آر ایس ایس کے آفیشل آرگن’’آرگنائزر‘‘(Organiser) میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایک وکیل پرشانت پاٹل کا مضمون شائع ہوا ہے۔Why the Population Control law is now most urgent and essential in the National Interest? کے عنوان سے لکھے گئے مضمون کو دیکھ کر پہلے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ شاید انڈیا کی بڑھتی ہوئی آبادی سے پریشان ِ حال آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے اس وکیل صاحب نے افلاس اور غربت سے بے حال آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی منصوبہ پیش کیا ہوگا لیکن جب اس پورے مضمون پربغور نظر دوڑائی جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا خطرہ پیش کرکے دراصل مسلم آبادی پر نشانہ سادھا گیا اور مسلم آبادی کو گلوبل وارمنگ اور ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں سے بھی زیادہ خطرناک انداز میں پیش گیا گیا ہے۔مضمون نگار نے مسلم آبادی کے تناسب کا اس اندازہ سے تذکرہ کیا ہے کہ جیسے بھارتی مسلمان جنگ کے لیے کوئی فوج تیار کررہے ہیں۔ ایڈوکیٹ پرشانت پاٹل رقمطراز ہیں کہ:’’ بھارت مسلم آبادی کے لحاظ سے انڈونیشا اور پاکستان کے بعد تیسرا بڑا ملک ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق 172 ملین مسلمانوں کی آبادی کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کا دس فیصد حصہ بھارت میں رہتا ہے۔ مسلمانوں کی بڑھتی آبادی سے بھارت میں نہ صرف معاشی استحکام کو شدید خطرات درپیش ہیں بلکہSocial fabric یعنی سماجی تانے بانے کے بکھرنے کا امکان بھی واضح ہے۔‘‘ مضمون نگار نے مسلمانوں کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ’’ یہ لوگ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ ضبط ولادت (Birth Control) ان کے مذہب میں جائز نہیں ہے۔ بچہ خدا کا دیا ہوا تحفہ ہوتا ہے اور یہ گناہ ہے کہ انسان آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ’’برتھ کنٹرول‘‘ کے مختلف طریقوں پر عمل کرے۔‘‘
دراصل آر ایس ایس کا یہ آفیشل آرگن ہندوستان کے اکثریتی طبقے کو چند فیصد مسلمانوں سے خوف زدہ کرنے کے مشن پر لگا ہوا ہے، منصوعی خطرات کی ہوا کھڑا کرکے ہندوستان میں سیاسی کشمکش جاری رکھنا چاہتا ہے تاکہ آر ایس ایس دیگر تمام مذاہب سے وابستہ آبادی کے خاتمہ کا خواب شرمندۂ تعبیر کرکے ’’ہندو راشٹر‘‘ کے اپنے سپنے کو حقیقی روپ دے سکے۔ یہ ایک Mind Game ہے جس کے ذریعے سے ہندوستانی عوام کے شعور میں ایک ایسے خطرے کی پرورش کی جاتی ہے جو سوائے مفروضے کے کچھ نہیں ہے۔ان سطور میں یہ بتانا مقصود نہیں ہے کہ بیسویں صدی کے وسط میں مغرب نے Population Explosion کا جو مفروضہ کھڑا کیا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں تھاکہ انسانی وسائل کی قیمتی دولت کا صحیح استعمال کرکے تیسری دنیا کے ممالک ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہوجائیں۔ اس مفروضے کے نتیجے میں خود یورپ کی حالت آج یہ ہے کہ وہاں آبادی معمول سے کم ہوکر گھٹ رہی ہے، وہاں Human Resource ختم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے یہ ممالک شدید بحران کا شکار ہوچکے ہیں۔ضبط ولادت کو فروغ دینے کی وجہ سے انسانی نسل کی آفزائش کا فطری سسٹم درہم برہم ہوکر رہ گیا۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انیسویں صدی میںاوسطاً ایک خاتون 6.5 سے 8.0 بچوں کو جنم دیتی تھیں،اُس زمانے میں ہیلتھ کیر کی عدم موجودگی کی وجہ سے اکثر بچے کم عمری میں ہی مرجاتے تھے۔ 1970 میں یہ اوسط 4.5 تک پہنچ گئی اور 2000 میں گھٹ کر2.7 رہ گئی ہے۔اقوام متحدہ کی زیر نگرانی دنیا کی آبادی پر نظر رکھنے والے اداروں کے مطابق 2015 میں ایک خاتون کیFertility rate گھٹ کر محض2.05 رہ گئی ہے۔گویا دنیاآنے والے تیس چالیس برسوں میں جن بڑے چیلنجز سے دوچار ہو گی اُن میں سب سے اہم چیلنج انسانی آبادی کا گھٹ جانا ہوسکتا ہے۔اس لیے بڑھتی ہوئی آبادی کا واویلا کرکے انسانیت کو دنیا ئی وسائل کے لیے خطرہ قرار دینا سوائے مفروضے کے کچھ نہیں ہے۔ مسلمانوں کا اس بات پر ایمان اور یقین ہے کہ دنیا کی ہر چیز اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ہی پیدا کی ہے، دنیامیں خواہ کتنی بھی آبادی کیوں نہ بڑھ جائے اس کے وسائل انسانیت کے لیے کم نہیں پڑ جائیں گے۔
یہاں آر ایس ایس والوں کو یہ سمجھانا مقصود نہیں ہے کہ اسلام برتھ کنٹرول کو گناہ ہی تصور نہیں کرتا بلکہ اس کو خلاف فطرت اور انسانیت کی بقاء کے لیے مہلک قرار دیتا ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف اس زہریلے پروپیگنڈے کے نتائج کیا برآمد ہوں گے اس پر غور کرنا اگر چہ بحیثیت مسلمان ہم سب کا فرض ہے اور بھارت میں بسنے والے اسلام کے نام لیواؤں کو بھی خواب غفلت سے بیدار ہوکر صحیح حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہاں ان تمام چیزوں کے بجائے اپنے بالکل قریب کے حالات کو دیکھنے کی جانب توجہ مبذول کرانا اصل مدعا و مقصد ہے۔جموں وکشمیر مسلم اکثریتی خطہ ہے، یہاں حالات کس نوعیت کے ہیں اس کا سب کو بخوبی اندازہ ہے۔ ایک چھوٹا سا خطہ دنیا کے Most Militrazed Zone کے نام سے جانا جاتا ہے۔گزشتہ سات دہائیوں سے یہاں منظم انداز میں مسلسل انسانیت کا گلا گھونٹ دیا جارہاہے،یہاں انسانی بستیاں ویران اور قبرستان آباد ہوتے جارہے ہیں۔ ابھی دو دن پہلے ہی پلوامہ میں چھ زندگیوں کا چراغ گل کردیا گیا۔جن میں سے عامر احمد، عابد حسین اور اشفاق احمد عام شہری ہیں۔اگر آر ایس ایس اس غلط اور مفروضے پر مبنی خطرے کو پیش کرکے اپنی من گھڑت بات کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے کہ ہندوستان کی بڑھتی ہوئی آبادی ، بالخصوص مسلمان ملک کے لیے مسئلہ ہیں تو ہمارے لیے اس کے بالکل برعکس جنگی جنون میں انسانی آبادیوں کا تخت و تاراج کرنے کے نتیجے میں کی جانے والی نسل کشی سنگین اور اہم مسئلہ ہے۔وہاں آبادی کا بڑھنا اگر ملکی مستقبل کے لیے خطرناک ہے ، یہاں آبادی کا صفایا کرنا قومی مستقبل کو داؤ پر لگانے کا سبب بن سکتا ہے۔جس آبادی کو آر ایس ایس کے Think Tank کوس رہے ہیں ، حق تو یہ ہے کہ اُسی آبادی کی وجہ سے ہندوستان دنیا بھر کی بڑی بڑی طاقتوں کا لاڈلا بنا ہوا ہے۔ اُن ملکوں کے Human Resource کی کمی کا مسئلہ انڈیا حل کررہا ہے بدلے میں ہندوستان کی معیشت کو فروغ مل رہا ہے۔ ہمارے یہاں اس چھوٹے سے خطے میں آبادی کا گٹھناہماری سر زمین کو کبھی بھی فلسطین بنا سکتا ہے۔اگر اسی طرح انسانی جانوں کا زیاں ہوتا رہا تو دنیا سے الگ تھلگ اور کٹی ہوئی یہ وادی انسانی المیے کا شکار ہوجائے گی۔رواں سال میں ابھی تک چار سو کے قریب نوجوانوں کو جنگی جنون کی بھینٹ چڑھا کر جان بحق کردیا گیا ہے، مطلب چار سو خاندان بسنے سے رہ گئے ہیں، چار سو خاندانوں کی نسلیں آگے نہیں بڑھ پائی ہیں۔گویا ہمارا افرادی تناسب گھٹ جارہا ہے اور ملی و قومی بقاء کے لیے آبادی کابڑھنا لازمی ہوتا ہے۔
ان حالات میں ہماری کیا ذمہ داری ہیں ؟اس کے لیے ہمیں ہر وقت فکر مند رہنا چاہیے۔ کچھ چیزیں ہماری بس میں نہیں ہیں، ہم اُن کو چاہتے ہوئے بھی روک نہیں سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جو لوگ یہاںطاقت کا استعمال کرکے نسل کشی کا ارتکاب کررہے ہیں اُنہیں ایسا نہ کرنے کے لیے یہ قوم دہائیوں سے دُہائیاں دیتی آرہی ہے، خوب واویلا کرتی رہی لیکن ہماری بے بسی کا عالم یہ ہے کہ اس قوم کے لیے حالات اور زیادتیوں کے اعتبار سے ہر آنے والا دن پہلے سے بدتر ہوتا ہے۔ہم اپنے ساتھ ہورہی زیادتیوں کے خلاف صرف آواز بلند کرسکتے ہیں اور پُر امن طریقوں سے اپنی بات دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں ، ظلم کا ارتکاب کرنے والوں کے ہاتھ روک لینے کی طاقت ہم نہیں رکھتے ، ہم اُنہیں قبرستان آباد کرنے سے باز نہیں رکھ پارہے ہیں۔البتہ ہمارے یہاں آبادی کا تناسب نہ بگڑ جائے، آنے والے وقت میں ہم اکثریت سے اقلیت میں تبدیل نہ ہوجائیں اس کے لیے ہم سنجیدہ کوششیں کرسکتے ہیں، جو بدقسمتی سے ہم نہیں کرتے ۔ ہم مجموعی طور پر اپنی قوم کی تباہی کا سامان از خود فراہم کررہے ہیں۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیوں میں تاخیر سے کیا آبادی کا توازن نہیں بگڑ جائے گا؟ روٹی ، کپڑا اور مکان کی عدم دستیابی کے ڈر سے بچوں کی پیدائش پر روک لگانے کے لیے غیر شرعی طریقوں کا استعمال کرکے کیا ہم جرم عظیم کا ارتکاب نہیں کررہے ہیں؟ حالانکہ ہمارے یہاں غریب سے غریب تر انسان کو بھی روٹی، کپڑا اور مکان کے مسائل درپیش نہیں ہوتے ہیں۔اصل میں ہماری نوجوان نسل رسوم و رواج کی دلدل میں پھنس چکی ہے، وہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کررہے ہیں، جس کے نتیجے میں سماجی سطح پر قوم کے لیے سنگین نوعیت کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جن میں اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ آفزائش نسل میں مسلسل گرواٹ آرہی ہے۔
سماج کی مجموعی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، رسوم و رواج کی سحر انگیزیوں سے باہر نکلنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے، نوجوان نسل کو یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ ازدواجی زندگی اُن کے لیے نہ صرف باعث رحمت ہے بلکہ اُن کے رزق میں کمی کے بجائے فراوانی ہونے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔شادی بیاہ کو تعلیم اور کیرئیر میں رکاوٹ ہونے کی سوچ کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، جبھی ہماری نسلوں میں ذمہ داریاں اُٹھانے کا جذبہ پیدا ہوجائے گا۔ شادیوں میں تاخیر سے سماج میں ان گنت مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، پوری سوسائٹی میںہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور ذہنی تناؤ کی بڑھتی شرح کا ایک اہم سبب نوجوان نسل کی تنہائیاں اور اکیلا پن بھی ہے۔جوانی کے دہلیز پر قدم رکھتے ہی شادی کے بندھن میں بند جانے کے بے شمار فائدے ہیں، انفرادی سطح پر بھی اور سماج کے اجتماعی مفاد کے لیے بھی شادیوں میں جلدی کرناضروری بن چکا ہے۔اس لیے ہمیں اس سلگتے ہوئے مسئلے پر شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کا ادراک کرکے ملت اسلامیان کشمیر کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو لازمی طور پر آنے والے زمانے کے مورخ ہمیں معاف نہیں کریں گے۔
جہاں جنگی حالات ہوں، جہاں نسلیں کٹ مررہی ہوں، جہاں جنازوں کا چلن عام ہو، وہاں شادیوں میں تاخیر نہیں کی جاتی، وہاں اسقاط حمل نہیں کروایا جاتا، وہاں ایک بچے پر اکتفا نہیں کیا جاتا، وہاں پچیس سال کی عمر سے آگے کوئی غیر شادی شدہ نہیں ہوسکتا ہے۔مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسا ہی ہے۔ہم مجموعی طور پر اس مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قومی مسائل کو جانیں، ان کی تہہ میں جاکر وجوہات کو ڈھونڈ نکالیں اور پھر وہ تمام اقدامات کریں جو ہماری بس میں ہوں، اُس کلچر کو پروان چڑھائیں جو قومی بقاء کے لیے سود مند ہوگا۔اللہ تعالیٰ سوچنے، سمجھنے اور پھر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی ہم سب کو توفیق عطا کرے۔
[email protected]