بھارت میں حال ہی میں پانچ صوبائی اسمبلی انتخابات میں جس طرح حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس سے لگتا ہے کہ ابتر ہوتی ہوئی معیشت، کسانوں کی بد حالی اور دو سال قبل نوٹ بندی اور نئے ٹیکس نظام کی وجہ سے تاجر طبقہ کو ہوئی پریشانیوںکی وجہ سے اس کا روایتی ووٹ بینک ٹوٹ گیا ہے۔ اب شاید اگلے چند مہینوں میںکسانوں اور تاجروں کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی مراعات کی بارش کردینگے اور اسکے لئے پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس بھی جنوری کے آخری ہفتہ میں ہی بلانے کی تجویز ہے۔ مگر اندرون خانہ تجزیہ یہی ہے مئی میں ہونے والے عام انتخابات تک اب شاید ہی عام ووٹر تک ان مراعات کا فیض پہنچ پائے گا۔ اسلئے پارٹی لیڈروں کا خیال ہے کہ معیشت کے بجائے جذباتی و قوم پرستانہ ایشوز کی کشتی پر سوار ہوکر عام انتخابات کا پرشور دریا عبور کیا جائے۔
اس سلسلے میں ذرائع کے مطابق فتح حاصل کرنے کیلئے وزیرا عظم نریندر مودی اور انکے دست راست بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے تین ایشوز پر مشتمل ایک روڑ میپ ترتیب دیا ہوا ہے۔ اس میں اولین ترجیح اترپردیش کے شہر ایودھیامیں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ پر ایک عالیشان رام مندر کی تعمیر کا ہوا کھڑا کرنا ہے۔ بی جے پی کے اندر سے ذرائع بتا رہے ہیں کہ پارٹی انتظار میں ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ ( آر ایس ایس) اور اسکی ذیلی تنظیم ویشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کس حد رام مندر کو اگلے ایک دو ماہ میں ایک عوامی مہم میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دوسرا جموں و کشمیر میںمزید کشت و خون و غیر مستحکم حالات بنائے رکھ کر اسکو ملک بھر میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے بھنانا شامل ہے۔ اور اگر یہ دو ایشوز عوامی جذبات ابھارنے میں ناکام ہوتے ہیں ، تو آخری حربہ کے طور پر انتخابات سے قبل پاکستان کے خلاف کسی طرح کی جارحانہ کارروائی کرکے ہندو ووٹروں کو بی جے پی کے حق میں لام بند کرنا، تاکہ دفاعی سودوں اور بینکوں میں ہورہی بد عنوانیوں اور دیگر ایشوز کو لیکر وہ مودی حکومت کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہ کرسکیں۔
جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں جس طرح کی خون کی ہولی کھیلی گئی، اس سے یہی لگتا ہے کہ مودی حکومت نے آخرالذکر روڑ میپ پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ منصوبہ ہے کہ کشمیریوں اور پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مشتعل کرکے کشیدگی کو ہوا دیکر ملٹری آپریشنز کیلئے راہ ہموار کرائی جائے۔ پلوامہ میں جس طرح نہتے سویلین افراد کو نشانہ بنایا گیا او ر انکے سینوں اور سر وں میں گولیاں داغ دی گئی ، کسی بھی مہذ ب اور جمہوری معاشرہ کا خاصہ نہیں ہوسکتا ہے۔ مہلوکین میں آٹھویں کلاس کا طالب علم، شیر خوار بچے کیلئے دودھ خریدنے کی تگ و دو میں راستے میں کھڑا باپ، ایک دوکاندار، پریکٹس سے واپس آرہا ایک کھلاڑی اور کئی راہگیر شامل تھے۔مقامی لوگوں کے مطابق پلوامہ کے ایک د یہات سرنو میں صبح ساڑھے 8بجے کے قریب فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان تصادم ختم ہوگیا تھا ۔ گو کہ لوگ سڑکوں پر تھے، مگر پر تشدد مظاہرے نہیں ہو رہے تھے۔بتایا جاتا ہے کہ جب فورسز کی ٹکڑی آپریشن ختم کرکے واپس جارہی تھی کہ کھار پورہ محلہ میں تنگ راستہ کی وجہ سے انکی بھاری بھرکم کیسپر گاڑی کو موڑ نے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ عوام کو سڑکوں سے ہٹانے اور راستہ بنانے کیلئے فورسز اہلکاروں نے بندوقوں کے دہانے کھول دیئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے پیدل چل رہے افراد زمین پر گرتے گئے۔اسی طرح کی صورتحال پلوامہ سٹیڈیم کے پیچھے بر پورہ میں بھی پیش آئی اور وہاں بھی فورسز کی ایک گاڑ ی پھنس کر رہ گئی تھی۔یہاں بھی فورسز نے بندوقوں کے دہانے کھول کر اندھا دھند فائرنگ کی ۔ مہلوکین میں انڈونیشیا سے ایم بی اے ڈگری یافتہ عابد حسین لون بھی شامل ہے ، وہ حال ہی میں اپنی انڈونیشین اہلیہ اور شیر خوار بچے کے ساتھ کشمیر منتقل ہو گیا تھا ۔ آٹھویں جماعت کے طالب علم عاقب بشیر کا والد ہسپتال میں تو زخمیوں کو دیکھنے گیا تھا کہ اسے اپنے لخت جگر کی ہلاکت کی اطلاع ملی۔ وہ ضلع ہسپتال پلوامہ سے گزر رہا تھا جس دوران ان کے دل میں خیال آیا کہ ضلع ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت اور خون کا عطیہ کروں۔ ہسپتال میں اسکو بتایا گیا کہ ایک غیر شناخت شدہ بچے کی لاش پڑی ہے ، جس کی ابھی تک شناخت نہیں ہوسکی ہے ۔ معلوم ہوا کہ یہ تو اسی کے 14سالہ لخت جگر کی لاش ہے۔
شمالی ایئر لینڈ، عراق، افغانستان ، کوریا و فلسطین کا دورہ کرنے اور ان تنازعات کا مشاہد ہ کرنے کے بعد میرا خیال ہے کہ دنیا کے دیگر جنگ زدہ خطوں کے برعکس عالمی میڈیا نے بڑی حد تک کشمیرکو نظر اندازکیا ہے۔ حال ہی میں استنبول میں فلسطین پر ہوئی بین الاقوامی میڈیا کانفرنس کے متعدد سیشنز میں جب شورش زدہ خطوں میں رپورٹنگ کے حوالے سے میں اپنے تجربات بیان کر رہا تھا، کسی کو یقین ہی نہیں ہورہا تھا۔کئی دہائیوں سے فلسطین و مغربی ایشیا کے دیگر تنازعات کو کور کرنے والے معروف صحافی اور قلم کار جونانتھن اسٹیل حیران تھے، کہ وہ کیسے ان واقعات سے نابلد ہیں۔ وہ بعد میں استفسار کر رہے تھے کہ نئی دہلی میں مقیم بین الاقوامی میڈیا ان واقعات کا نوٹس کیوں نہیں لیتا ہے؟ (جاری ہے) جب میں نے ان سے کہا کہ بین الاقوامی میڈیا کو کشمیر جانے کیلئے سرکاری اجازت کی ضرورت ہوتی ہے تو متعدد دیگر صحافیوں نے بھی کہا، کہ اس طرح کی کسی پابندی کا سامنا انکو فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں کبھی نہیں کرنا پڑا ہے۔ کشمیر پر اگر رپورٹنگ ہوئی بھی ہے تو بھی دور دراز علاقوں تک رسائی نہ ہوسکی ہے۔ حتیٰ کہ سرینگر کا مقامی میڈیا بھی بیشتر علاقوں میں جانے سے قاصر ہے۔
چند برس قبل بھارت کے ایک معروف کالم نویس اور قانون دان اے جی نورانی کے ہمراہ میں نے شمالی کشمیر میں لنگیٹ تحصیل کے ایک خوبصورت مقام ریشی واری کا دورہ کیا تھا۔ سرسبز جنگلوں اور پہاڑی نالوں سے پْر اس وادی میں داخل ہوتے ہی تقریباً 30 کلومیٹر تک سڑک سے ملحق سبھی گھروں کی دوسری منزل پر ہمیں فوجی جوان نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ گھروں کے مکین تو پہلی منزل پر رہتے ہیں اور دوسر ی منزل فوج کے لئے مخصوص ہے۔ یہاں گائوں والوں نے پہلی بار میڈیا سے وابستہ افراد کو دیکھا تھا۔ اسی طرح اگر سرینگر کے شیرِکشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزکے آرکائیوزکو کھنگالا جائے تو ایسے ہوشربا کیسز کی تفصیلات ملے گی، جو بقول کئی ڈاکٹروںکے میڈیکل ہسٹری میں آخری بار صرف جنگ عظیم دوم کے دوران جرمن انٹیلی جنس کے ادارے گسٹاپو کے انٹروگیشن سنٹروں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔کشمیر میں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہونے والے افراد کی آنکھیں بچانے میں مصروف باہر سے آئے ڈاکٹر تک ذہنی تنائو کا شکار ہوگئے کیونکہ ان کے بقول انہوں نے اپنے پورے کیریئر میں ایسی جنگ زدہ صورتحال کبھی نہیں دیکھی تھی۔
قوم پرستی کے خمار میں ڈوبے وزیر اعظم اور حکومت کے دیگر لیڈروں کے رویے سے ظاہر ہے کہ وہ کشمیری عوام اور پاکستان تک پیغام پہنچانا چاہ رہے ہیں کہ ان کی منزل نا قابل حصول ہے اور کسی بیرونی دبائو کی عدم موجودگی میں ریاست کا وسیع دائرہ بالآخر تحریک کشمیر کو تحلیل کردے گا۔ اور ان کو یقین ہے کہ انتخابات میں یہ طریقہ کار انکو فائدہ پہنچائے گا۔ اپنے تازہ بیان میں فوج کے سربراہ جنرل بیپن راوت نے کہا کہ فوج کشمیر میںڈرون حملے کرسکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ لوگ اجتماعی نقصان (collateral damage) کے لیے تیار ہوں ‘‘۔وہ یہ شاید کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ کشمیر میں فوج کا مقابلہ کسی باضابطہ منظم عسکری گروہ سے نہیں بلکہ ناراض نوجوانوں اور عوام کے ساتھ ہے۔
مجھے یاد ہے کہ 2010ء میں کشمیر ایسی ہی صورت حال دوچار تھی کہ اس دوران بھارت کے سینئر صحافیوں کے ہمراہ مجھے اسرائیل اور فلسطین کے دورے کا موقع ملا۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیر ڈیوڈ رائزنر بریفنگ دے رہے تھے۔ وہ اسرائیلی فوج میں اہم عہدیدار رہ چکے تھے، لبنان کی جنگ میں ایک بریگیڈ کی کمان بھی کی تھی، اس کے علاوہ انتفاضہ کے دوران بھی فوج اور پولیس میں اہم عہدوں پر براجمان رہے تھے۔ اس اسرائیلی افسر نے بھارتی صحافیوںکو ششدر اور رنجیدہ کردیا جب اس نے کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے افسروںکے ’’کارنامے‘‘ سنانے شروع کئے۔ اس نے کہا، بھارتی افسر اس بات پر حیران ہو جاتے ہیںکہ شورش زدہ علاقوں میں مسلح اور غیر مسلح کی تفریق کیوںکی جائے؟ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں اسرائیل کے دورے پر آئے ہوئے ایک بھارتی جنرل نے ان کو بتایا کہ کشمیر میں وہ پوری آبادی کوگھیرکرگھروں میںگھس کر تلاشیاں کرتے ہیں کیونکہ ان کے لئے کشمیرکا ہر دروازہ دہشت گردکی پناہ گاہ ہے۔ اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد کسی بھی طور پر اسرائیلی جرائم کا دفاع کرنا نہیں بلکہ صرف یہ باورکرانا ہے کہ کشمیرکس حد تک عالمی ذرائع ابلاغ میں اور سفارتی سطح پر انڈر رپورٹنگ کا شکار رہا ہے اور مظالم کی تشہیرکس قدر کم ہوئی ہے۔ رائزنرنے جنرل کا نام تو نہیں لیا مگر کہا کہ ہم نے بھارتی فوجی وفد کو مشورہ دیا کہ عسکری اور غیر عسکری میں تفریق نہ کرکے وہ کشمیر میں صورت حال کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
اس خطے میں پلوامہ جیسی بہت سی کہانیاں منظر عام پر آنے کے لئے تفتیشی صحافیوں اور مصنفین کی منتظر ہیں۔ ان داستانوںکی محض ایک جھلک بالی ووڈ کی فلم حیدر میں اور ایڈرین لیوی اورکیتھی اسکاٹ کی کتاب ’’دی میڈوز‘‘ میں ملے گی۔ کشمیر پر چار صدیوں سے زائد طاقت اور خوف کے ذریعے حکومت کی جا رہی ہے۔خوف کی نفسیات بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے؛ تاہم طاقت کا زور اب بھی باقی ہے۔یہاں کہیں امن و سکون نہیں مگراس کے باوجود اہل کشمیر آلام و مشکلات کی شدت برداشت کر کے بھی حالات کے سامنے سپر انداز ہونے کو تیار نہیں۔ شاید اسی حقیقت کا اظہار بارہویں صدی کے مشہور مورخ کلہن پنڈت نے کیا تھاکہ اہل کشمیرکو محض زور بازو سے زیر نہیں کیا جاسکتا۔
اگلے مالی سال کے دوران تعمیر و ترقی و سرکاری تنخواہوں کے نام پر حکومت جموں و کشمیر میں 88911کروڑ روپے صرف کررہی ہے۔بھارتی حکومت کے سالانہ3.5لاکھ کروڑ روپے کے دفاعی بجٹ کا نصف یعنی تقریباً 1.7 لاکھ کروڑ روپے بھی کشمیر میں ہی خرچ ہوتا ہے۔ اگر اس حساب کو جوڑا جائے تو ایک اندازہ کے مطابق بھارتی حکومت کشمیر پر اپنے قبضہ کو برقرار رکھنے کیلئے روزانہ 737 کروڑ یعنی سات بلین روپے خرچ کرتی ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ بھارتی ٹیکس دہندہ کی یہ خون پسینہ کی کمائی کسی مثبت اور تعمیری مد میں خرچ ہوتی ،جس سے جنوبی ایشیا میں غربت کا خاتمہ ہوتا اور اقوام عالم میں اس خطے کو ایک اقتصادی طاقت کا درجہ دلایا جاسکتا تھا۔ ورنہ کشمیر میں ترقی کے نام پر فنڈ فراہم کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی جیل کا بجٹ بنانا۔ جیلر بھی قیدیوںکے کھانے پینے کا خیال تو رکھتا ہی ہے ۔ وہ کتنا ہی نرم دل کیوں نہ ہو ، اسکا اور قیدیوں کے درمیان ایک تنائو کا رشتہ ہی رہتا ہے۔ اگر اب بھی حکومتیں اس نکتہ کو سمجھنے سے قاصر رہیں گی تو یہ خطہ بد ترین عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کے لئے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ اس کے لئے جمہوریت، رحم دلی اور مفاہمت پر مبنی ایک ماحول تیار کرنا ہوگا۔