات پر عمل نہیں کیاجاتا اور ان کی حیثیت خوب صورت نعروں کی ہوکر رہ گئی ہے۔ تمام مسلم ممالک کا حال ہمارے سامنے ہے۔ ان میں انسانی حقوق کی جتنی پامالی ہورہی ہے اتنی غیر مسلم ممالک میں بھی نہیں ہوتی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے اور اللہ کے رسولﷺ کی دی ہوئی ان تعلیمات پرعمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
* * *