گز شتہ دنوں دو خبریں اخباروں کی شہ سرخیاں بنیں: اول آرمی چیف کی پریس کانفرنس ، دوم شاہ فیصل(سابق انڈین ایڈمنسٹریٹو آفسر )کا استعفیٰ ۔ چلئے ان دونوں خبروں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ ۱۵؍ جنوری کو آرمی ڈے کے موقع پر آرمی چیف جنرل بپن راوت نے اپنی پریس کانفرنس میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے یہ کہا :’’ بات چیت اور ملی ٹینسی ایک ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتی اور کشمیر میں جنگجوؤں کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات ہندوستانی شرائط پر ہوں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا :’’ پاکستان میں حکومت کے بدل جانے سے سرحدوں پر تناؤ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ پاکستانی لیڈرامن کی صرف بات کرتے ہیں اور زمینی سطح پر حالات کو بہتر بنانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرتے ہیں۔‘‘افغانستان میں طالبان کے ساتھ مختلف ممالک کی جانب سے ہورہیں مذاکراتی کوششوں کے بارے میں جنرل راوت نے کہا :’’طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بھارت پیچھے نہیں رہ سکتا کیونکہ افغانستان میں بھارت کے اپنے مفادات ہیں اور کشمیر میں جنگجوؤں کے ساتھ ویسا ہی طریقہ کار اور وہی پالیسی اختیار نہیں کی جاسکتی جیسا طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اپنائی جارہی ہے کیونکہ ہر جگہ کے لیے پالیسی ایک ہی نوعیت کی اور یکساں نہیں رہتی ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک دوفریقی مسئلہ ہے جو ہمارے اور ہمارے مغربی ہمسایہ(پاکستان) کے درمیان ہے، اس میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، اور یہاں جب ہم بات چیت کریں گے تو اپنی شرائط پر کریں گے۔‘‘آرمی چیف کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب وادی ٔ کشمیرکے ایک سرکردہ آئی اے ایس آفیسر ڈاکٹر شاہ فیصل نے کشمیر کے نامساعد حالات کے ردعمل میں استعفیٰ دیااور مابعد استعفیٰ اپنا یہ عزم ظاہر کیا کہ وہ کشمیری نوجوانوں کے جذبات کی نمائندگی کریں گے۔ استعفیٰ کے اس واقعہ نے سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں زوردار بحث چھیڑ دی کہ ترکِ ملازمت کے جواز میں ڈاکٹر شاہ فیصل نے جو اسباب ومحرکات پیش کئے، آیا وہ اس حوالے سے سنجیدہ اور مخلص ہیں یا پھر Deep State حسبِ عادت پھر ایک مرتبہ متحرک ہوکر کشمیر میں سیاسی سطح پر تاریخ کو دوہرانے کا من بنا چکی ہے؟ اور یہ کہ کیا اسیDeep State کی نئی منصوبہ بندی کے ضمن میں ڈاکٹر شاہ فیصل دانستہ یا نادانستہ طور اس کا حصہ بن چکے ہیں؟
۲۰۰۹ء بیچ کے آئی اے ایسTopper ڈاکٹر شاہ فیصل کے سرکاری عہدے سے رضاکارانہ استعفیٰ کے نتیجے میں ریاستی گلیاروں میں جو بحث چھڑ چکی ہے، اُس بحث کو سمیٹنے میں آرمی چیف کا پریس بیان آئینہ داری ادا کرسکتا ہے۔ڈاکٹر شاہ فیصل نے اپنے استعفیٰ کے سلسلے میں بھارتی فوج کے ہاتھ گزشتہ ماہ پلوامہ میں ہوئے قتل عام کو بھی ایک وجہ بتایا اور کہا وہ آگے کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں کے بہبود کے لیے کام کریں گے۔ اگر چہ تادم تحریر ڈاکٹر فیصل نے اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہیں لایا ہے ،البتہ اُن کی پریس کانفرنس، انٹرویوز اور فیس بُک پوسٹس کو دیکھنے کے بعد ایک چیز کھل کر واضح ہورہی ہے کہ موصوف الیکشن کے ذریعے سے اسمبلی یا پارلیمنٹ میں پہنچ کر کشمیری عوام کی’’ نمائندگی ‘‘کے خواہش مند ہیں۔وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جو کچھ کشمیری گزشتہ سات دہائیوں سے بالعموم اور تیس برس میں بالخصوص ہزار ہا قربانیوں کے باوجود حاصل نہیں کرپائے ہیں، وہ سب موصوف پارلیمنٹ ممبر بن کر حاصل کرنے میں’’ کامیاب‘‘ ہوجائیں گے۔سرکاری عہدے سے اپنے استعفیٰ سے قبل ’’انڈین ایکسپرس ‘‘میں’’ گریٹر کشمیر‘‘ کے معروف کالم نگار محبوب مخدومی کے ساتھ مل کر اپنے مضمون میں شاہ فیصل نے دبی زبان میں کشمیریوں کے بنیادی حق یعنی حق ِخودارادیت کو تسلیم کرلیا ۔ فی الوقت یہی ایک حق پانے کے لئے کشمیری عوام خاک وخون میں غلطاں وپیچاں ہیں۔ بدنام زماں افسپا کشمیر میں ا سی لئے نافذالعمل ہے کیونکہ کشمیری قوم اقوام متحدہ میں اسے دئے گئے وعدے کی یاد دہانی کا ’’جرم‘‘ کر ر ہی ہے ۔اسی ’’ جرم‘‘ کی پاداش میں یہاں حقو ق البشر کی خلاف ورزیوں اورظلم و زیادتیوں کی بھٹیاں رات دن سلگائی جا رہی ہیں۔ حالیہ دنوں پلوامہ میں سات شہریوں کی جان بحق کیے جانے کے پس منظر میں ڈاکٹر فیصل نے اپنے سرکاری منصب سے استعفیٰ دیا اور جن نہتوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کئے گئے ہیں وہ بھی اپنے پیدائشی حق یعنی حق خودارادیت کی مانگ کررہے تھے۔ شاہ فیصل اس نوع کے گہرے زخموں کو اب انتخابی مرہم سے مندمل کر نا چاہتے ہیں ، لیکن اگر وہ تاریخ کے پیچ وخم سے باخبر ہیں تو جانتے ہوں گے کہ کشمیری عوام پارلیمنٹ یا پھر اسمبلی میں جاکر اپنے سلب شدہ حقوق کی باز یابی کے تجربات گزشتہ ستر سال سے کر تے رہے لیکن انہیں ملا کیا ؟ ۱۹۸۷ء کے جن انتخابات کو بنیاد بناکر شاہ فیصل کشمیریوں کو واپس پلٹ کر وہی طریق کار اپنانے کا مشورہ دے رہے ہیں ،اُن انتخابات میں ہی نہیں بلکہ اُس کے بعد ۱۹۹۶ء کے انتخابات کو چھوڑ کرریاست میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ، اُن میں ہند نواز جماعتوںنے بھی اپنے الیکشن منشور وںمیں مسئلہ کشمیر کا حل شامل رکھا،۲۰۰۲ء میں پی ڈی پی نے بڑی ہی مہارت کے ساتھ حریت کانفرنس کا ایجنڈا ہائی جیک کرنے کی کوشش کی تھی، اس کی دیکھا دیکھی میں نیشنل کانفرنس اور الیکشن لڑنے والی دیگر جماعتوں اور افرادنے بھی کشمیر حل کا ورد کرنا شروع کردیا۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں کشمیر کی زمینی صورت حال کے ساتھ اپنے آپ کو بناوٹی طورہم آہنگ دِکھنے سے ان جماعتوں نے کئی مرتبہ کشمیر مسئلے پر سخت موقف اختیارکرنے میں حریت تک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا ،حد یہ کہ پی ڈی پی نے جس وقت بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملاکر مشرق اور مغرب کے ملن جیسے اتحاد سے مخلوط حکومت تشکیل دی ، اُس کے لئے پارٹی نے’’ الائنس آف ایجنڈا ‘‘ کے نام سے جو پٹی ووٹروں کو پڑھائی، اُس میں بھی کشمیر حل کا سنہرا خواب سجایا گیا تھا۔ الیکشن ہوئے، لوگوں نے خوش نما نعروں پر لبیک کہہ کے ووٹ بھی ڈالے ، حکومتیں بنی بھی او رگری بھی لیکن نہ ہی دلی کے حکمرانوں کے وطیرے میں کوئی ادنیٰ سی تبدیلی دیکھی گئی اور نہ ہی زمینی سطح پر کشمیر میں کہیں باعزت امن ، گولی نہیں بولی ، زخموں کی مرہم کاری کا کوئی اَتہ پتہ ملا۔ چشم ِفلک نے دیکھا کہ دلی کے حکمران کشمیر کے تعلق سے اپنا روایتی راگ اَلاپتے رہے، کشمیر کے حکمران داد ِ عیش دیتے رہے اور کشمیریوں کی جواںنسل کٹتی رہی۔
جنرل بپن راوت کا محولہ بالا بیان صاف صاف ف کہہ رہا ہے کہ انڈیا کشمیر کے بارے میں اُسی موڑ پر آج بھی کھڑا ہے جہاں یہ سترسال پہلے تھا۔ اسی روایتی کشمیر پالیسی کو دلی میں براجمان ہر حکمران پارٹی نے پہلے سے زیادہ تیکھا بنائے رکھنے کو دیش بھگتی اور ملک کی اکھنڈتا و ایکتا گردان کر اپنے ووٹ بنک کا خم خانہ سجایا۔دلی نے اپنے اس جمود پسندانہ کشمیر بیانیہ کو صحیح جتلانے کے لیے زورِ بازو، کالے قوانین ،اندھا میڈیا، بے مطلب مذاکرات اور وعدہ ہائے فرداکا سہارا بھی وقتاًفوقتا لیا ۔ نیز اس غیر متوازن اور غیر منصفانہ کشمیر پالیسی کے حق میں جہاں ہمارے گھر کے بھیدیوں نے کرسی اور مال و زر کی قیمت پر اپنی خدمات پیش کیں ،وہاں عالمی سیاست وسفارت میں تاجرانہ ذہنیت حاوی ہونے کے سبب بھی اسے ہی تقویت ملتی رہی ۔ نتیجہ یہ کہ اہل ِکشمیر متواتر بیش بہاقربانیوں کے باوجود آج کی تاریخ میں بھی خالی ہاتھ ہیں ۔ دلی کی گدی پر تخت نشین حکمرانوں نے اسی پالیسی پر عمل درآمداُس وقت بھی کیا جب تاریخ ساز دھاندلیوں سے ۱۹۸۷ء مسلم متحدہ محاذ کے جیتنے والے اُمیدواروں کو نہ صرف شکست خوردہ قرار دیا گیا بلکہ اُنہیں جرم ِبے گناہی کی پاداش میں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا کہ جوش وجذبے سے لیس کشمیری نوجوان جمہوریت کے تمام طریقوں سے مایوس اور نااُمید ہو کر رہے اور انتہائی قدم اُٹھا کر اپنی زندگیاں تک داؤ کشمیر حل پر لگا دیں۔ سوال یہ ہے کہ جو حقیقت ِکشمیر اہل وطن کی ستر سالہ ایثار پیشہ جدوجہد کے باوجود ہندوستان کی مرکزی سرکار نہ سمجھ سکی یا پھر اسے سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی، جس دلی کو شیخ عبداللہ کی بھر پور عوامی حمایت سے چل رہی ۲۲؍سالہ ’’سیاسی آوارہ گردی ‘‘ تک کشمیر حل کا قائل نہ کرسکی، اپنی پوری زندگی ہندنوازی میں کھپا دینے والے جو مفتی سعید ’’ سیلف رول‘‘ کوعملی شکل دلوا نہ سکے، دلی کی ہر حکومت کا شاہ سے زیادہ وفادار رہنے والے جو ڈاکٹر فارو ق بھاری اکثریت سے اسمبلی میں پاس شدہ اٹانومی قراراداد کے بُرے حشر پر اُف تک نہ کرسکے ، تاریخ ِ کشمیر کے ان تلخ کام اوراق کو ڈاکٹر شاہ فیصل کیسے نظرا نداز کر سکتے ہیں ؟ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ الیکشن سیاست کا حصہ بن کر کشمیرکے درد کا کس معجزہ نمائی سے درماں ثابت ہو سکتے ہیں؟ لہٰذا مبصر ین کہتے ہیں کہ موصوف انتخابی دَنگل میں کامیاب بھی ہوں تو بھی زیادہ سے زیادہ اقتدار اور سرکاری ایوانوں کی زینت بننے کی خواہش رکھنے والوںکی صف میں ایک اور نام کا اضافہ ہو گا اور بس ۔
۱۱؍جنوری کو جس وقت ڈاکٹر شاہ فیصل اپنی پہلی پریس کانفرنس کررہے تھے، ٹھیک اُسی وقت ریاستی گورنر کا یہ بیان میڈیا میں گردش کرگیا کہ ہر دیہات میں بچوں کے کھیلنے کودنے اور تفریح کے لیے ایک ایک پلے گراونڈ کے لیے زمین مختص ہونی چاہیے ۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیر۱۳؍سے ۲۳؍سال کی عمر تک کے نوجوانوں کا مسئلہ ہے۔ اس سے قبل بھی گورنر ستیہ پال ملک کئی مرتبہ یہ بات کہہ چکے ہیں کہ کشمیر کی آبادی کا چالیس فیصد سے زیادہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہی نوجوان سنگ بازی بھی کرتے ہیں اور عسکریت کی جانب بھی مائل ہورہے ہیں۔ اس لیے انہی نوجوانوں پر فوکس کرکے اُنہیں مختلف مشغلوں میں مصروف رکھا جانا چاہیے ۔ یہ ہے دلی میڈ کشمیر حل ! اس لئے شاہ فیصل کی نیت کتنی بھلی چنگی ہو ،انہیں مفروضوں کی دنیا سے چار وناچار باہر آ کر تند وتلخ حقائق کا سامنا کرنا ہی ہوگا ۔ انہیں معلوم ہوگا کہ ہر دور میں کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد اور آرزؤںکی اصلیت نکارنے کے لئے مختلف من پسند تاویلیں کی گئیں ، کبھی یہاں کے لوگوں کی جدوجہد کو بے روز گاری کا مسئلہ قرار دیا گیا ، کبھی مقامی حکومتوں کی نااہلی، کرپشن اور اقرباء پروری کو اس کے لئے مورد الزام ٹھہرایا گیا، کبھی اسے سرحد پار کی کارستانی قرار دیا گیا ، کبھی کشمیریوں کی دلی آواز کو بنیاد پرستی کا جنون کہا گیا، کبھی کشمیر یوں کے غم و غصہ کو فرقہ پرستی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ، کبھی تنازعہ کشمیر کو منشیات کے عادی نوجوانوں کی کارستانی سے تعبیر کیا گیا، کبھی اسے کشمیر کی پانچ فی صدآبادی کا کیا کرایا جتلایا گیا۔ یہ سب الزامات یا توجیہات ہمالیہ جیسی سچائی سے نظریں چرانے اور شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے کے مترادف ہے۔ ان ٹھوس حقیقتوں کے سامنے کیا شاہ فیصل کو قربانی کا بکرا بنانے کے لیے اسٹیج تیار کیا جارہا ہے جیسے کبھی شیخ عبداللہ کو بھی بلی کا بکرا بنایا گیا مگر آج حالت یہ ہے کہ عوامی مقبولیت کے نصف لنہار پر پہنچنے والے اس اول نمبر کے لیڈر کی قبر پر پہرے دار کھڑے ہیں۔ شیخ عبداللہ کے بعد اُن کے بیٹے فاروق عبداللہ نے بھی ایک ایسے وقت کشمیر میں Deep State کا ساتھ ’’گریٹر اٹونومی‘‘ کے جُل پر دیا جب یہاں راجیو گاندھی تک کو بھی لگاتھا کہ انڈیا کشمیر گنوا چکا ہے ۔ سیاسی جوڑ توڑ کا یہ ورق اُلٹ کر چھ سال بعد ڈاکٹر فاروق کو حاشیے پرڈالتے ہوئے مفتی سعید کو تخت نشین کیا گیا۔اُنہوں نے اپنی خالی خولی نعرہ بازیوں سے ایک ایسے نازک وقت دلی کے پیر کشمیر میںجمانے کا کرشمہ دکھایا، جب واجپائی بہ حیثیت وزیراعظم دلی کو کشمیر بارے لکیر کا فقیر بننے سے پر ہیز کر نے کااُ پدیش musings کے عنوان سے دے رہے تھے اور ایڈوانی بطور نائب وزیراعظم’’ کچھ لو کچھ دو‘‘ کا تول مول کر نے لگے تھے ۔ مفتی سعید نے دلی کی مدد سے اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی اور چند سال بعد جب وہ اس دنیا ئے فانی سے چلے گئے، دلی سے وہ بہت زیادہ مایوس تھے اور ساتھ میں اپنی بے بسی کا ادراک بھی رکھتے تھے۔ تو کیا ہم باور کرسکتے ہیں کہ پہلے ڈاکٹر شاہ فیصل کی پیٹھ تھپتھپا کر اُنہیں کشمیری نوجوانوں کا رول ماڈل گرداننے میں شہرت کی حدیں چھولی گئیں اور اب انہیں بدنامی یا ناکامی کی سولی پر لٹکانے کا ڈرامہ شروع کیا جاچکا ہے؟ بہر حال اب یہ شاہ فیصل پر منحصر ہے کہ وہ اپنی صلا حیتوں کا مصرف دست ِغیب کا ڈکٹیشن بناتے ہیں یا حب الوطنی اور ایثار و قربانی کی لمبی مسافت والی پگڈنڈی پر قوم کے aspirations کا ساتھ دیتے ہیں ۔ اُنہیں یاد رکھنا ہوگا کہ کشمیر کے حوالے سے Deep State اپنے رویہ میں تبدیلی لانے کے لیے تیار ہی نہیں ۔ گزشتہ تین دہائیوں سے کشمیر کے بارے میں گھماپھرا کر مرغے کی ایک ٹانگ والا فارمولہ ملک کے حکمران، فوجی جنرلز کے علاوہ انتظامیہ کے بالائی کار پردازوں کی من بھاتی حکمت عملی ہے ، جب کہ نیتا کشمیر کے حالات اور حقائق کا فہم وادارک کر نے کے بجائے ’’من کی باتیں‘‘ سنا کر صرف ووٹروں کی پونجی جمع کرتے پھر رہے ہیں۔ بایں ہمہ اگر مسئلہ کشمیر خالص دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ ہے، اگر اس میں عام کشمیریوں کا کوئی رول نہیں ہے،اگر یہ صرف نوعمر وں کی ناراضگی کا شاخسانہ ہے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ کشمیر کے میدانی علاقوں میں وردی پوش حالت ِجنگ میں کیوں ؟ پھر کشمیریوں کوSky is the Limit ، ’’انسانیت ، جمہوریت اور کشمیریت ‘‘، ’’ گولی نہ گالی سے کشمیر یوں کو گلے لگانے میں سمسیا کا سمادان ہے‘‘ سے کیا مراد ہے؟ کشمیر کے بارے میں تضاد بیانی کا عالم یہ ہے کہ ایک سانس میں صاحبان ِاقتدار کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے ، دوسری سانس میں برملا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ، تاشقند، شملہ اور لاہور میں مرکزی حکمران کشمیر کو تنازعہ کہہ کر کشمیر حل کی یقین دہانیاں کراتے رہے لیکن گھر پہنچ کر یہی لوگ کشمیر کے بارے میں جو عندیہ اختیار کر تے ہیں، کیااُس پر بغل میں چھری منہ میں رام رام صادق نہیںآتا ؟ الغرض آرمی چیف کے بیان اور ڈاکٹر شاہ فیصل کے استعفیٰ سے ایک ہی سکے کے دورُخ واضح ہوجاتے ہیں کہ اول دلی عالمی سطح پر کشمیر مسئلے کو جھٹلا کر اسے پاکستان کی جانب سے کنٹرول لائن کا تقدس پامال کرنے تک محدود کر رہی ہے ، دوم درونِ خانہ کشمیری نوجوانوں کو لبھانے کے لئے نئے تماشے اور نئے کرداروں کو کشمیر کے مہربانوں کا لبادہ اوڑھتی ہے ۔ یہ طرز فکر اور اسلوب ِعمل کشمیریوں کے ساتھ ساتھ برصغیر کے کروڑوں عوام کے لیے کسی صورت نفع بخش نہیں ہوسکتی کیونکہ مسئلہ کشمیر وقتی اور کاسمٹک اقدامات سے نہ کبھی حل ہوا اور نہ آئندہ ایسی اُمید کی جاسکتی ہے۔