سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم: عصر حاضر می۔۔۔ الطاف جمیل ندوی

سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم: عصر حاضر می۔۔۔ الطاف جمیل ندوی
مسلم و غیر مسلم ہر اس شخص کے لیے سیرت نبوی کی مطالعہ از حد ضروری ہے جو دین اسلام کو جاننے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا خواہش مند ہے۔

اہل اسلام کے حوالے سے مطالعہ سیرت کی ضرورت و اہمیت
اللہ تعالٰیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت ﷺکی ذات گرامی کو بہترین نمونہ قرار دے کر اہل اسلام کو آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا حکم ارشاد فرمایا ہے لہذا سیرت نبوی کو جانے بغیر آنحضرت کے اسوہ حسنہ پر عمل ممکن نہیں
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اتباع رسول اور اطاعت رسول کو لازم اور فرض قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے سیرت نبوی کا مطالعہ از حد ضروری ہے تاکہ آنحضرت کے احکامات اور دیگر اوامر و نواہی کے ساتھ ساتھ آپ کی پسند و ناپسند کے بارے میں مکمل جانکاری ملے ۔
دین اسلام کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے حوالے سے سیرت کا مطالعہ ناگزیر ہے تاکہ جہاں ایک جانب ہر مبلغ تبلیغ کے اس مسنون طریقہ کار سے آگاہ ہو جس پر عمل پیرا ہو کر آنحضرت نے عرب کی کایا پلٹ دی اور دوسرا اس مطالعہ کے ذریعے مخاطب کو آنحضرت کے اسوہ حسنہ سے متعارف کروا کر اور موقع بہ موقع سیرت کے واقعات س ±نا کر اسے رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے بارے میں یہ بتاسکے کہ دنیا وخرت کی کامیابی کا رازصرف اتباع سنت مین میں مضمر ہے۔
ایک بات ذہن نشین رہے کہ قرآن کا فہم مطالعہ سیرت کے بغیر نا ممکن ہے کیونکہ آپ ﷺ ہی قرآن کی عملی تصویر اور کامل تفسیر ہیں۔
مسلمانوں کے لیے سیرت کا مطالعہ محض ایک علمی مشغلہ ہی نہیں بلکہ اہم دینی ضرورت ہے جبکہ غیر مسلموں کے لیے سیرت کے مطالعہ کی نوعیت اس سے کچھ مختلف ہو سکتی ہے تاکہ انہیں اس بات کی جانکاری مل سکے کہ انہیں جس امن اور اطمینان قلب کی تلاش ہے ،وہ انہیں صرف سیرت نبوی کے مطالعہ اور اس کے اتباع سے مل سکتی ہے ۔
غیر مسلموں کا سیرت کے مطالعہ سے ایک غیر مسلم پر یہ بات آشکارا ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک قلیل عرصہ میں دنیا میں ایک ایسا انقلاب کیوں کر برپا کر دیا اور عرب کی جاہل اور اجڑقوم سے ایک ایسی کھیپ اور اُمت کیسے تیار کر دی کہ جس کے کارنامے تاریخ عالم کے ماتھے پر ایک جھومر کی طرح نمایاں نظررہے ہیں اور یہ سب کچھ مورخین عالم کے لیے انتہائی دلچسپ اور موجب صد حیرت بھی ہیں۔
وہ غیر مسلم جو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف کسی وجہ یا لاعلمی یا غلط اطلاعات بہم پہنچانے کی وجہ سے بغض و عناد میں مبتلا ہیں، ان کے مطالعہ سیرت کا مقصد اصل حقائق سے آگاہی حاصل کر کے انہی واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور حقیقت کے برعکس ان واقعات کو اپنے رنگ میں پیش کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنا بھی ہو سکتا ہے
مطالعہ سیرت کے نتیجے میں انسان اپنے سامنے انسانیت کاملہ کی ایک ایسی اعلیٰ مثال بچشم خوددیکھ سکتاہے جوزندگی کے ہر شعبے میں مکمل نظر آتی ہے،آپﷺ کے انسانی زندگی کے جس پہلو اور جس گوشے کو بھی سامنے رکھ کر سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو ہر پہلو سے انسانی زندگی کا کمال آپ کو سرور کائنات ﷺکی زندگی میں نظر آئے گا اوریہی وجہ ہے کہ مغرب کے مشہور اسکالر مائکل ہارٹ نے جب دنیا کے سو عظیم انسانوں پر کتاب لکھی تو عیسائی ہونے کے باوجود اس نے اعلیٰ انسانی اقدار کے حوالے سے سب سے پہلے سرور کائنات ﷺ کا ذکر کیا-
مطالعہ سیرت کے نتیجے میں اسلام کے بنیادی عقائد،احکام،اخلاق اورہراس چیزکی معرفت ہوتی ہے جس کی ایک مسلمان کو اپنی زندگی میں ضرورت ہے -یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی زندگی کو ہمارے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے
انسان کی ہدایت ورہنمائی اور ملتوں اور قوموں کی اصلاح احوال اور تربیت کے لیے ایک داعی،مبلغ،مصلح اور رہنما کو دعوت وتبلیغ اور اصلاح وتربیت کے میدان میں جس جس چیز کی ضرورت ہوسکتی ہے اس کا ایک پورا نصاب سیرت میں موجود ہے ،دعوت وتبلیغ چونکہ یہ منصب نبوت ورسالت کا حصہ ہے اس لیے اس میدا ن میں اس وقت تک کامیابی نہیں مل سکتی جب تک دعوت وتبلیغ منہاج نبوی کے مطابق نہ ہو -لہٰذا کامیاب تبلیغ ودعوت کے لیے سیرت کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ نیک نمونہ عمل ہے، قرآن کریم نے اس کو مسلمانوں کیلئے “اسوہ حسنہ” قرار دیا ہے۔ یہ لفظ اپنے معنی کی وسعتوں کے اعتبار سے انسانی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے، اسے زندگی کے کسی ایک شعبے کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح لفظ”سیرت” بھی اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے، بعض حلقوں میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ سیرت یا مطالعہ سیرت کا صرف یہ مطلب ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو تاریخی تسلسل اور جغرافیائی پس منظر میں سمجھ لیا جائے، آپ کی ولادت کب ہوئی، کس طرح آپ کی پرورش ہوئی، پہلی وحی کب آئی، ابتداءمیں کون کون لوگ ایمان کی دولت سے مشرف ہوئے، ہجرت کب ہوئی اور اس کے اسباب کیا تھے،کون سا غزوہ کس سن میں ہوا، اور اس کا نتیجہ کیا رہا، آپ کے بعض معجزات ، آپ کی بعثت اور دعوت کے نتیجے میں دنیا میں کیا سیاسی ، جغرافیائی اور معاشی انقلابات آئے وغیرہ وغیرہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارے امور بھی “سیرت” کا حصہ ہیں مگر “سیرت” کے معنی اور مفہوم کی حدیں صرف یہیں آکر ختم نہیں ہوجاتیں بلکہ سیرت کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ سیرت قرآنی تعلیمات کی عملی تصویر کا نام ہے، اسلامی عقائد، اسلامی اعمال، اسلامی اخلاق، فرد کا نظام حیات، معاشرے کے مسائل۔
آج مسلمانوں کی زندگی اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہے ان کی معاشرت سے انسانی خصائل ختم ہو چکے ہیں کوئی ایسا عیب نہیں جو ان کی فطرت ثانیہ نہ بن چکا ہو۔ کوئی ایسی برائی نہیں جس میں وہ مبتلا نہ ہوں اور ایسی اخلاقی خرابی نہیں جو ان کی قومی بنیادوں کو کمزور نہ کر رہی ہو۔ زعماءاور رہنمایاں وقت خود ان کمزوریوں میں مبتلا ہیں کون ایسا رہبر ہے۔ جو ان کی عادات قبیحہ کے خوفناک نتائج سے واقف کرے۔
مسلمانوں کی ” ا ±مت مسلمہ“ کی جب تک اخلاقی حالت ٹھیک نہیں ہوگی تو وہ تجارت میں صنعت و حرفت میں کوئی ترقی نہیں کر سکتے۔ زراعت و کھیتی باڑی میں کما حصہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ جو قوت وہ آج آپس کے لڑائی جھگڑوں اور خانہ جنگیوں میں صرف کر رہے ہیں، کاش اس قوت و طاقت کو اپنی اصلاح و ہدایت میں لگاتے تو دنیا کا منظر کچھ مختلف ہوتا نہ کہ ایسا جسے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے
رسول رحمت ﷺ بحیثیت داعی
یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ جس پر جتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ اسی قدر وسعتوں کا مالک بھی ہوتا ہے،اور رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ساری انسانی دنیا کے لئے مبعوث فرمائے گئے تھے لہذا اسی قدر جذبہ رحمت کے آپ رودار تھے، آپ نے منصب سنبھالنے کے بعدپیغام خداوندی کی تبلیغ میں طرح طرح کی مشقتیں اور مصیبتیں برداشت کیں، مگر زبان مبارک سے کسی قسم کا شکوہ تک نہ کیا، نہ کسی سے انتقام لیا، نہ ہی کسی پر غصہ ہوئے اور نہ ان کو برابھلا کہا۔حالانکہ رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی اذیتوں سے دوچار کیا گیا، مگر آپ نے صبر وتحمل ،برداشت وبردباری،عزم واستقلال کو ہاتھ سے جانے نہ دیا، اور آپ نے ہرلمحہ انسان اور انسانیت کو مدنظر رکھا۔ سفر طائف (جو تقریبا سیرت طیبہ کے تمام کتب میں موجود ہے) جو کہ خالص دعوت وتبلیغ کا سفر تھا جب آپ کو تبلیغ ودعوت دین دینے کی وجہ سے طائف کے اوباشوں اور لونڈوں نے پتھر مارمار کر لہولہان کردیا، اور اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخموں سے چور ان اوباشوں کے نظروں سے اوجھل ہوکرایک باغ پہنچے، تو آپ کی زبان مبارک پر ان اوباشوں کے خلاف بدعا کے لیے ایک لفظ تک نہیں آیا
کیوں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل بعثت کا مقصد د ±نیا کو اعتدال پرلانا تھا،اِس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (۱) پوری زندگی دعوتِ اصلاح و تبلیغ میں صرف کرڈالی۔ (۲) تربیت کے ذریعہ ایسے افراد پیدا کیے، جن میں ایمان کامل تھا، آخرت کا استحضار تھا، وہ ذکر الٰہی کا اہتمام کرتے، راتوں میں تہجد گذار اور دِنوں میں مجاہد برسرپیکار ہوتے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ا ±نھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا۔ (۳) غیروں کی اصلاح سے پہلے اپنی ذات کی اصلاح کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی۔ (۴) اللہ رب العزت کے سارے احکام سے لوگوں کو واقف کرایا۔ (۵) اللہ کے سارے احکام کو زمین پر نافذ کرنے کی کوششیں اور تدبیریں کیں۔ (۶) ہر ایک کے حقوق کو واضح فرمایا، خصوصاً کمزور طبقات مثلاً عورتوں، بچوں، غلاموں، خادموں اور جانوروں کے حقوق کو متعین فرماکر ا ±ن کی ادائیگی کی تلقین فرمائی۔ (۷) معاشرہ میں پیدا ہونے والی خرابیوں پر گرفت
کرنے اور ایک د ±وسرے کواحکامِ الٰہی کی تعمیل کی تلقین کامزاج بنانا
کچھ چلینجز
مسلم معاشرے کے لئے ایک بڑا عصری چیلنج یہ ہے کہ مغرب کے آزادی نسواں کے نعرے کے تحت عورت ڈاکٹر، انجینئر، اداکارہ، گلوکارہ اور ماڈل کے طور پر تو اہم سمجھی جاتی ہے لیکن بیوی اور ماں کی حیثیت سے اس کا کوئی مقام اور مرتبہ نہیں رہا۔ امتِ مسلمہ کے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں گھریلو خاتون یاHouse Wife کا ذکر اس طرح کیا جاتا ہے جیسے وہ کوئی کام ہی نہ کرتی ہو اور معاشرے کو اس کی ضرورت ہی نہ ہو۔ مسلم خواتین بچے پیدا کرنے اور پالنے سے اس طرح گھبرانے لگی ہیں جس طرح مغرب کی خواتین گبھراتی ہیں۔ یہ صورِت حال مرد و عورت کے تعلق، خاندان اور مسلم معاشرے کی روحانی، نفسیاتی اور جذباتی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم بیوی اور ماں کا مقام انتہائی بلند کر کے نہ صرف یہ کہ اس چیلنج کا نہایت شافی جواب فراہم کرتی ہے بلکہ معاشرے میں خاندان کے ادارے کو اس مرکزیت اور وقار بھی عطا کرتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہےجو اپنی شریک حیات کے لئے اچھا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وصال سے ذرا پہلے مسلمانوں کو جن چیزوں کا خیال رکھنے کی تاکید فرمائی ان میں نماز کے ساتھ ساتھ اپنی بیوی کا خیال رکھنے کی تاکید بھی شامل ہے۔
دوسرا چیلنج
رسول کی تعلیمات نے آتنک وادی بنایا ہے۔ ان حالات میں مطالعہ سیرت کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے لیکن آج مطالعہ سیرت کی جہت ذرا مختلف ہونی چاہئے۔ جہاں تک سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر (معاذ اللہ ) دہشت گردی کے الزام کا سوال ہے تو یہ ان مستشرقین کا چھوڑا ہوا شوشہ ہے جن کے دلوں میں اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے بغض و عناد بھرا ہوا تھا۔ مگر اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ خود ہم نے عملی طورپر دنیا کے سامنے اپنے مذہب ار اپنے رسول کو کس طرح پیش کیا ہے؟
تیسرا چلینج
موجودہ دَور کاسب سے بڑا المیہ اخلاقیات کا فقدان ہے، جھوٹ، چوری، وعدہ خلافی، بغض، کینہ، فخر، غرور، ریا، غداری، بدگوئی، فحش گوئی، بدگمانی، حرص، حسد، چغلی غرض یہ کہ ساری اخلاقی برائیاں، عام انسانوں اور مسلمانوں میں ہی نہیں؛ بلکہ خواص میں بھی اخلاقیات کاانحطاط آگیا ہے۔ اِس انحطاط و تنزل کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے کہ ہر بری خصلت کی برائی معقول انداز میں بیان کی جائے کیونکہ اس وقت اس کی خاصی ضرورت ہے کہ بدی کو ڈنکے کی چوٹ پر بدی کہا جائے
نتائج و حالات
کیونکہ ہمیں موجودہ دور کی اس مقامی اور عالمی اکھاڑ بچھاڑ کے اندر ہمیں اس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے کہ جب دعوت و تبلیغ اس
دین کی اقامت کی ہوگی جو محمدرسول اللہ لے کر آئے تھے تو جیسے آپﷺ کو جن قوتوں عناصر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا جو کوئی بھی قیامت تک اسلام کی بات قرآن اور نبی رحمت للعالمین ﷺکے فرمان کے مطابق اسکی اصلی روح کے ساتھ کرے گا اسے بھی ہر دور میں اسی قسم کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جو کہتا ہے ہم میں نبی کریمﷺ سے زیادہ بہتر طریقے حکمت سے دعوت و تبلیغ کرسکتا ہوں اس لئے ہمیں باطل عالم کفار کی طرف سے مزاحمت نہیں جھوٹ بولتا دھوکے باز ہوگا۔
جس اسلام کو عالم کفار خوشی سے قبول کرے بلکہ نوازشات کی بارش کر دے اور اسکی دعوت و تبلیغ و تشہیر کیلئے ٹی وی چینل بناکر دیدے تو وہ اسلام آپ ﷺوالا نہیں ہو سکتا۔
اسلام جہاں ہوگا وہاں کفر کی موت ہوگی اور کفر تو اپنی بقا کے لئے ہاتھ پاوں مارے گا ۔اصل گڑبڑ تب شروع ہوتی ہے جب کوئی اسلام کے لبادے میں کفر کے سامنے مزاحمت کار اسلامی تحریک کے مقابل اپنے ریال ڈالرز سے اسلام بناکر لانچ کر دیتا ہے سادہ لوح مسلمان سمجھتا ہے کہ اسلام نافذ ہو رہا ہے مگر اندرون خانہ اسلام کمزور ہو رہا ہوتا ہے اور اب صورتحال حال یہ بن چکی ہے کہ امت رسول ﷺبے وقعت بے وزن بن کر رہ گئی ہے اور اسلام ایمان کی بنیادی اساس پر حملے شروع ہو چکے ہیں۔
امت مسلمہ کی بہت تذلیل ہوگئی اب ہر کلمہ گو کو ہوش آ جانا چاہئے۔ ہمیں اپنی زندگیوں اور قول و فعل میں تضاد ختم کر دینا چاہئے۔ اب وقت گیا ہے کہ سچے مسلمانوں کو اپنے اعمال سے ثابت کرنا ہوگا کہ قرآن اورنبی رحمت للعالمین ﷺکے فرمان آج بھی اتنے قابل عمل ہیں جتنے 1400سال قبل تھے۔
فکری اور جسمانی غلامی اور مغربی مفکرین کے زیراثر مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اسلام اور سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو سال ”پرانی“ چیز ہیں، چنانچہ وہ جدید عہد میں ہمارے اس طرح کام نہیں آسکتے جس طرح چودہ سوسال پہلے کام آتے تھے۔ لیکن رسول اکرم ﷺ صرف باعثِ تخلیقِ کائنات اور سردارالانبیاءہی نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین بھی ہیں اور ختمِ نبوت کے بہت سے مفاہیم میں سے ایک مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ بیک وقت قدیم بھی ہیں اور جدید بھی۔ اسلام اور علم دشمن طاقتیں الزام لگاتی ہیں کہ مسلمان قدامت پسند Orthodox ہیں۔ لیکن اسلام اور سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے قدامت پسند Orthodox ہونے کا مفہوم زیادہ حقیقی یا Original ہونا یا اصل کے زیادہ سے زیادہ قریب ہونا ہے۔ اور جو اصل کے جتنا زیادہ قریب ہے وہ خود کو دریافت کرنے یا Re-Invent کرنے کی اتنی ہی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ اتنا ہی جدید اور تخلیقی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ قدیم ہونے کا مفہوم اسلام کی روح سے آگاہ ہونا ہے اور جدید ہونے کا مطلب اس روح کے اظہار کے لیے نئے نئے پیرائے، اسالیب، سانچے اور ڈھانچے بنانے کی اہلیت کا حامل ہونا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ختمِ نبوت کا عقیدہ ایک انقلابی عقیدہ
ہے، اور یہ عقیدہ پوری امتِ مسلمہ کو قدیم اور جدید کے درمیان لاکھڑا کرتا ہے۔ اس مقام پر کھڑی ہوکر امتِ مسلمہ ماضی کی قوت سے مستقبل کشید کرتی ہے۔ غورکیا جائے تو سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف اس پہلو میں مسلمانوں کو درپیش کتنے ہی امراض کا علاج، کتنے ہی مسائل کا حل اور کتنے ہی چیلنجوں کا جواب ہے بس ہم بحیثیت امت مسلمہ اس زمانے میں دنیا کے اتار چڑھاو ¿ کو مد نظر رکھتے ہوئے پوری احتیاط کے ساتھ کام کرتے رہیں تو یقینا نتائج بہتر سے بہتر آئیں گئے ۔
پیغام آخر
جو نہ تھے خود راہ پر اَوروں کے ہادی بن گئے،۔۔۔۔رسولِ مدنیﷺ کی زندگی سے آج بھی یہ سبق ملتا ہے غیرمسلموں سے معاہدات کرنا درست اورجائز ہے، دعوت و تبلیغ کے لیے سب سے پہلے ماحول سازگار کرنا ضروری ہے۔ اِسی کے ساتھ احکامِ الٰہی کے نفاذ کی کوشش میں لگے رہنا رسول اللہﷺ کی سنت ہے، اِسی طرح مخالف ماحول موافق ہوسکتا ہے، آج کا دَور اشاعتِ اسلام کے لیے نہایت موزوں دَور ہے، عام لوگوں میں معقولیت پسندی پہلے کی بہ نسبت زیادہ ہے، اگر آج اِسلام کا صحیح تعارف کرایا جائے، اِس کے لیے سارے جائز وسائل استعمال کیے جائیں تو پھ  ر۔
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
آج د ±نیا بے راہ روی، ظلم و ستم، بے کیفی اور بے اطمینانی سے عاجز آچکی ہے۔ اِس کو تلاش ہے کسی صحیح منزل کی، امن وآشتی کی، اطمینان اور سکون کی، اِسلام میں یہ سب کچھ موجود ہے۔ صرف ضرورت ہے رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشن کے اپنانے کی۔ رسولِ مکی و مدنی ﷺ کی سیرت کی اتباع کی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.