انسانی حقوق کا عالمی دن اور کشمیر…… ایس احمد پیرزادہ

انسانی حقوق کا عالمی دن اور کشمیر…… ایس احمد پیرزادہ

۱۰؍دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ۱۹۴۸ء؁سے پوری دنیا میں یہ دن بڑے ہی اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے انسانی حقوق کے بینر تلے مختلف قسم کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کی علاقائی اور عالمی تنظیمیں دنیا بھر میں انسانیت کے ساتھ ہورہی ظلم و زیادتیوں کے حوالے سے رپورٹیں شائع کرتی ہیں، حکومتیں سرکاری سطح پر تقاریب کا اہتمام کرتی ہیں ، سمینارز و سمپوزیم کے ذریعے سے احترامِ آدمیت اور بشری حقوق کے تحفظ پر لیکچر دئے جاتے ہیں اورانسانی اقدارپر کار بند رہنے کے ضمن میںتجدید عہد کیا جاتا ہے۔ یہ ساری سرگر میاںشرف ِ انسانیت کا احساس دلوں میں زندہ رکھنے کے لئے قابل تحسین ہیں مگر افسوس صدا فسوس کہ بشری حقوق کی پامالیوں کا بھدا سلسلہ لاکھ روکے بھی نہیں رْکتا۔
تاریخ شاہد عادل ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں بڑے پیمانے پر تباہیوں اورانسانی جانوں کے بدترین زیاں ہوا۔ یہ ناگفتہ بہ حال احوال دیکھ کر پوری دنیا ئے انسانیت تڑپ اْٹھی کہ عالمی طاقتیں انانیت اور خود غرضی کے ہاتھوں کس قدر نیچے گرسکتی ہیں، انسان دشمنی کے نتائج کتنے بھیانک ہوسکتے ہیں ، زبردست کے نرغے میں زیر دست کی کیا کیا دْرگت ممکن ہوسکتی ہے، ہیروشیما اور ناگاساکی جیسی قیامتیں انسانی دنیا کے لئے کتنی بڑے طمانچے ہیں۔ یہ مثبت احساس عالمی ضمیر کو جگا نے پر منتج ہوا ،اورجابجا یہ دل خوش کن آوازیں اْبھرنے لگیں کہ انسانیت کے بچاؤ میں آئندہ اندھا دْھند جنگیں نہ ہوں ، انسانیت کا قتل عام ہر حال میں روکاجائے، قوموں اور ملکوں میں انسانی اقدار کا مشترکہ طور پالن ہو۔ اس جنگ مخالف انسان دوستانہ سوچ کے پس منظر میں۱۹۴۵ء؁میں پہلے اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آگیااور پھر اقوام متحدہ کے رْکن ممالک کے درمیان کافی بحث و مباحثہ کے بعد۱۰؍دسمبر۱۹۴۸ء؁کو۳۰؍دفعات پر مشتمل ایک بین الاقوامی امن چارٹر منظور کیا گیا۔اس عالمی منشور میں ہر فردبشر کے شہری، شخصی، سیاسی، معاشی، مذہبی اورثقافتی حقوق تسلیم کرکے آئندہ کے لیے اْن کی محکم پاسداری کرنے کا عہد کیا گیا۔اس طرح گزشتہ سات دہائیوں سے۱۰؍ دسمبر، جب اقوام متحدہ میں بین الاقوامی امن چارٹر منظور ہوا ، کو عالمی سطح پر انسانی حقوق کے دن کی حیثیت سے بڑے ذوق وشوق سے منایا جاتا ہے۔
ا س میں دورائے نہیں کہ عالمی سطح پر منائے جانے والے دوسرے ایام کی طرح۱۰؍دسمبر کا عالمی دن بھی رسمی ہو کر رہ گیا ہے۔ ا س روزگھسے پٹے بیانات اور کاغذ ی قول و قرارکے اعادے کی حدتک ہر ملک انسانی حقوق کی پاسداری کا بڑے چاؤ سے عہد بھی کرتا ہے اور ان حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے طرح طرح کے اقدامات کی یقین دہانیاں بھی کرتا ہے لیکن عملاً بشری حقوق کے حوالے سے دنیا آج بھی وہی کھڑی ہے جہاںدوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر تھی، آج بھی انسان کے شرف ومنزلت پر توپ وتفنگ کے بل پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں ، آج بھی طاقت ور کمزوروں پر جنگیں تھوپ دیتے ہیں ، آج بھی آزادیٔ ضمیر پر تلوار کی نوک پر پہرے بٹھائے جاتے ہیں ، آج بھی بھینس اْسی کی ہے جس کی لاٹھی ہے۔ لہٰذا فی الوقت دفاعِ انسانیت کے لئے کسی نئے موثر ومعتبر عالمی عہد ومیثاق کی پہلے سے زیادہ اشد ضرورت محسوس کی جاتی ہے تاکہ انسان وحشت وحیوانیت کے چنگل سے آزاد ہو ،لیکن یہ معاہدہ جب لفظوں کا پشتارا نہیں بلکہ عمل کا آئینہ دار ہو تب بات بنے گی۔
آج انسانیت کو تحفظ دینے کے لیے ہمیں نقطۂ صفر سے کام کرنا وقت کی مجبوری دکھائی دے رہی ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ وہی ممالک جن کے ووٹ سے سات دہائیاں قبل ۳۰؍ دفعات پر مشتمل بین الاقوامی امن چارٹر منظور ہوا اور جنہوں نے شہریوں کے شخصی حقوق اور اْن کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی قسمیں کھائیں ،وعدے دئے، وہ اس وقت انسانی حقوق کو سب سے بڑ ھ کر پیروں تلے روندنے والے بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ گزشتہ تین دہائیوں سے بالخصوص دنیا بھر میں جس غنڈہ گردی اور جنگی جنون بمعنی عالمی دہشت گردی کا ارتکاب کررہا ہے ،اْس کے نتیجے میں صرف عراق میں ۲۰۰۳ء؁ سے ۲۰۱۱ء؁تک چھ لاکھ لوگ جان بحق ہوچکے ہیں۔ دنیا کے پولیس مین نے ناٹو کی مدد سے اس ہنستے کھیلتے اور ترقی یافتہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، کارپٹ بمباری کے ذریعے سے ملک کے پورے انفراسٹریکچرکوزمین بوس کردیا ، لاکھوں کی تعداد میں پیر وجوان ، خواتین او ربچے غذائی اجناس اور ادویات کی قلت کے باعث ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان بحق ہوگئے۔ یہ تعداد اْن چھ لاکھ ہلاکتوں کے علاوہ ہیں جو براہ راست جنگ میں اپنی جانیں گنواچکے ہیں۔۲۰۱۱ء؁ سے ملک شام کو دنیا بھر کی بڑی طاقتوں نے میدان جنگ میں تبدیل کررکھا ہے، تیل اور قدرتی وسائل کے لوٹ مار کی اس انتھک جنگ میں عالمی اداروں کے محتاط اندازوں کے مطابق اس ابھی تک ۳؍لاکھ انسان ہلاک ہوچکے ہیں، شہروں کے شہر تباہ و برباد ہو کر کھنڈرات میں تبدیل کئے جاچکے ہیں، دو ملین سے زیادہ شامی لوگ مختلف ممالک میں رفیوجیوں کی حیثیت سے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کے انسانی المیوں میں ملک شام کی تباہی سب سے بڑا المیہ ہے۔اس سے قبل افغانستان کی تیس سالہ جنگ میں دو ملین سے زائد لوگ امریکہ بہادراور سابق سویت یونین کے زمینی اور فضائی حملوں میں جان سے مار دئے گئے۔امریکہ اوردوسری بڑی طاقتوں کی یہ غنڈہ گردی یا ماردھاڑ ابھی تک کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے، جنگی جرائم کی یہ ابلیسی اور دجالی طاقتیں شام ، عراق، لیبیا اور افغانستان میں موجود ہیں اور اپنی وحشیانہ کارروائیوں سے انسانی حقوق کی مٹی پلید کرنے میں متواتر مصروفِ عمل ہیں۔ اْن کی راہ میں نہ ہی کوئی اقوام متحدہ حائل ہورہا ہے اور نہ ہی اْنہیں اقوام متحدہ کا کوئی امن چارٹر اپنی لاج رکھنے پر مجبور کررہا ہے۔ یہ طاقتیں اللہ کی زمین پر صرف فساد برپا کرکے انسانی نسلوں کے خاتمے کا جرم عظیم کررہی ہیں اور دو صدیوں کو محیط عرصے میں کی جانے والے سب سے بڑے وحشی پن اور بربریت کا مظاہرہ کر کے بھی بڑی ڈھٹائی سے جمہوریت اور حقوق البشر کی علم برادری کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ یاد رکھئے جنگیںاور ہلاکت آفرین ا سلحہ سازیاں ان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھتی ہیں۔
اب آیئے فلسطین اور کشمیر کا رْخ کریں۔گزشتہ کئی دہائیوں سے امن کی علمبرداری اور انسانی حقوق کی پاسداری کا دعویٰ کرنے والے دو طاقت ورملک ان دو جگہوں پر بشری حقو ق کا پاس ولحاظ کرنا بالفعل اپنے لئے حرام قرار دے چکے ہیں۔فلسطین میں اسرائیل نے غزہ پٹی میں مقیم ۱۸؍لاکھ کی آبادی کو گزشتہ دو دہائیوں سے یرغمال بنائے رکھا ہے، اْن کی پوری طرح سے ناکہ بندی کی گئی ہے، غذائی اجناس اور ادویات تک کو اْن تک پہنچنے نہیں دیا جاتا ہے اور جب یہ آبادی محاصرہ توڑنے اور بشری حقوق کی مانگ کرنے لگتی ہے تو اْن پر فاسفورس بم برسائے جاتے ہیں، سرحدوں پر اْن کا استقبال گولیوں اور بارود سے کیا جاتا ہے۔ ہر روز وہاں جنازے اْٹھتے ہیں اور مہذب ہونے کا دعویٰ کرنے والی دنیا ٹس سے مس نہیں ہورہی ہے۔۲۰۱۱ء؁ میں جب مصر میں جمہوری طرز پر قائم ہونے والی محمد مرسی کی حکومت نے اپنی جانب کی سرحد کھول کر غزہ کے ان ۱۸؍لاکھ محصورین کے لیے غذائی اجناس اور ادویات کی سپلائی لائن کھول دی تو بین الاقوامی سطح پر مصری حکومت کے خلاف سازشیں کرکے محمد مرسی کا تختہ الٹ دیا گیا ،انہیں نہ صرف جیل میں ڈال دیا گیا بلکہ اْن کی جماعت اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکنوں کو موت کے گھاٹ بھی اْتار دیا گیا اور دیگر ہزاروں تاحال جیلوں میں مقید ہیں اور اْنہیں بدترین جسمانی تشدد سے گزارا جارہا ہے، اْن کی خطا صرف یہ تھی کہ اْنہوں نے محصور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی پاسداری کرکے اْن کی مدد کرنے کی ٹھان لی تھی۔ بلاشبہ شاید ہی دنیا کا کوئی خطہ ایسا بچا ہو جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہورہیں مگر مقبوضہ فلسطین اس میں سرفہرست ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ انسانیت کو دن کے اْجالے اور رات کے ا ندھیرے میں پامال کر نے والے اسرائیل کی پشت پناہی امریکہ نے اپنے سر لی ہے ، جب کہ یہ اپنے آپ کو مہذیب ، جمہوری اور انسانی حقوق کاعلمبردار کہلوانے اور ۱۰؍دسمبر کو منانے میں بھی پیش پیش رہتا ہے۔یہ صرف ایک غاصب اسرائیل کی سرپرستی ہی نہیں بلکہ امریکہ ہر جگہ کمزوروں کے مقابلے میںظالموں جابروں کی مدد کرنا سرعام اپنے ذمہ لیتا ہے۔
جہاں تک ریاست جموں وکشمیر کا تعلق ہے، یہاں گزشتہ تین دہائیوں سے بشری حقوق جس طرح سے پامال کیے جارہے ہیں اْس کی مثال دنیا بھر میں شاید ہی کئی اور ملتی ہو۔گزشتہ تین برس کی ہی بات کی جائے تو فورسز کے ہاتھوں ہونے والی زیادتیوں کے ناقابل بیان سینکڑو ںواقعات کی کہانیاں جریدہ ٔعالم میں ثبت ہوچکی ہیں۔پچھلے ایک سال کے دوران فورسز کی راست فائرنگ سے125 عام شہری جان بحق کیے جاچکے ہیں۔ مجموعی طور پر اس عرصے میں وادی میں چار سو سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں۔نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ٹھونس دینا، اْن پر بار بار پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ عمل میں لانا، کریک ڈاون اور چھاپوں کے دوران گھریلو املاک اور مکانات کی توڑ پھوڑیہاں معمول بن چکا ہے۔۲۰۱۶ء؁سے اہالیانِ کشمیر کو جس نئی آفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ جانوروں کوقابو کی جانے والی پیلٹ گن ہے۔ پیلٹ گن مہلک ترین ہتھیار ثابت ہورہا ہے اور یہ اپنی تباہ کاریوں سے کشمیر میں روز انسانی المیوں کو جنم دے رہا ہے۔ چند برسوں کے دوران ہزاروں کمسن نوجوان، بچے ، بزرگ اور خواتین اس گن کے بے رحم چھروں کا شکار بن چکے ہیں، سینکڑوں نوجوانوں کی بینائی چلی گئی، حد تو یہ ہے کہ گزشتہ ماہ شوپیان کے ایک دور افتادہ گاؤں میں ۱۸؍مااہ کی بچی ہبہ کی آنکھوں کو بھی اس ظالم گن کے چھروں کا نشانہ بنایا گیا، جس میں اْس کمسن کی ایک آنکھ ناکارہ ہو گئی۔ کشمیری قیدیوں کی حالت زار کا مسئلہ ہو یا پیلٹ گن کی تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ آئے روز ہورہی ہلاکتیں، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمی گرچہ اس حوالے سے رپورٹیں مر تب کر کے اَن کہے حقائق کو منظر عام پر لاتے ہیں، لیکن ان میں ملوثین کے ہاتھ روکنے کے لیے نہ ملکی اور نہ عالمی سطح پر کوئی بچاؤ کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ رواں برس کے دوران ہی اقوام متحدہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں پیلٹ گن کے مہلک ہونے پر واضح دلیلیں دے کر دلی کو اس کا استعمال روک دینے کے لیے کہا گیا لیکن یہ گن بغیر کسی ہچکچاہٹ کے استعمال ہوتا رہتا ہے۔بینائی سے محروم نوجوانوں کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ کیا جارہا ہے ، اْس پر اگر روک لگانے کے لیے کارگر اقدامات نہیں کیے جاتے تو بہت جلد بصارت سے محروم لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ کشمیر میں پائی جائے گی۔ المیہ یہ ہے کہ پیلٹ گن کا شکار بننے والوں میں زیادہ تر وہ لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں جن کی عمر بیس سال سے کم ہے، اس کم عمری میں وہ بینائی سے محروم ہوں تو وہ دوسرے لفظوں میںزندگی بھر دوسروں پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ اپنی اس حالت کو دیکھ کر اْن کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کیا ہوسکتی ہے، اس کا اندازہ شاید ہی کوئی نارمل انسان کرسکے۔نسل نو قوموں کا سرمایہ ہوتا ہے اور ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو یا تو قبرستان کی راہ دکھائی جاتی ہے یا پھر اْن کی آنکھیں چھین کر زندگی بھر کے لیے اپاہچ بنادیا جاتا ہے۔ یہ بے یار ومددگار قوم اپنی نسلوں کو اس طرح مٹنے ہوتے بے بسی کے عالم میں صرف دیکھتی ہے اور اسے بچانے کے لیے کچھ نہیں کر پاتی۔
کشمیر کے حوالے سے عالمی طاقتوں کا ضمیر بیدار ہونے کے لئے ضروری کہ وہ نفاق کا تالا اور مفاد کی دیوار توڑ کر زمینی حقائق کا ادراک کریں اور دیکھیں کہ کس طرح دنیا کے اس چھوٹے سے خطے کو نہ صرف فوجی چھاؤنی میں تبدیل کیا گیا ہے بلکہ وردی پوشوں کو افسپا جیسے کالے قانون کی سائے میں سب کچھ کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی بشری حقوق کی مستند عالمی تنظیم نے وادی کشمیر کو’’ اوپن جیل‘‘ سے یونہی تعبیر نہیں کیا اور نہ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ پر کالا قانون ہونے کا فتویٰ دیا۔ وجہ یہ ہے کہ اس کالے قانون نے وردی پوشوں کو بشری حقوق سے من مرضی چھیڑ چھاڑ کی کھلی چھوٹ دی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دلی کشمیر حل کے لئے اْٹھائی جانے والی ہر پْر امن آواز کو تشد اور تخریب سے خاموش کرتے ہوئے بلاناغہ افسپا جیسے اندھے قانون کا سہارا لیتی ر ہے اور عالمی طاقتیں بھی اہل کشمیر کی حالت ِ زارپر ترس کھاکر اپنا صلح جویانہ کردار نبھانے کے لیے تیار نہ ہوں، تو عام کشمیری کے بشری حقوق کاتحفظ دیوانے کی بڑہے ! لہٰذا چارو ناچار ہمیں ایک بات گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ اپنے انسانی حقوق کی نگہداشت کے لئے ہمیںدوسروں سے کوئی اچھی اْمید رکھنے کی بجائے خود اپنی صفوں میں اس قدر اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے کہ کوئی بھی طاقت ہمارے اتحادکی سیسہ پلائی دیوار کو توڑنے کی جرأت نہ کرسکے۔ فانی دنیا کا اصول یہ ہے کہ عوامی اتحاد میں طاقت پنہاں ہوتی ہے، عوام ہی حکومتوں کو بنیاد فراہم کرتے ہیں اور عوام سے ہی ممالک اور قومیں بنتی ہیں، ہمیں اپنی متحدہ عوامی طاقت کے ذریعے فریق مخالف کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ کشمیری قوم ِمفتوحہ نہیں کہ تادیر اپنے بشری حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموش رہیں۔ خاص کر ہمیں گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے اْن استحصالی سیاست دانوں پر عملاً واضح کردینا چاہئے کہ تمہارے ہاتھوں انسانی حقوق کی بے انتہا پامالیوں کا زخم ہم ۲۰۰۸ء؁ ،۲۰۱۰ء؁ اور۲۰۱۶ء؁میں اْٹھاچکے ہیں ، اب تمہاری دال گلنے والی نہیں ہے۔ اب جہلم سے کافی خون بہہ چکا ہے۔ المختصر اپنے بشری حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے یہ بات بھی سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم اپنا تعلق اپنے رب کے ساتھ جوڑ لیں، کیونکہ وہ ایک واحد ذات ہے جو تمام ظالم و جابر طاقتوں کا غرور خاک میں ملاسکتی ہے اور جو مظلوموں کی آہ سن کر اْن کے لیے رحم اور کامیابی کی اَن دیکھی راہیں کھول سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.