بچوں کی تربیت قابل غور معاملہ ۔۔۔۔ جی ایم عباس

بچوں کی تربیت قابل غور معاملہ ۔۔۔۔ جی ایم عباس

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم و ملت کے بچے مسقبل کے شہری اور آنے والے وقت کا سرمایہ ہوتے ہیں. اس لیے بچوں کی تربیت جس انداز سے ہوگی مستقبل کا معاشرہ بھی اسی انداز کا ہوگا. بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو بالکل کورا کاغذ ہوتا ہے. ہم جو چاہیں اس پر تحریر کرسکتے ہیں. ایک بچہ جب اس دنیا میں جنم لیتا ہے تو اس کے لیے معاشرہ اسکے والدین سے شروع ہوتا ہے. اسکی اولین درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے. لیکن ساتھ ہی یہی بچہ اپنے باپ کا بہت اثر لیتا ہے. یعنی ماحول میں جو چیز سب سے پہلے اور سب سے زیادہ بچے کی شخصیت کو متاثر کرتی ہے وہ اسکے والدین کا کردار ہے. دراصل یہ والدین ہی ہوتے ہیں جو انسان کی زندگی میں سب سے پہلے رول ماڈل کے طور پر سامنے آتے ہیں. اسی لیے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا ذکر تاکیداً آیا ہیں. ہماردے دین میں جس شدومد کے ساتھ والدین کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اولاد کا والدین پر کچھ کم حق ہے. قرآنی تعلیمات اور سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روز روشن کی طرح واضع ہیں کہ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے دوران والدین کیا بہترین کردار ادا کریں. دراصل دنیا کا نظام چلانے کے لیے اللہ تعالی نے والدین کے دلوں میں اولاد کی اس قدر محبت ڈالی ہے کہ کسی خارجی دباؤ کے بغیر بھی اولاد کے خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں.
والدین کی خدمت کرنا ، انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور انکے حقوق کی ادائیگی اولاد پر فرض ہیں ، لیکن اولاد کی پرورش کے دوران والدین پر بھی  بہت اہم ذمہداریاں عائد ہوتی ہیں. خاصکر اس پُرفتن دور میں جہاں ہمارا معاشرہ بے حیائی ، بےراہ روی ، بےمروتی ، بداخلاقی ، بدصفاتی ، بدکرداری ، خیانت ، حسد ، بغض ، اطاعت دین اور اطاعت والدین سے بےذاری جیسے خبیث مسائل و مشکلات کے علاوہ خودغرضی و نمود و نمائش جیسے رضائل سے بگڑ چکا ہیں ، والدین پر کچھ زیادہ ہی لازمی ذمہداریاں عائد ہوتی ہیں. آج والدین کی نافرفانی کے علاوہ ربّ الکریم کی نافرمانی بھی عروج پر ہے. بے حیائی سے معاشرہ دوزخ بن چکا ہے. کھلے عام مغربیت سے متاثر ہوکر نوجوان لڑکے لڑکیاں سکولوں اور کالجوں کے اوقات کے دوران گپ شپ میں محو رہتے ہیں. 4G موبائلز کھلونے کی طرح ہماری نوجوان پود کے ان ہاتھوں میں ہوتے ہیں جن میں قرآن شریف کا نسخہ اور حدیث شریف کی کوئی کتاب ہونی چاہیے. سوشل میڈیا کی فحش اور مخرب اخلاق ویب سائٹس پر گھنٹوں اپنا قیمتی وقت صرف کرکے ہمارے نوجوان بالکل دِلی مریض بن چکے ہیں. نہ پڑھائی میں دلچسپی اور نہ ہی گھر کے کام میں کچھ لگن ، نہ بڑوں کی عزت اور نہ ہی بزرگوں کا احترام ، نہ نمازوں کی فکر اور نہ ہی تلاوت کلام پاک سے محبت ، نہ راتوں کو آرام اور نہ ہی دن میں چین …. بس صرف ہاتھوں میں android موبائیل لیے سگریٹ وغیرہ نشے کے عادی بن کر ہمارا یہ نوجوان معاشرہ کے لیے یقیناً ناسور بنتا جارہا ہے اور دوسروں کی بیٹی کو ا پنی بہن کا درجہ نہ دینے سے شیطان مردود کے بہکاوے میں آکر اپنی دنیا و آخرت تباہ کرتا جارہا ہے. اسطرح ہمارا نوجوان تباہی کے دہانے پر ہمارے ہی ہاتھوں پہنچ چکا ہے. لیکن افسوس…..!  معاشرے سے تعلق رکھنے والے افراد زمانے کو دوش دے کر کہتے ہیں معاشرہ بگڑ چکا ہے. ذرا سوچو تو سہی…! اس میں زمانے کا کیا قصور ہے؟ حالانکہ زمانے کو کسی بھی صورت میں بُرا کہنا شرعاً ناجائز عمل ہے. دراصل یہ ہمارے اعمال ہی صحیح نہیں ہیں جسکی وجہ سے ہمیں زمانہ خراب نظر آرہا ہے. سائنس کی ترقی نے کیسے معاشرہ سے حیا و احترام اٹھا لیا جو اکثر ہماری زبانوں پر الفاظ ہوتے ہیں. ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ آخری زمانے میں انسان (علم کے ذریعے) آسمانوں اور زمینوں کے رازوں سے پردہ اٹھائے گا. پھر بھی ہم زمانے اور سائنس کی ترقی کو دوش اور الزام دیتے ہیں کہ انکی وجہ سے معاشرہ بگڑ چکا ہے. سوشل میڈیا کی فحش ویب سائٹس سے بچنا اسلیے ناممکن ہے کیونکہ اسلام دشمن عناصر آپ کے نہ چاہتے ہوئے بھی یو ٹیوب وغیرہ ویب سائٹس کے ذریعے آپکو مخرب اخلاق ویڈیوز کی طرف راغب کرتے رہتے ہیں. اس سارے فتنے سے محفوظ رہنے کی صرف ایک ہی راہ ہے کہ آپ ایسی فحش websites نظرانداز کریں اور ضرورت کے مطابق ہی انٹرنیٹ کی سوشل میڈیا ویب سائٹس پر جایا کریں. یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان سائنسی علوم  کی وجہ سے ہی یہود و نصاری مسلمانوں کو ہر طرح سے غلام بنا چکے ہیں. ورنہ تعداد میں تو ہم ہی ان سے  بہت زیادہ  ہیں. دراصل یہ ہم ہی ہیں (یعنی والدین ہی ہیں) جو اپنے غیر ذمہدارنہ رویے سے ایسے معاشرے کو پنپے میں مدد گار اور معاون ثابت ہوتے ہیں. کیا یہ والدین ہی نہیں ہیں جو اپنے بچوں کے ہاتھوں میں  4G یا android موبائیل تھماتے ہیں…؟ کیا والدین کے سامنے ہی ان کی بیٹی ننگے سر بازروں میں گھومتی پھیرتی نہیں ہے …؟ کیا ایک ماں کی آنکھوں کے سامنے ہی انکی بیٹی سر کے بجائے کاندھوں پر دوپٹا اوڑے سکول اور کالیج جاتی ہے؟ کیا والدین کے بیچ ہی نہیں انکے بچے TV کے فحش  پروگرام دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں ؟ معاشرے کے بگاڑ کا جتنا زمہدار ہم نوجوان لڑکوں کو گردانتے ہیں اسے کہیں زیادہ ایک بے پردہ لڑکی معاشرہ میں بے حیائی اور بےراہ روی پھیلانے کی ذمہدار ہوتی ہے جو والدین کی غیر ذمہدارنہ سوچ اور رویے کی وجہ سے اس انتہا تک پہنچتی ہے. لاڈ پیار کی بھی حد ہوتی ہے. کچھ دنوں پہلے کی بات ہے. ہمارے ایک رفیق کا لاڑلا بیٹا ان سے سکوٹی کی ڈیمانڈ کرتا تھا. لیکن کم آمدانی کی وجہ سے وہ سکوٹی نہیں خرید سکتا تھا ، مزید برآں بیٹا بھی کم عمر ہے  ابھی سکولی تعلیم بھی پوری نہیں کی ہے. لاڑ پیار کی حد تو دیکھیے.  بیٹا بیمار ہونے لگا…ڈاکٹروں کے علاج و معالجہ سے کوئی افاقہ نہیں ہوا…. پیر و فقیر کی قیام گاہوں کے چکر لگاتا رہا…آخر کار اپنے پیر کے کہنے پر ہی اس نے با دلِ ناخواستہ بیٹے کے لیے سکوٹی خریدی اور بیٹا ایک دم صحت مند ہوا. اب ادھر بھی زمانے کو ہی دوش دو گے کہ نابالغوں کے ہاتھوں میں سکوٹیاں آگئی ہیں. آپ نے دیکھا ہوگا کس طرح ہمارے نوجوان سکوٹروں اور سکوٹیوں پر بہت ہی تیز رفتار سے سانپ جیسے چکر لگاتے ہوئے ہماری تنگ سڑکوں پر مستی کرتے رہتے ہیں. کیا کسی کی ہمت ہوتی ہے کہ انکو روک کر سمجھا سکیں. اسلیے والدین کی یہ اہم ذمہداری بنتی ہے کہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرکے انکی فکر رکھیں اور ان پر عقابی نظر رکھ کر انکو جواب دہ بنائیں. بچہ یا بچی کے موبائیل کو وقتاً فوقتاً چک کرتے رہیں. بچہ یا بچی کے کمروں میں انکی موجودگی میں جاکر دیکھیں کہ کس قسم کا لٹیریچر انکی الماریوں میں موجود ہیں. سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ سے لگاتار روابط رکھیں اور ان سے بچوں کی تعلیم و دیگر مصروفیات پر تبادلہ خیال کرتے رہیں. بہت سارے والدین ایسے بھی ہیں جو ماشاءاللہ بہت حد تک اپنی ذمہداریوں کو نبانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ہیں. یہاں ایک واقع کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں. دہلی میں ایک بزرگ آدمی کوچِکنگ سینٹر کے کلاس میں پہلے ہی داخل ہوچکا تھا. طلبہ بھی جمع ہوچکے تھے. ٹیچر نے جب کلاس ختم کی تو بزرگ سے پوچھا: آپ کو اس عمر میں کوچِنگ کلاس لینے کی ضرورت کیوں پڑی ہے ؟ بزرگ نے جواباً کہا: مجھے خود کوچِکنگ لینے کی ضرورت نہیں ہے البتہ میں اپنے بیٹے کو اس کوچِنگ سینٹر میں داخلہ دینا چاہتا ہوں. میں کلاس میں اسی لیے بیٹھا تاکہ پہلے خود اس سینٹر کے نظام اور تعلیم و تربیت سے مطمئن ہوسکوں تب میرا بیٹا صحیح تعلیم یا کوچِکنگ حاصل کرسکے گا….! کاش ایسی ہی فکر والدین اور سرپرست اپنے بچوں کی عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی علوم کے حصول کے لیے کرتے تو اس وقت ہمارا معاشرہ یقیناً صحیح ، سالم اور خوشحال معاشرہ ہوتا.
بچوں کو صحیح تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا والدین کا فرض ہے. بلکہ صالح معاشرہ کی تعمیر و تشکیل اور ترقی کے لیے اولاد کے اذہان و قلوب میں صحیح عقیدے اور بلند افکار و خیالات پیوست کرنا اور انہیں توحید و رسالت پر مشتمل مواد کی تعلیم دینا ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت انکے دلوں میں اجاگر کرنا ، ایمانیات ، اسلامیات اور عقیدہ توحید کی درستگی میں معاون کتب ، رسائل ، مجلات ، لٹریچر ، اکابر و اسلاف کے ملفوظات اور بیانات کی طرف راغب کرنا والدین اور بچوں کے سرپرستوں کی بنیادی ذمہداری ہے. کیونکہ صالح تربیت کے لیے صالح مطالعہ و راہنمائی کا ہونا لازمی ہے. لیکن افسوس اس کا فقدان نہ صرف ہمارے ناقص تعلیمی نظام میں پایا جاتا ہے بلکہ اکثر والدین اس ذمہداری کو نبانے میں بالکل لاپرواہی اور کوتاہی سے کام لیتے ہیں. آپ نے دیکھا ہوگا اکثر لوگوں کی زبان پر یہ کلمے ہوتے ہیں کہ موبائیل اور انٹرنیٹ کی وجہ سے نوجوان بگڑ گئے ہیں ، معاشرہ تباہ ہورہا ہے ، حیا اور پاکدامنی ختم ہوچکی ہے وغیرہ وغیرہ ….. اس کو آپ صحیح کیسے مان سکتے ہیں؟ دراصل  ہمارے معاشرے کے بگاڑ اور تباہی کی ذمہداری بہت زیادہ والدین کے غیر ذمہدارانہ approach کی وجہ ہے. کیونکہ اکثر والدین اولاد کو دنیاوی تعلیم و تربیت بڑے شوق و ذوق سے کرتے ہیں. اس ضمن میں بہتر سے بہتر انگلش میڈیم اسکول کا انتخاب بھی کرتے ہیں. ماہانہ ھزاروں کی رقم ٹیوشن فیس پر صرف کرتے ہیں بلکہ دنیا کمانے کی غرض سے اس پر ہر چیز نثار کرتے ہیں. لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنے دین سے خود بے فکر ہوکر اولاد کو بھی بےفکری کے عالم میں چھوڑ دیتے ہیں جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہیں. ہمارے معاشرے میں بےحیائی عروج پر ہے اور اکثر نوجوان بےراہ روی کی طرف گامزن ہے بلکہ والدین کی نافرمانی معاشرہ کا اہم مسئلہ بنتا جارہا ہے اور دین بیزار کاموں میں نوجوان اپنی دنیا و آخرت تباہ کرتے جارہے ہیں. اسطرح یہ نوجوان قومی اساسہ کے بجائے معاشرے کے لیے وبال جان بنتا جا رہا ہے اور ہم سب خاموش تماشائی بن کر معاشرے کی اس تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ اصلاحی اقدام اٹھانے سے بالکل قاصر نظر آرہے ہیں. جیسے شریعت نے والدین کے کچھ حقوق مقرر کئے ہیں کہ جن کا خیال رکھنا اور پورا کرنا اولاد پر واجب ہے، عین ویسے ہی اولاد کے کے لئے کچھ حقوق بیان فرمائے ہیں جن کا اہتمام والدین پر فرض ہے اور ان میں کوتاہی یا سستی دراصل اولاد کے ساتھ خیانت کے زمرے میں آتی ہے. والدین چونکہ  اولاد کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہیں. اس لئے بچوں کے حقوق کا تحفظ ہر لحاظ سے کرنا ہوگا ورنہ ناقص تربیت اور لاپرواہی کی پاداش میں جہاں نئی نسل کا مستقبل تباہ و برباد ہوگا وہاں والدین پروردگار عالم کے حضور ایک مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے اور اس کی گرفت سے محفوظ نہ8یں رہ سکیں گے. واضع رہے ہمارے دین کی تعلیمات کے مطابق اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت والدین کے لیے صدقہ جاریہ اور ذخیرہ آخرت ہے. اللہ تعالی  امت کے نوجوانوں کو گمراہی سے محفوظ رکھے اور ہم سب کو ھدایت راشدہ و کاملہ سےنوازے۔ر

Leave a Reply

Your email address will not be published.