اس دورِ جدید میں انسان کی دلچسپی اور معلومات کے لئے سائنس کے ذریعے بہت سے اہم وسائل ایجاد اور دریافت ہوئے ہیں. سائنس نے انسان کو سہولیات و آرام دینے کے لئے لاتعداد ذرائع فراہم کئے ہیں جس سے انسان کو گھر بیٹھے دنیا بھر کے حالات و واقعات ، معلومات اور تفریح و فرحت حاصل ہوتی ہیں. سائنس کیا ہے.. ؟ یہ ایک عام اور سادہ سا سوال ہے. یوں سمجھئے سائنس علم کی ایسی لازوال نعمت ہے جو علیم و حلیم پروردگار عالم کی طرف سے انسان کو عطا کیا گیا ہے .اور اسی سائنس نے انسان کی زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب بپا کر دیا ہے.بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دورِ جدید میں قدرت کی طرف سے انسان کو سب سے بڑا عطیہ سائنس کی ایجادات ہیں تو بے جا نہ ہوگا.اکیسویں صدی عیسوی کے انسانوں کے لئے سائنس اگر چہ ایک عظیم نعمت ہے لیکن اگر اسکے دوسرے پہلو پر غور کیا جائے تو اسکے بہت سارے منفی اور نقصان دہ نتائج بھی ہیں. حالانکہ سائنس کی ایجادات بذات خود کبھی بھی نقصان دہ نہیں ہیں البتہ یہ انسان ہی ہے جس نے ان ایجادات اور برکات کو رحمت کے بجائے اپنی بے انتہا حِرص کی وجہ سے زحمت بنادیا ہے.سائنس کی ایجادات کا صحیح اور جائز طرح سے استعمال ہونا ضروری ہے.ورنہ یہ انسانیت کے لئے تباہی اور بربادی کی وجہ بن سکتے ہیں. سائنس نے جن بے شمار ایجادات سے انسان کو نوازا ، ان میں انٹرنٹ سائنس کی جدید ترین کھوج ہے. انٹرنٹ کا مفید پہلو یہ ہے کہ اس سے الیکٹرانک پیغام کی انتہائی برق رفتاری کے ساتھ ترسیل ہوجاتی ہے انٹرنٹ معلومات کا ذخیرہ ہے اور موجودہ دور میں ترسیل کا اہم اور بنیادی ضرورت بن گیا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹرنٹ کا صحیح اور جائز استعمال کرکے اس پر کارآمد معلومات جمع کرنی چاہئے.
انٹرنٹ کے خوبیوں اور فائدوں سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انٹرنٹ کی سوشل میڈیا ویبسائٹس فحاشی اور بے ہودگی کی آماجگاہ بن گئی ہیں. کیونکہ مخرِب اخلاق اور گندی چیزیں انٹرنٹ کی مختلف ویبسائٹس پر اسطرح آتی ہیں جو بڑی شرمناک اور انسانی تہذیب کے لئے تباہ کن ثابت ہورہی ہیں. بعض مناظر تو ایسے فحش ہوتے ہیں جن سے نوجوان پود دن بدن اخلاقی پستی کا شکار ہوتی جارہی ہیں. مخرِب اخلاق اور انتہائی فحش سوشل میڈیا ویبسائٹس سے نئی نسل کو اخلاقی طور تباہ کیا جارہا ہیں. کیونکہ انٹرنٹ کی فحش بھری ویبسائٹس کے ذریعے کمائی کے لئے عورت کا عریاں جسم بہت مؤثر ثابت ہورہا ہے .شاید اس بات سے سبھی اتفاق کریں گے کہ اگر انٹرنٹ پر کسی چیز سے دولت کمائی جاسکتی ہے تو وہ جنس اور کھیل ہیں. ماڈلوں کے ذریعے جسم کی نمائش کا خوب مظاہرہ ایسا ہوتا ہے کہ ان سے شیطان بھی شرما جاتا ہے. ٹک ٹوک ایپ بھی اسی فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دینے کے لیے یہود و نصاری کے ابلیسی سوچ سے انٹرنیٹ پر وجود میں لائی گئی ایپ ہے جسکو چین نے 2016 کے ستمبر ماہ میں لانچ کیا تھا اور صرف دو سال میں ٹک ٹوک نے شہرت کی بلندیوں کو اسطرح چھو لیا کہ اتنی شہرت فیس بک اور یوٹیوب کو کم سے کم تیس چالیس برسوں میں حاصل نہیں ہوسکی.
ٹک ٹوک ایسی ایپلیکیشن ہے کہ اس پر نوجوان لڑکے خصوصاً لڑکیاں صرف پندرہ بیس سکینڈ کی ویڈیو جو فحاشی اور بےحیائی کی عکاسی کا منظر پیش کرتی ہے ، شئیر کرکےمشہور ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور لایعنی شہرت کے دلدادہ بننا چاہتے ہیں. اسطرح ٹک ٹوک نوجوان نسل میں نشے کی طرح پنپ رہی ہے اور انٹرنٹ پر دنیا کی مشہور ترین ایپلیکیشن بن گئی ہے. یہ ایپ نوجوانوں بلکہ نوجوان لڑکیوں میں اسلیے زیادہ مقبول ہے کیونکہ اس ایپ کے ذریعے آسانی سے خودنمائی کی شیطانی حرکتیں دوسروں تک پہنچائی جاسکتی ہے اور صارفین کے دل لبائے جاتے ہیں جسکے ردعمل میں صارفین کی طرف سے اس پر نازیبا کمنٹس کی انتہا آتی ہیں اور بعض صارفین لڑکیوں سے پرائیوٹ رابطہ نمبر اور نازیبا تصویروں کی فرمائش بھی کرتے ہیں. جو اصلاح معاشرہ کے بجائے ہمارے معاشرے کو ہر نئے دن کے ساتھ بگاڑ اور تباہی کی طرف لے جارہا ہے اور معاشرے کے باشندے خاموشی سے اس بے حیائی اور بے شرمی کے سمندر میں ڈوبے جارہے ہیں. اللہ ہماری حفاظت فرمایے.
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ٹک ٹوک کی اس لاعلاج بیماری میں صرف لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ بچے بھی دیوانے ہورہے ہیں اور بچیوں کے ساتھ اپنی ویڈیو بناکر لوگوں میں شیئر کرتے ہیں، جس سے بیہودگی اور فحاشی اور زیادہ بڑھ رہی ہے. دراصل اس ایپ کے لانچ کرنے کے پیچھے مسلمانوں کے دشمن یہود و نصاری کا وہ ابلیسی سوچ کارفرما ہے جس کے ذریعے وہ دن بہ دن مسلم نوجوان کو اپنے فریب میں پھنسا کر بےحیائی اور بے شرمی کے سمندر میں ڈوبوتے ہیں. اسطرح یہودی اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر اسلام کو میڈیا وار کے ذریعے نشانہ بنا رہے ہیں اور ہمارے نوجوان اس فریب میں بری طرح محو ہورہے ہیں. المیہ یہ ہے کہ والدین حضرات یہ سب جاننے کے باوجود بھی کیوں اپنے نونہالوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچارہے ہیں. ٹک ٹوک کا خمار کشمیر میں بھی سامنے آرہا ہے. ہر نئے روز یوٹیوب ایپ ہر برہنہ کپڑوں میں وادی کشمیر کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ٹک ٹوک ویڈیوز انٹرنٹ آن کرتے ہی موبائیل سکرین پرآتے ہی دل لرز اٹھتا ہے. اللہ رحم کرے مسلمانوں پر.
اس ایپ کے مضر پہلوؤں کو دیکھ کر دنیا کے کچھ ممالک میں بند بھی کیا جا چکا ہے، کیونکہ یہ ایپ خصوصاً بچوں کے لیے خطرناک ثابت ہوئی ہے، ٹک ٹوک میں بہت سے لوگ بچوں کو ورغلا رہے ہیں، وہ اپنی عمر کم دیکھا کر نمبر مانگنے اور چھوٹے بچوں کو ملنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور موصعلہ رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر کے ممالک میں ایسے بہت سے کیس درج ہوئے ہیں. ماہرین کے مطابق اس ایپ نے کم وقت میں بہت شہرت حاصل تو کی ہے، لیکن اس ایپ نے بچوں کو شارٹ فلم بنانے کے جو فیچرز مہیا کیے ہیں اسے معاشرہ تباہ ہورہا ہے. میڈیا رپورٹوں کے مطابق ٹک ٹوک کے بےہودہ وائرل ویڈیوز کو پاکستان جیسے مسلمان ملک میں قومی سطح پر مذمت کیا جارہا ہے. اور اب ٹک ٹوک ایپ پاکستان میں بند ہونے جا رہی ہے.کیونکہ نو شہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے سیٹزن پورٹل کے ذریعے شکایت کی ہےکہ سوشل میڈیا کی یہ ایپ پاکستانی نوجوانوں کے لیے خطرناک ہے اس کو بند کردینا چاہیے. اگرچہ یہ ایپ تفریح کا ایک بہترین ذریعہ ہے لیکن دنیا میں بہت سارے ابلیسی خیال رکھنے والے لوگ اس کا غلط استعمال کررہے ہیں. لوگوں کی رائے میں اس ایپ سے معاشرہ متاثر ہو رہا ہے، ایک لحمہ کے لیےجب ہم لڑکے اور لڑکیوں کی کراس ویڈیو پر آتے ہیں جہاں گانوں اور ڈائی لاگز پر نوجوان جنسی اور نازیباحرکتیں کرتے نظر آتے ہیں جو بےحیائی کا سمندر ثابت ہورہا ہے.
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دین اسلام دین فطرت ہے اور حیا و پاکدامنی کی زندگی پسند کرتا ہے. جبکہ بے حیائی اور فحاشی سے بالکل منع کرتا ہے. واضع ہو مومن بلکہ مومن نوجوان جہاں بھی ہوگا، باحیا ہوگا. اسلام نے حیا کو ایمان کا ایک اہم شعبہ قرار دیا ہے. اسلیے ہمارے نوجوان پود کو ذرا سوچنا چاہیے کہ وہ کس مقصد کے لیے دنیا میں آیے ہیں. عیاشی اور فحاشی غیرمسلموں کا کام ہے. مسلمان نوجوان ہمارے معاشرے کا قیمتی سرمایہ ہیں اور قوم کی ساری امیدیں ان سے وابستہ ہے. یہی وہ قوت ہیں جو آنے والی نسلوں کے رہن سہن اور سوچ میں تبدیلی اور انقلاب کا باعث بنتی ہے.کسی بھی معاشرے کی نئی نسل اس وقت تک اپنے مقصد کو نہیں پا سکتی جب تک اسکے عقائد درست نہ ہو.نوجوان ہی اپنی قوم کے لئے عظیم اور ناقابل فراموش کارنامے انجام دیتے ہیں. ابھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا ہے. اگر یہ نوجوان جس کے ہاتھ میں 4G موبائل اور انٹرنٹ کی فحش ویب سائٹس اور ایپلیکیشن ہوتی ہیں ، اپنے آپکو اور معاشرے کو بدلنے کا مستحکم ارادہ کر لے تو وہ دن دور نہیں کہ جب پورا کا پورا معاشرہ اسلامی معاشرہ میں تبدیل ہوگا.
موجودہ دور میں سوشل میڈیا کا غلبہ ہے اور دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے. سوشل میڈیا نے انسان کو ایک مشین بنا کے رکھ دیا ہے. اسکی سُدھ بُدھ جاتی رہی ہے. اس کا دماغ معطل کر دیا ہے. عیش و عشرت اسکا مقصد حیات بن چکا ہے. روحانیت اور انسانیت سسک رہی ہے. انسانیت کے جس سوتے سے احترام ، اکرام ، خلوص ، اخوت ، محبت ، ایثار ، ہمدردی ، روداری ، فیاضی ، شرم و حیا، پاکدامنی ،ایمانداری ، فرمابرداری،مساوات، حق پرستی، خدا ترسی،بھائی چارہ،اور انصاف پروری کے چشمے پھوٹتے تھے آج سوشل میڈیا پر مخرب اخلاق اور فحش ویبسائٹس کی وجہ سے معدوم ہوگئے ہیں اور انسان کو اخلاقی قدروں سے محروم کردیا ہے. اسطرح یہ ٹیکنالوجی انسانیت کے لئے رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہے. علامہ اقبال علیہ رحمہ اپنی ایک بلیغ نظم میں مسلم نوجوان کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں:
چھوڑ یورپ کے لئے رقصِ بدن کے خم و پیچ
روح کے رقص میں ہے ضرب کلیم اللّہی
صلہ اُس رقص کا ہے تشنگی کام و دہن
صلہ اِس رقص کا درویشی و شاہنشاہی
ان اشعار کی "ضرب کلیم” میں مختصر تشریع یوں کی گئی ہیں ، اقبال علیہ رحمہ کہتے ہیں،اے مسلم نوجوان! یہ رقصِ بدن (اچھلنا ، کودنا اور ناچ ، مجرا) تیرے لئے مناسب نہیں ہے اس ناچ میں یورپ کی قوموں کو مصروف رہنے دے کیونکہ وہ مادہ پرست ہیں اور رقص بدن کے علاوہ اور کسی قسم کا رقص انکی سمجھ میں نہیں آسکتا. تو اپنی روح کو رقص کرنا سکھا.کیونکہ اللّہ نے تجھے اسلئے پیدا کیا ہے کہ تو اپنے زمانہ کے فراعنہ (وہ لوگ جو اللّہ کے قانون کے بجائے اپنا وضع کردہ قانون ملک میں نافذ کرتے ہیں اور اللّہ کے بندوں کو اس قانون کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں) کا مقابلہ کر سکے اور ظاہر ہے کہ یہ طاقت تجھ میں اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب تو اپنے اندر شانِ کلیمی پیدا کرلے اور یہ شان اس وقت حاصل ہوتی ہے جب روح رقص کر سکے. یاد رکھ کہ جسم کے رقص کا صِلہ یہ ہے کہ انسان تھوڑی دیر کے لئے تو لطف اندوز ہوجاتا ہے لیکن رقص سے فارغ ہو کر بالکل تھک جاتا ہے اور تشنگی محسوس کرتا ہے. چنانچہ اس تشنگی کو اپنی حماقت کی بناء پر جام آشتین سے بجھاتا ہے اور اس کا نتیجہ خمار کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور اسکے رفع کرنے کے لئے صبوحی درکار ہوتی ہے اور اسطرح ساری عمر اسی خمار اور سکر کے چکر میں گرفتار رہ کر حیوانوں کی سی زندگی بسر کرنے کے بعد راہی ملک عدم ہوجاتا ہے. مختصر یہ کہ رقص تن تو محض تیرے جسم کو گردش میں لاسکتا ہے لیکن روح کے رقص کا صلہ ایسا عظیم الشان ہے کہ تیرے تصور میں بھی نہیں آسکتا جو شخص روح کو رقص کرنا سکھا دیتا ہے ، فرشتے درویشی (خدا پرستی اور خدا ترسی) کا تاج اس کے سر پر رکھ دیتے ہیں اور رقصِ روح سے تو ساری کائنات کو گردش میں لاسکتا ہے بلکہ اسکی بدولت تیرے اندر اس قدر طاقت پیدا ہوجائے گی کہ نئی دنیا پیدا کر سکے گا. ایک مشہور قول ہے کہ بچپن کھیل میں، جوانی مستی میں اور بڑھاپا سستی میں گذرا تو خدا ترسی کب ہوئی”. ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موجودہ مخرب اخلاق اور فحش ویبسائٹس سے اپنے آپکو دور رکھ کر بے شمار بُرائیوں اور لاتعداد رذائل سے بچنے کی کوشش کریں گے. یہی اصلاح معاشرہ کا عزم اور پیغام ہے.