تعارف مصنف:-
مولانا مودودی بیسوی صدی کے جلیل القدر مفکر اسلام،مایہ ناز مصنف اور احیائے اسلام کے روح روا تھے۔قرآنی علوم ہو یا سیرت کا علم،علم حدیث ہو یا علم فقہ،علم معیشیت ہو یا علم معاشیرت ہر ایک معاملے میں مولانا کے مولانا کو اگر امام غزی،ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ دہلوی جیسے مجددین کی صف میں شمار کیا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کیوکہ مولانا کے کارنامے کچھ ایسے ہیں۔ مولانا نےغلبہ دین کی جدوجہد کا آغاز بیسوی صدی کے تیسری دہائ سے کیا،جب انہوں نے محض ۲۳سال کی عمر میں الجہاد فی الاسلام جیسی عظیم کتاب لکھی۔حسن البناء سے سید قطب شہید تک،سید مودودی سے علامہ یوسف القرضاوی تک،پروفسر خورشید احمد سے مولانا سید جلالدین عمری تک،علامہ ابن تیمیہ سے ڈاکڑر علامہ اقبال تک تحریکی لڑریچر کا وسیع زخیرہ موجود ہیں۔تحریکی لڑریچر میں ایک نمائندہ کتاب شہادت حق ہیں جو امت مسلمہ کا فرض اور مقصد وجود اور شیادت حق پر سیر حاصل بحث کرتی ہیں۔
کتاب شہادت حق ۷ ابواب پر مشتمل ہیں
۱:- امت مسلمہ کا فرض اور مقصد وجود
۲:- شہادت حق اور اسکا طریقہ
۳:- قولی اور عملی شہادت
۴:- ہمارا فرض منصبی
۵:- نصب العین
۶:- ہماری دعوت اور لائحہ عمل
۷:- اعتراضات کا جواب
مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے بڑے خوبصورت انداز میں ایک مسلمان کو اس کی زمہ داری یاد دلائ ہیں۔مولانا فرماتے ہیں۔
"”مسلمانوں کو ہم جس چیز کی طرف بلاتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ادا کریں جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان پر عائد ہوتی ہیں””مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آپ خالی اس بات پر نہیں چھوٹ جاو گے کہ آپ نے ایمان لانا بلکہ آپ کو وہ زمہ داریاں بحثیت مسلمان آپ پر جو عائد ہوتی ہیں وہ پورے کرنے ہیں پر اور یوم ِ آخرت پر ایمان لائیں ۔وہ صرف اتنی بھی نہیں ہیں کہ آپ نماز پڑھیں ۔ روزہ رکھیں، حج کریں اور زکٰوۃ دیں۔ وہ صرف اتنی بھی نہیں ہیں کہ آپ نکاح ،طلاق،وراثت وغیرہ معاملات میں اسلام کے مقرر کئے ہوئے ضابطے پر عمل کریں بلکہ ان سب کے علاوہ ایک بڑی اور بھاری ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ آپ تمام دنیا کے سامنے اس حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں جس پر آپ ایمان لائے ہیں۔مسلمان کے نام سے قرآن میں آپ کو ایک مستقل امت بنانے کی جو واحد غرض بیان کی گئی ہےوہ یہی ہے کہ آپ تمام بندگانِ خدا پر شہادت حق کی حجت پوری کریں۔
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا..
البقره:۱۴۳۔
شہادت حق ،اسکا طریقہ ،قولی اور عملی شہادت اسی کے سمجھ میں آئے گی جس کو امت مسلمہ کا مقصخ وجود سمجھ میں آیا ہوگی۔ مولانا فرماتے ہیں یہ شہادت حق ایک نازک زمہ داری ہیں۔مولانا جس شہادت کی بات کررہے ہے وہ یہ ہیں کہ ہے کہ جو حق مسلمان کے پاس آیا ہے، جو صداقت ایک مسلمان پر منکشف کی گئی ہے، اس کی فلاح و نجات کی ایک ہی راہ جو آپ کو دکھائی گئی ہے آپ دنیا کے سامنے اس کے حق اور صداقت ہونے پر اور اس کے راہ راست ہونے پر گواہی دیں۔ ایسی گواہی جو اس کے حق اور راستی ہونے کو مبرہن کردے اور دنیا کے لوگوں پر اپنی زمہ داری پوری کریں۔یہ جو شہادت ہیں اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جائے گا اللہ تعالی کے سامنے جو بازپرس اور جزاوسزا کا جو قانون مقرر ہیں اس کی ساری بنیادیں اسی شہادت پر قائم ہیں۔
شہادت حق ادا کرنے کا طریقہ:-
مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے دو طرح کے طریقوں کا زکر کیا ہیں ایک قولی شہادت اور دوسری عملی شہادت۔قولی شہادت کا مطلب یہ ہیں کہ ہم زبان اور قلم سے اس حق کو واضع کردیں اور عملی شہادت کا مطلب یہ ہیں کہ جس بات پر قولی شہادت دیں اس پر ہم عملا مظاہرہ کریں۔دراصل حق کی شہادت دینے میں جتنی جتنی کوتاہی کرتے گئے ہیں اور باطل کی شہادت ادا کرنے میں ہمارا قدم جس رفتار سے آگے بڑھا ہے، ٹھیک اسی رفتار سے ہم گرتے چلے گئے ہیں اور ہمیں اسکا خامیازہ دنیا اور آخرت میں ہی اٹھانا پڑے گا۔
ہمارا فرض منصبی یہ ہیں کہ اقامتِ دین اور شہادت حق ہماری زندگی کا اصل مقصد ہے اور بندگان خدا پر شہادت حق کی حجت کو پوری کریں۔
مولانا جماعت اسلامی کا نصب العین ،دعوت اور لائحہ عمل کے تحت لکھتے ہیں۔
۱:- جماعت اسلامی کا مقصد خالص یہی ہیں کہ ہم پورے دین کو انفرادی اور اجتمائ طور پر قائم کریں اور قول و عمل سے اسکی شہادت دیں۔ہماری دعوت بہت نازک اور بہت بڑی ہیں ہمارے ہاں داخلے کی فیس بس اتنی ہیں کہ اپنی قولی اور عملی شہادت دیں کر اپنی پوری زندگی اسلام کی شہادت دو اور یہی ہمارے قائد رکنیت ہیں۔
اعتراضات کا جواب:-
مولانا فرماتے ہیں کہ ہم پر اعتاض کیا جاتا ہی کہ یہ جماعت اسلامی ایک نیا فرقہ کی بنا ڈال رہا ہیں.مولانا اس کے جواب میں بولتے ہیں "” ہم خدا کے دین کو قائم کرنےاٹھے ہیں۔ تفرقہ برپا کرنے نہیں اٹھے ہیں۔لیکن اگر ایسی کوئی غلطی ہم نے نہیں کی ہے تو پھر ہمارے کام سے کسی فرقے کی پیدائش کا اندیشہ کیسے کیا جاسکتا ہے””
مولانا فرماتے ہیں کہ تفرقہ ۴ باتوں کی وجہ سے ہوسکتا ہیں
۱:-ایک یہ کہ دین میں کسی چیز کا اضافہ کرنا
۲:-دین میں کسی خاص حصہ کو اہمیت دینا
۳:- اجتہادی و استنباطی مسائل میں غلو کرنا اور
۴:-نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخص کے معاملے میں غلو کرنا
ہم یہ بھی نھیں کہتے جو جماعت میں داخل ہے وہی حق پر ہیں اور باقی مسلمان باطل پر ہیں۔
مولانا اسکے جوب میں بولتے ہیں ؟ "”اگر کوئی صاحب دلیل و ثبوت کے ساتھ ہمیں صاف صاف بتادیں کہ ہم نے واقعی فلاں عنوان کی غلطی کی ہے تو ہم فی الفور توبہ کریں گے۔ اور ہمیں اپنی اصلاح کرنے میں ہرگز تامل نہ ہوگا۔ کیوں کہ ہم خدا کے دین کو قائم کرنےاٹھے ہیں۔ تفرقہ برپا کرنے نہیں اٹھے ہیں۔لیکن اگر ہم نے کوئ غلطی نھیں کی تو ہمارے کام سے کسی فرقے کی پیدائش کا اندیشہ کیسے کیا جاسکتا ہیں””
۲:- دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہیں کہ جماعت اسلامی کے لیڈر کیلے” امیر ” کا لفظ کیوں استعمال کیا جاتا ہیں ۔یہ اعتاض کم عقل لوگ کرتے ہیں جنھیں اسلام کی اصطلاحات ہی سے کچھ بغض ہو گیا ہیں۔مولانا اس کے جواب میں ابوداؤد کی روایت پیش کرتے ہیں
"”عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ .(ابوداؤود)
اسلامی شریعت کی یہی روح ہے جس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
جماعت کے بغیر اسلام نہیں اور امارت کے بغیر جماعت نہیں اور اطاعت کے بغیر امارت نہیں
نہیں اور اطاعت کے بغیر امارت نہیں۔
پس ہمارا استنباط یہ ہے کہ اقامت دین اور شہادت علی الناس کی سعی کے لئے جو جماعت بنائی جائے اس کے سربراہ کار کے لیے امیر یا امام کے لفظ کا استعمال بالکل صحیح ہے۔ "”
۳:- ایک اور اعتراض کیا جاتا ہیں کہ جماعت کے سربراہ کو زکواة وصول کرنے کا کوئ حق نھیں کیونکہ زکواہ صرف اسلامی حکومت کا امیر ہی وصول کرسکتا ہیں۔
مولانا اس کے جواب میں ہم ایک عام مسلمان سے زکواة کا مطالبہ نہیں کر تے ہم صرف جماعت کے ارکان سے مطالبہ کرتے ہیں اور یہ آپکا کیسا اعتراض ہیں کہ اگر ہم لوگوں کو اقامت دین کیلے جدوجہد کرنے طرف بلائے ،نماز گھروں میں الگ الگ نہ پڑھوں نہ پڑھو، بلکہ جماعت کے ساتھ پڑھو تو آخر یہ کہنے کا حق کیوں نہیں ہے کہ زکٰوۃ انفرادی طور پر ادا کرنے کے بجائے اجتماعی طور پر ادا کرو؟ پھر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اگر چندہ لیا جائے تو جائز ، داخلے کی فیس اور رکنیت کی فیس لگائی جائے تو درست مگر خدا اور رسول کے عائد کئے ہوئے فرض کو ادا کرنے کی دعوت دی جائے تو ناجائز ۔
۳ :- اور ایک اعتراض یہ ئے کہ بیت المال کیوں بناتے ہو ۔یہ کیسا اعتراض ہیں اب اتنا بغض کیوں اسلامی اصطلاحات ہیں ہم بیت المال کا قیام اسلئے کرتے ہیں تاکہ ہم اجتمائ کاموں میں مال صرف کر سکے۔
٣٩ صفات کی یہ کتاب اپنے موضوں اور مضنون کے اعتبار سے تحریکی لڑریچر میں ایک الگ مقام رکھتی ہیں ۔جس کا اندازہ اوپر دی گئ تفصیلات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔کتاب کو ہندوستان میں جماعت اسلامی ہند کے اشاعتی ادارے مرکزی مکتبہ دہلی نے شائع کیا۔عام لوگوں کیلے تحریک اسلامی کو سمجنے کیلے یہ کتاب سنگ میل سابت ہو سکتی ہیں ۔اللہ تعالی ہمیں دین کی سمجھ عطا کریں اور کتاب کو بھی پڑھنے ، سمجنے اور سمجھنے کی توفیق عطا کریں۔آمین