وادی میں رواں ماہ میں موسم کی غیر متوقع تبدیلی نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیاجس کے سبب وادی میں میوہ باغات کو کڑوڑوں کا نقصان پہنچا۔چونکہ ابھی چند علاقوں میں پھل درختوں پر ہی تھے جس کی وجہ سے درختوں کی تباہی زیادہ دیکھنے کو ملی ہے ۔برف باری کی زد میں آئے جن اضلاع کو زیادہ نقصان پہنچا ہے اُن میں جنوبی کشمیر کے شوپیان ،پلوامہ اور کولگام کے اضلاع قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح سے وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل اور بڈگام کے علاو ہ شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ اور بارہمولہ کے متعدد علاقے اس غیر متوقعہ برفباری کی زد میں آئے ہیں ۔اسی دوران بارہمولہ اور اسلام آباد کی لگ بھگ 5000میوہ گاڑیاں سرینگر جموں شاہراہ پر درماندہ ہو گئی تھیں۔برف باری سے ہوئی تباہی میوہ باغات کو ہوئے نقصانات کی وجہ سے اخبارات اور سوشل میڈیا پرروح فرساں مناظر دیکھنے اور پڑھنے کو ملے ۔چونکہ میوہ صنعت کو کشمیر میں مالی طور پر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ اس صنعت کے ساتھ یہاں کے عوام کی اُمیدیںوابستہ ہیں ۔خدا نخواستہ اگر ہماری میوہ صنعت کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا تو یہ کشمیری عوام جو پہلے سے ہی سینکڑوں مصائب میں جھوجھ ہی ہے کے مشکلات میں اضافے کا باعث بنے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے وقت بارشیں اور موسم میں نہ جانے اس طرح کی غیر متوقع تبدیلیاں جو ہمارے لیے آئے روز مشکلات میں اضافے کا باعث بنتی ہیں کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس حوالے سے میں یہاں چند باتوں کی جانب آپ کو لے جانا چاہوں گا۔
عصر حاضر میں دنیا کو دو چیزوں کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ایک گلوبل وارمنگ اور دوسرا ایٹمی و نیوکلیائی ہتھیار وں کی بڑھتی ہوئی دوڑ ۔یہ دو ایسی انسانیت کُش چیزیں ہیں جن کو اگر بر وقت نہیں روکا گیا تو غیر ممکن نہیں کہ دنیا مستبقل میں پرُامن زندگی جینے کے لیے ترسے گی۔اس حوالے سے جب ہم ذرا گہرائی سے ان دو چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایٹمی ہتھیار وں سے زیادہ اس وقت دنیا کو گلوبل وارمنگ کا خطرہ ہے ۔یہ گلوبل وارمنگ ہے کیا؟ دراصل موسموں کی غیر متوقع تبدےلی کا نام ہے جس سے گلےشےر پگھلتے ہےں جوبعد ازاں سےلابوں کا باعث بنتے ہےں۔اےک رپورٹ کے مطابق پچھلے چند برسوں میں ۲ ارب سے زائد لوگ سےلابوں سے متاثر ہوئے ہےں۔گلوبل وارمنگ مےں آکسےجن کی کمی ،کاربن ڈائی آکساےڈ گےس مےں اضافہ، پانی میں تیزابے،سمندروں کی سطح کا بلند ہونا،سمندروں کا درجہ حرارت بڑھنا،قطبےن پر برف پگھلنا جیسے عوامل قابل ذکر ہےں۔ اس کے اثرات خشکی پر زےادہ ہےں اور اس کے بعد فضائی آلودگی دوسرے نمبر پر ہے۔موسموں کی غیر متوقع تبدیلی قحط سالی ،بادسموم ،طوفانی بارشےں اورسےلاب انسانی زندگی کے لئے قدرتی آفات ہےں ۔ گلوبل وارمنگ کی وجوہات یہ ہیں جنگلات کا کٹاﺅ ،آبی ذخائر کی آلودگی ،ہوا کو زہریلی گیسوں کے ذریعے آلودہ کرنا وغیرہ ہیں ۔قدرت نے ماحول اور آب و ہوا مےں اےک توازن قائم کےا ہوا ہے جب ےہ توازن بگڑتا ہے تو کرہ¿ ارض پر تبا ہی آتی ہے ۔اس زمےں پر بسنے والے تمام انسانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس توازن کو برقرار رکھنے مےں معاونت کرےں۔
جب ہم عصر حاضر پر اپنی نظرےں دوڑاتے ہےں تو ہمےں اےسا کچھ نظر نہےں آتابلکہ اس کے بر عکس انسان نے دنےا مےں قدرت کے کارخانے سے چھیڑ کھانی کی جُرا ت کی ہے جس کی وجہ سے ہم آج بدترےن گلوبل وارمنگ کا شکار ہو گئے ہےں۔ہم جس اور بھی اپنی نظرےں دوڑاتے ہےں اس طرف سر سبز جنگلوں کو کٹا ہوا پاتے ہےں ۔آکسےجن تما م جانداروں کے لئے ناگزےر ہے۔جنگےں گلوبل وارمنگ میں روز افزوں اضافے کا باعث بن رہی ہےں۔دوسری عالمی جنگ ہےرو شےما ناگا ساکی کی تباہی پر ختم ہوئی۔امرےکہ نے نہ صرف عالمی دہشت گردی کا مظاہرہ کےا بلکہ اےٹمی اسلحہ کے استعمال سے تاب کاری سے آلودگی کو اس حد تک بڑھاےا کہ برسوں بعد بھی ان شہروں مےں اپاہچ بچے پےدا ہوتے ہےں ۔پوری دنےا مےں ہتھےا رلےنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر اےک ےہی چاہتا ہے کہ مےں ہتھےا ر لےنے مےں دوسرں سے آگے بڑھ جاو¿ں ۔ جب ہم کشمیر کی بات کرتے ہیں تو یہاں پر بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہم بدترین گلوبل وارمنگ کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس کی چند وجوہات پر پہلے بات کریں گے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کشمیر کو دنیا کی جنت کہا جاتا ہے ۔یہاں کی آب و ہوا، یہاں کے سرسبز جنگلات ،پیڑ پودے اوریہاں کے آبی ذخائر ساری دنیا میں مشہور ہیں ۔لیکن جب ہم موجودہ دور میں کشمیر کی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں مایوسی کا مُنہ دیکھنا پڑتا ہے ۔ہم بھی دنیا کے جنگ زدہ ممالک کی طرح اس وقت بُری طرح سے گلوبل وارمنگ کا شکار ہو گئے ہیں جس کے سبب آئے روز غیر متوقع بارشیں ،موسمیاتی تبدیلیاں ،آب و ہوا کا آلودہ ہونا اور 2014ءکا بھیانک ترین سیلاب کے ساتھ ساتھ گزشتہ دنوں بے وقت بارشیں اور برف باری سے وادی میں کڑوڑوں روپے کی میوہ صنعت کو نقصان ہمارے سامنے عیاں و بیاں ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق غیر متوقع برف باری کی وجہ سے وادی¿ کشمیر میں جو تباہی ہوئی ہے وہ 135,744کڑورڑ روپے کی ہے اور اسی طرح سے 537,7400پیڑوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ماہرین کے مطابق آنے والے وقت میں کشمیر میں سیب کی صنعت کو نقصان کی وجہ سے سیب کی پیداوار میں کمی واقع ہوگی ۔ماہرین نقصان کی وجہ وقت سے پہلے برف باری کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ابھی چند جگہوں پر سیب درختوں سے اُتارے نہیں گئے تھے اور پتے سبز ہونے کی وجہ سے وہ برف کا وزن برداشت نہیں کر سکے جس کی وجہ سے اس نقصان سے کشمیر کو دو چار ہونا پڑا ۔یہ برف باری شدید قسم کی تھی آپ کو اس کا اندازہ ایسے ہوگا کہ سیب کے باغوںکی تباہی ایسا لگتا تھا جیسے کسی منظم طریقے سے مشین وغیرہ سے یہ درخت توڑے گئے ہوں۔برف باری کے اگلے دن سوشل میڈیا پربے حد اذیت ناک مناظر دیکھنے کو ملے جن میں خواتین کے ساتھ ساتھ مرد حضرات کو آپنے باغوںکی تباہی کودیکھ کر آنسو نہاتے ہوئے دیکھا گیا۔اس حوالے سے ہمارے ماہرین نقصان سے بچنے کے لئے الگ الگ قسم کی نیم حکیم تھیوریز دیتے ہیں جیسے گورنر صاحب نے نقصان سے بچنے کے لئے لوگوں سے کہا کہ گہرائی سے سیب باغوں کی شاخ تراشی کی جائے تا کہ مستقبل میں کسی قسم کا نقصان دوبارہ نہ اُٹھانا پڑے ۔اسی طرح سے ہر ایک میڈیا میں چھائے رہنے کے لیے طرح طرح کے بیانات دیتے ہیں۔ چند حضرات کہتے ہیں کہ متاثرین کو معاوضہ دیا جائے، ان کے قرضے معاف کئے جائیں جس سے ہمیں اختلاف نہیں بلکہ یہ ہونا بھی چاہیے۔جو بھی اس نقصان سے متاثر ہوئے ہیں ان کو بروقت معاوضہ اور ان کے قرضوں کو فی الفور معاف کر دینا چاہیے ۔مگر اصل وجہ جاننے کی کوئی کوشش نہیں کرتا کہ یہاں یہ غیر متوقع بارشیں ،برفباری،تباہ کن سیلاب وغیرہ کی اصل وجہ کیا ہے ؟یہ ایسی ہی بات ہے کہ ڈاکٹر مریض کے اصل درد کی اصل وجہ تک پہنچے بغیر ہی وقتی طور اس کے درد کی شدت کو کم کرنے کی دوائی تفویض کرے اور اصل درد کی جگہ نہ پہنچے ۔اُس مریض کا انجام کیا ہوگا وہ ہم سب جانتے ہیں ۔اسی طرح سے کشمیر میں موسمیاتی تبدیلیوں اور اس طرح کی طوفانی بارشوں اور برف باری کی وجوہات کو جاننے کی کوشش کوئی نہیں کرتا۔ جبکہ اس کی وجہ یہاں کا ذی حس طبقہ خوب جانتا ہے ۔چونکہ گزشتہ سطور میں پہلے ہی بتا چُکا ہوں کہ جموںو کشمیر بھی اس وقت بدترین گلوبل وارمنگ کی لپیٹ میں آگیا ہے جس کی وجہ سے آئے روز ہم یہ تباہی دیکھ رہے ہیں ۔جموںو کشمیر کے حل طلب تنازعے کی وجہ سے یہاں کا تعلیمی نظام ،سیاسی و سماجی نظام ،موسمیاتی نظام وغیرہ شدید قسم کی تباہی کی اور جا رہا ہے ۔ہم نے دیکھا کہ کس طرح سے یہاں اغیار نے ایک منظم پروگرام کے تحت آبی ذخائر کو تباہ کیا، یہاں کے جنگلات کا صفایا کیا ،یہاں تک کہ یہاں کے جنگل کاٹ کاٹ کر جہازوں میں لے جا کر ملک کے الگ الگ شہروں میں گھر تعمیر کئے گئے۔ اسی طرح سے یہاں سات لاکھ کی تعداد میں فوج اور اس کے ساتھ ساتھ مظاہرین پر ہر دن ہزاروں آنسو گیس گولوںکے ساتھ ساتھ انکاونٹر سائٹس پر مکانوں اور بستیوں کو بم اور بارود سے ایسے اُڑیایا جا رہا ہے جیسے یہاں دو ملکوں کی فوجیں آپس میں لڑ رہی ہوں ۔یہ سارا زہر ریلا بارود اور ہر دن ہزاروںآنسوں گیس کے گولے جب جموں کشمیر کی فضا میں تحلیل ہو جاتے ہیں تو کیا ہمارے یہاں موسمیاتی تبدیلی واقع نہیں ہوگی؟یہاں یاترا کے نام پر ہمارے ندی نالوں، دریاوں اور سرسبز پہاڑوں کو گندہ اور غلیظ کیا جارہا ہے۔ہمارے کہنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ یاترا نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہم ہی تو ہیں جنہوں نے یاتریوں کی ہر وقت مدد کی، ان کو اپنے گھروں میں پناہ دے کر ایک اچھے میزبان کا حق بھی ادا کیا۔ لیکن ہمیں اگر اعتراض ہے تو وہ اس بات پر کہ یہاں یاترا کے نام پر سیاست کر کے کشمیرکی پاک و صاف فضا کو آلودہ کیا جا رہا ہے ۔ یاتریوں کے سیزن میں کشمیر میں ہر دن 20ہزار یاتری آکر سندھ طاس ندیوں کے منبعے کولاہی اور تھجواسن گلیشرز کو اپنے پیروں کے نیچے روند کر تباہ کر دیتے ہیں ۔پچاس سال قبل چناب کے طاس کا تقریباً8000مربع کلو میٹر کا علاقہ برف سے ڈھکا رہتا تھااور آج وہی گھٹ کر صرف 4000مربع کلو میٹر رہ گیا ہے ۔پیر پنجال رینج میں تو اب نام کے ہی گلیشر باقی ہیں ۔اب تو بھارتی حکومت نے پیر پنجال کے پہاڑوں میں واقع کوثر ناگ کی یاترا کے حوالے سے ماحول سازگار بنا رہی ہے ۔یہ کوثر ناگ پانی کاچشمہ جنوبی کشمیر کے اہر بل کی مشہور آبشار ،دریائے ویشو اور ٹونگری کو پانی فراہم کرتا ہے ۔چند سال پہلے ماہرین نے ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر امر ناتھ گھپا تک سونہ مرگ کے پاس بل تل کے راستے ہزاروں یاتریوں کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہا تو ماحولیات اور گلیشیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ان ساری پیشن گوئیوں کو نظر انداز کر کے اب حکومت نے یاترا کو ایک ماہ سے بڑھا کر تین ماہ کر دیا ہے اور یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے پر بھی راضی نہیں ۔آنے والے وقت میں ایسا لگ رہا ہے کہ یہ تعداد دس لاکھ تک پہنچ جائے گی کیوں کہ اب یہ مذہبی معاملہ نہیں رہا بلکہ یہ ہندو توا کے جھنڈے کو کشمیر میں بلند کرنے کی ناکام کوشش ہے ۔اسی گلوبل وارمنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے 2008ء میں اُترا کھنڈ صوبے کی اُس وقت کی بی جے پی کی حکومت نے دریائے گنگا کے منبعے ہندوﺅں کے مقدس استھا ن گومکھ گلیشر کو بچانے کے لئے وہاں جانے پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں جس کی رو سے اب ہر روز صرف 250یاتری او ر سیاح گومکھ کے درشن کر پاتے ہیں ۔بھارت کے ساتھ ساتھ یہاں کی مقامی سیاسی جماعتیں بھی ہم پر مہربان رہی ہیں اور اس کی ایک مثال حالیہ ایک اور رپورٹ میں دیکھنے کو ملی رپورٹ میں 220kvترسیلی لائین کے لئے گاندربل میں 11کمپارٹمنٹوں میں سرسبز جنگلات کو تہیہ تیغ کیا جائے گا۔کنگن او ر گاندربل مین بجی کی ترسیلی لائین پہنچانے کے لئے جنگلات کے درختوں کی بے تحاشا کٹائی جاری ہے ۔اخباری خبروں کے مطابق لداخ سے آلسٹینگ علاقے 220kvترسیلی لائن بچھائی جا رہی جس کی وجہ سے گاندربل کے سندھ جنگلاتی رینج کے درجنوں درختوں کو تہیہ تیغ کیا جا رہا ہے ۔درختوں کی کٹائی کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے ماحولیاتی توازن بگڑنے کا خطرہ ہے۔اسی طرح کی اور ایک خبر گزشتہ دنوں وادی کے مو¿قر اخبارات میں سرخیوں کی زینت بنی جس میں کشتواڑ جنگلات میں پکل ڈُول بجلی پروجیکٹ کے لئے 1290دیودار کے درختو ں کو کاٹنے کی تیاری ہے درختوں کی مارکنگ بھی کی گئی ہے منصوبے کی زد میں 354.74جنگلاتی اراضی لائی گئی ہے اس تشویش ناک صورتحال کے حوالے سے ماہرین نے کہا ہے کہ اگر آبی ذخائر اور جنگلات کی روک تھام ر وک لگائی تو ریاست تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی اور وادی میں 2014ءکے سیلاب کی طرح ایک اور قیامت خیز سیلاب آسکتا ہے ۔
یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کشمیر میں ماحولیاتی توازن کے بگاڑ کے لئے دنیا کو ماحولیات کا درس دینے والے ہی ہیں جس کی وجہ سے ہمیں آئے روز اس طرح کے نقصانات جھیلنے پڑتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیر کے ذی حس انسان اُٹھ کھڑے ہوں اور کشمیر کو گلوبل وارمنگ کے اس بدترین دلدل سے نکالنے کی کوشش کریں۔کشمیر کی عوام کو انتظامیہ پر دباو ڈالنے کی ضرورت ہے تا کہ یہاں کے سر سبز و شاداب جنگلات کی بے دریغ کٹائی نہ ہو قدرت کے نظام کے ساتھ اپنے اپنے مفادات کی خاطر چھیڑ کھانی نہ کی جائے، آبی ذخائر پر تعمیرات پر مکمل پابندی ہو اسی طرح سے یاترا کی مدت کم کر کے ان کی تعداد میں بھی کمی کی جائے ۔اقوام عالم کو بھی چاہیے جو کہ دنیا کو ماحولیات اور گلوبل وارمنگ کے حوالے سے بھارت پر دباو¿ بنائیں تا کہ وہ کشمیر کی فضاوو¿ں کو آلودہ نہ کر یں ،یہاں کے گلیشرز کو تباہ و برباد نہ کرے یہاں کے آبی ذخائر کو ختم نہ کرے ۔ علاوہ ازیںہمیں بھی چاہیے کہ کم کسے کم اپنے اپنے مقامی جگہوں پر شجرکاری کی جائے ،آبی ذخائر کو آلودگی سے بچایا جائے ،جنگلات کا تحفظ کیا جائے ،لوگوں کے اندر ایک احسا س پیدا کیا جائے کہ کس طرح سے ہم گلوبل وارمنگ سے بچ سکتے ہیں ۔ با قی رہا حکومت کے فرسودہ بیانات کہ آپ یہ احتیاط کریں وہ احتیاط کریں یا شاخ تراشی کریں وغیریہ اصل میں بُنیادی وجہ سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش ہے۔
٭٭٭