جناب جاوید احمد غامدی کا شمار عصر حاضر کے بڑے دانش وروں میں ہوتا ہے ۔ علم و فضل کے ساتھ سلیقہ مند گفتگو میں بھی انہیں ملکہ حاصل ہے۔ سورۂ شوریٰ کی آیت 13 پر علمی استدلال کرتے ہوئے عربی میں لفظِ ’أقام‘ کے متعلق وہ فرماتے ہیں :
’’ اس کے معنی میں (تبلیغ کرنا) کے لیے کوئی ایک نظیر بھی پیش نہیں کی جا سکتی‘‘۔
اس دعویٰ کے حق میں عربی زبان و لغت کے دلائل پیش کرنے کے بعد دین پر بحث فرماتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں :
’’ دین نے اگر عبادات کو کوئی حیثیت دی ہے تو اپنے عمل میں انھیں وہی حیثیت دی جائے۔ دین اگر کسی موقع پر جہاد کا تقاضا کرتا ہے تو اس تقاضے کو دل وجان کے ساتھ پورا کیا جائے۔ دین اگر سیاست، معیشت، معاشرت، حدود و تعزیرات، دعوت، خور و نوش اور آداب و شعائر کے بارے میں کچھ ہدایات دیتا ہے تو ان ہدایات پر پوری طرح سے عمل پیرا رہا جائے۔ ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے یہی معنی ہیں‘‘۔
’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘کی وضاحت کے بعد، غامدی صاحب دعوت فکر دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ کسی موقع پر اگر مسلمانوں کا نظم اجتماعی، دین کے عملی نفاذسے گریزاں ہو تو ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے حکم کے تحت تمام مسلمان نفاذ دین کی جدوجہد کے مکلف ہو جاتے ہیں‘‘۔ ان کے مطابق ’’یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ ’الدین‘ میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہر آدمی سے یکساں طور پر مطلوب ہیں۔ دوسری طرف ’الدین‘ کے کچھ تقاضے ایسے بھی ہیں جو، مثال کے طور پر وہ ایک مرد سے اس وقت کرتا ہے، جب اسے شوہر کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ کچھ تقاضے ایسے ہیں جو خاندان کے سربراہ کی حیثیت میں اس سے کیے جاتے ہیں۔ کچھ تقاضے ایسے ہیں جو دین کے ایک داعی کی حیثیت میں اس سے کیے جاتے ہیں۔ کچھ تقاضے وہ ہیں جو ایک عالم کی حیثیت میں اس سے کیے جاتے ہیں اور کچھ وہ بھی ہیں جو ایک ریاست کے سربراہ کی حیثیت میں اس سے کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ جس طرح ایک غیر شادی شدہ آدمی کے لیے ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘کے تقاضوں میں ایک شوہر اور خاندان کے سربراہ سے کیے جانے والے مطالبات شامل نہیں ہوں گے اور نہ شادی کرنے کی جد و جہد ہی ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کا تقاضا قرار پائے گی، اسی طرح ایک عام آدمی سے ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کا نعرہ لگا کر وہ تقاضے نہیں کیے جا سکتے جو ’الدین‘ میں ایک ریاست کے سربراہ سے مطلوب ہیں‘‘۔
یہاں پر شوہر، سربراہِ خاندان اور ملک کے سربراہ کی مثالوں سے کی گئی وضاحت غور طلب ہے۔ شوہر کی حیثیت سے عائد ہونے والی ذمہ داریاں یقیناً نکاح سے قبل نافذ العمل نہیں ہوتیں، لیکن شادی کرنے کی کو شش اقامت اقامت دین نہ سہی دینی تقاضہ تو ہے ۔ نکاح ذاتی زندگی میں سکون و معنوی لباس کا وسیلہ ،اسلامی معاشرت کی بنیاد اورتشکیل ِ خاندان کا ذریعہ ہے۔ یہ سوچ کہ بفرضِ محال شادی ہو جائےتو شوہر کی ذمہ داریاں ادا کریں گے ورنہ عافیت میں رہیں گے سماجی فساد برپا کرسکتی ہے ؟ یہ بات درست ہے کہ خاندان کے سربراہ کی ذمہ داریاں حقیقی خاندان کے وجود میں آنے سے پہلے غیر مطلوب ہیں، لیکن اگر کسی خاندان کا سربراہ اپنی ذمہ داریوں کی ادا ئیگی میں کوتاہی کرتا ہے توکیا باقی اہل خانہ کی یہ ذمہ داری نہیں ہےکہ وہ اس کی توجہ مبذول اس جانب مبذول کرائیں؟کیا وہ سربراہ کی حق تلفی کے خلاف آواز نہ اٹھائیں ؟
افرادِخاندان کوجو کام اپنے سربراہ کے ساتھ کرنا ہے وہی ذمہ داری انہیں سربراہِ مملکت کے تئیں ادا کرنی ہے۔ اصحاب اقتدار کو اور انہیں منتخب کرنے والوں کوخبردار کرنا کہ دنیا کا نظام دین کے مطابق چلائیں، یعنی زندگی کے تمام شعبوں میں دین نافذکریں اقامتِ دین کی جدوجہد ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر ابلاغ ضروری ہے اس لیے ازخود تبلیغ دین بھی اقامت دین کا حصہ بن جاتی ہے۔ دین پر چلنے کے خواہش مند اہل ایمان کے اندر پائی جانے والی تڑپ کا عملی مظہر نفاذِ دین کی جدوجہد ہے۔
غامدی صاحب اگر اقامت دین کے بعد اس کے نفاذ اور قبل نافذ کرنے کی کوشش کے فرق پر غور فرمائیں تو یہ گتھی سلجھ جائے گی۔