موجودہ دور میں بہت سارے علوم و فنون پائے جاتے ہیں سوال یہ ہے کہ کون سا علم عند اللہ محبوب و پسندیدہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو علم انسان کے لیے نفع بخش ہو، اللہ کی معرفت کا ذریعہ بنے، آخرت کی جواب دہی کا احساس پیدا ہو اور یہ سب کچھ علم دین ہی سے ممکن ہو سکتا ہے۔
آج علمی اعتبار سے انسان بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہے نئی نئی تحقیقات پیش کر رہا ہے وہی انسان اخلاق سے گری ہوئی حرکات کا مرتکب بھی ہو رہا ہے بڑے بڑے جرائم انجام دے رہا ہے بلاشبہ انسان کو علم دین سے آشنائی نہیں تو تمام علوم کے حصول کے بعد بھی وہ ناکارہ ہے اسی لیے شریعت اسلامیہ نے علم دین کے حصول کو واجب قرار دیا تاکہ وہ نیک اور مہذب انسان بن کر خوشگوار زندگی بسر کر سکے۔ افسوس ہے ان لوگوں پر جو علم دین حاصل کرنے کے بعد عمل سے دور ہو جاتے ہیں، اس کے تقاضوں پر عمل پیرا نہیں ہوتے
ولکن کونوا ربانیّین بما کنتم تعلمون الکتاب وبما کنتم تدرسوں(آل عمران:۷۹)
’’لیکن تم لوگ اللہ والے بن جائو بوجہ اس کے کہ تم کتاب سکھاتے ہو اور بوجہ اس کے کہ پڑھتے ہو۔‘‘
قرآن مجید کی یہ آیت بھی ایک مستقل معجزہ ہے بلکہ معجزات کا مجموعہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ولکن کونوا ربانیّین‘‘ لیکن تم اللہ والے بنو، پھر اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے ربانیین کا لفظ استعمال کیا ہے اس میں تربیت بھی داخل ہے، یعنی وہ عالم جو ایک طرف رب سے تعلق رکھتا ہو، رب سے اس کاتعلق صحیح ہو، اخلاص اس کو حاصل ہو اور دوسری طرف اس کو ایمان و احتساب کا درجہ حاصل ہو، یعنی وہ دعوت و تربیت اور اصلاح کی طرف بھی متوجہ ہو۔
میں عربی زبان کے ایک طالب علم کی حیثیت سے نہیں جانتا کہ کوئی لفظ اتنا جامع و معنی خیز اور ایسا توجہ طلب اور نظر افروز ہوسکتا ہے، علمائے امت اور علمائے اسلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ ربانیین کے لفظ سے یاد کرتا ہے، ’’ اللہ والے بنو‘‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی صفت میں’’رب ‘‘کا لفظ انتخاب فرمایا گیا کہ ایسے علماء بنو جن کے اندر تربیت کا مادہ ہو، تربیت کی صلاحیت بھی ہو، انہیں کو علمائے ربانیین کہتے ہیں۔
حقیقت میں علمائے ربانیین وہ ہیں’’ولکن کونوا ربانیین‘‘ کہ اللہ تعالیٰ ان سے دین کی تعلیم کا بھی کام لے اور دین کی اشاعت کا بھی اور اصلاح کا بھی اور شریعت پر اور سنت پر عمل کرنے کا بھی اور جو چیز ان کی امتیازی ہے وہ ایمان اور احتساب ہے اور یہی ربانیین کے لئے ضروری ہے کہ جو کام بھی کیا جائے اللہ کی رضا کے لئے کیا جائے، اللہ کی قدرت اور استعانت پر یقین کرتے ہوئے بھی اور پھر اجر و ثواب کے لالچ سے کیاجائے۔
پھر اس کے بعد فرمایا کہ’’بما کنتم تُعَلِّمُوْنَ الکتاب وبما کنتم تدرسون‘‘ کہ تم دوسروں کو کتاب کی تعلیم دو، اس کے ساتھ’’تدرسون‘‘ کا لفظ بھی لگایا گیا جو ہمارے اور آپ سب کے لئے قابل غور ہے کہ عالم ربانی، عالم کامل اور باکمال بن جانے کے بعد بھی ضرورت ہے کہ مطالعہ جاری رہے، استفادہ اور علمی سفر جاری رہے، علمی ترقی جاری رہے تحقیق و تدوین جاری رہے جہاں تک آپ علمی سفر میں تھکاوٹ محسوس نہیں کریں گئے تب تک آپ کے علم و فضل میں برکت ہوتی رہے گئی پر جوں ہی آپ کے ساتھ یہ بات چپک جائے کہ آپ صاحب فضل و کمال ہیں تو اسی لمحے سے زوال علم و فضل کی شروعات ہوجائے گئی
اخلاص دین اسلام کی اساس و بنیاد ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اخلاص کا پابند بنایا ہے کوئی عمل خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کو ادا کرنے والا کس قدر قربانی کیوں نہ پیش کرے اگر اس میں اخلاص نہ ہو تو وہ مردود ہوتا ہے ۔ اس حدیث نبوی کا مطالعہ فرمائیں جس میں ان تین بدنصیب اشخاص کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کے ساتھ آتش جہنم کو بھڑکایا جائے گا ( العیاذ باللہ ) وہ قاری قرآن ، سخی اور مجاہد ہوں گے جنہوں نے اپنی جان و مال اور وقت کی قربانی پیش کی ہو گی جو انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے لیکن ان تینوں کی نیکیاں عدم اخلاص کی وجہ سے قبول نہ ہوں گی
علماء کا مسلسل محاسبہ نفس کرنا اور میدان دعوت میں اپنے وسائل و ذرائع اور نتائج و ثمرات پر بار بار نظرثانی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ علماء کو اپنے نقائص و عیوب پر نظر رکھنی چاہیے اور ان کو دور کرنے کے لیے جستجو کرتے رہنا چاہیے
علماء و فقہاء کے جن اوصاف واخلاق کا ہم نے جو ان سطورِ میں تذکرہ کیا ہے ڈھونڈھنے والوں کو ان سب کی دلیلیں ان احادیث وآثار میں مل جائیں گی ۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ خوف وخشیت اور حیرانی وپریشانی اہل علم کو کیوں لاحق ہوتی ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ انھیں یہ یقین واذعان خوفزدہ کئے رہتا ہے کہ حق تعالیٰ ان سے اس علم کے متعلق عمل کے باب میں سوال کریں گے ، اسی باز پُرس کا استحضار انھیں بے چین کئے رہتا ہے ، اور اسی وجہ سے ہر معاملہ میں احتیاط برتتے ہیں
(2) وہ امتِ وسط کی حیثیت سے اعتدال اور صراطِ مستقیم پر قائم گروہ ہو، اور اس کے ہاتھ میں دینِ حق کی تعلیمات کا رشتہ ہو۔
(3) اس کا طرزعمل شکرِ خداوندی اور اطاعتِ الٰہی ہو۔
(4) وہ انعاماتِ الٰہی کا شعور، کلماتِ الٰہی کا فہم اور خشیتِ الٰہی کا مسلک رکھتا ہو۔
(5) وہ توحید، رسالت اور آخرت کے پختہ عقائد پر قائم اور ان کی روشنی میں معاشرتی زندگی کو استوار کرنے کا سلیقہ رکھتا ہو۔
(6) وہ اپنی زندگی میں تکبر اور نخوت کی روش سے اجتناب اور بندگیٔ رب کا اہتمام رکھتا ہو۔
(7) وہ امربالمعروف کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے، اور نہی عن المنکر کو مسلکِ زندگی۔ وہ تہذیب و شائستگی کا بھی مثالی نمونہ ہو۔ اس مقصد کے لیے سید مودودی نے مملکت کے ذمہ دار لوگوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی
علماء حق کی خصوصیات درج ذیل خصوصیات بیان کیں
1_ امن اور خوف کی حالت میں امت کے لئے فکرمند رہتے ہیں: ایسا نہیں ہے کہ امن کی حالت میں اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں اور خوف کی حالت میں ڈر جاتے ہیں ، اسی بات کو قرآن پاک کی سورہء نساء آیت نمبر 83 میں ذکر کیا گیا ہے کہ انھیں امن یا خوف کی کوئی خبر ملی تو انھوں نے مشہور کرنا شروع کر دیا حالاں کہ اگر یہ رسول یا عالم سے اس بات کی حقیقت معلوم کر لیتے تو اس کی حقیقت جانن لیتے ، اگر تم پر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے
2_ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں: قرآن پاک کی سورہء بقرہ آیت نمبر 44 میں ہے کہ تم لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو جب کہ تم کتاب پڑھتے ہو ، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں
3_ امتِ اسلامیہ کے لئے رحیم و شفیق ہوتے ہیں: قرآن پاک کی سورہء انبیاء آیت نمبر 107 میں ہے کہ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوشخبری سنانے والے بنو ، نفرت نہ پھیلاؤ ، آسانیاں پیدا کرنے والے بنو ، مشکلیں پیدا کرنے والے مت پیدا
4_ اللہ سے ڈرتے ہیں: قرآن پاک کی سورہء احزاب آیت نمبر 39 میں ہے کہ یہ سب ایسے تھے کہ اللہ کے احکامات پہونچایا کرتے تھے اور اللہ ہی سے ڈرتے تھے ، اور اللہ حساب لینے کے لئے کافی ہے ، یعنی علماء حق کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے اللہ ہی کافی ہے ، قرآن پاک میں ہے کہ علماء ہی اللہ سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں
5_ صبر کرتے ہیں: قرآن پاک کی سورہء عصر میں ہے کہ حق کی وصیت کی اور صبر کی تو ان کے لئے دنیا و آخرت کی کامیابی ہے ، علماء حق حق کو واضح کرتے ہیں اور آزمائش کے وقت میں صبر سے کام لیتے ہیں
6_ حکمت سے کام لیتے ہیں: قرآن پاک کی سورہء نحل آیت نمبر 125 میں ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلاتے ہیں اور دوسروں سے بہترین طریقے سے گفتگو کرتے ہیں
7_ مستند اور قابلِ اعتبار ہوتے ہیں: قرآن پاک کی سورہء جمعہ آیت نمبر 2 میں ہے کہ وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں سے ہی ایک رسول بھیجا جو قرآن کی باتیں بتاتا ہے اور ان کو گمراہی سے پاک کرتا ہے اور انھیں حکمت و نصیحت سکھاتا ہے ، جب کہ یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے
8_ فتاوی کی ذمہ داری ہے ہوتی ہے: علماء حق اسلامی مسئلے کے سلسلے میں اپنے فتووں سے امتِ اسلامیہ کی رہنمائی کرتے ہیں
9_ مخالفینِ اسلام کو گھیرتے ہیں اور اسلام کے نام پر گمراہی پھیلانے والوں سے آگاہ کرتے ہیں: قرآن پاک کی سورہء مائدہ میں ہے کہ اے رسول ! آپ اللہ کی باتوں کو لوگوں تک پہنچا دیجئے ، اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ نے ذمہ داری ادا نہیں کی ، اور آپ کو اللہ لوگوں سے بچا لے گا ، اگر اسلامی تعلیمات کے فروغ میں کوئی پریشانی یا مصیبت آۓ گی تو اللہ تعالی آپ کی مدد کرے گا
10_ حق کی حمایت اور باطل کی تردید کرتے ہیں: قرآن پاک کی سورہء مائدہ آیت نمبر 54 میں ہے کہ وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے
علماء کرام سے چند باتیں۔۔۔۔الطاف جمیل ندوی added by Daily Ilhaaq on
View all posts by Daily Ilhaaq →