گزشتہ دنوں ریاست کے گورنر جناب ستیہ پال ملک نے جموں میں میڈیا سے بات چیت کے دوران فرمایا کہ کچھ لوگ کشمیر میں آپریشن آل آوٹ کی رٹ لگا کر ایک غلط تصویر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، حالانکہ کشمیر میں اس نام کا کوئی بھی آپریشن چل نہیں رہا ہے۔ بی جے پی سے وابستہ گورنر صاحب ایک گرگِ باراں دیدہ سیاست داں ہیں جس پر وثوق سے ’’نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو‘‘ کا فقرہ صادق آتا ہے ۔ ان کا گرم دم جستجو ہونا ان کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں کرکے دکھاتے ہیں۔ کشمیر میں ہندنوازوں کے بائیکاٹ کے علی الرغم پنچایتی و بلدیاتی انتخابات ، لولے لنگڑے بلکہ برائے نام ہی سہی، کا انعقاد کرکے وہ وزیراعظم ہند سے داد تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ وادی کے انتہائی ناسازگار منظر نامے میں کوئی خوشگوار تبدیلی نظر نہ آنے کے باوصف بھی وہ پارلیمانی و اسمبلی انتخابات کو روبہ عمل لانے میں سرگرم ہوچکے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ریاست جموں وکشمیر میں گورنر کا عہدہ علی العموم ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا سابق فوجی جنرل سنبھالتے آرہے ہیں لیکن اب کی بار بی جے پی سرکار نے اس پالیسی کو بدل کر گورنر کا دستارِ فضیلت سنگھ پریوار کے ایک کہنہ مشق سپاہی کے سر باندھا ہے، جو گفتار میں نرم لیکن سیاست گری میں واقعی کافی گرم ثابت ہوچکے ہیں۔ گورنر صاحب تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے بھارتی سیاستدانوں کے روایتی چانکیائی طرز عمل کے مطابق کشمیر میں جاری آپریشن آل آوٹ کی تردید کرکے دنیاکی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کی ناکام کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔اُدھر طاقت کے نشے میں چور بھارتی فوج کے سربراہ جنرل راوت اور ریاست میں مامور دیگر اعلیٰ فوجی افسراں بار بار نہ صرف آپریشن آل آوٹ کو سختی سے عملانے اور جاری رکھنے کی ہدایات دیتے رہتے ہیں بلکہ عسکریت پسندوں کے حامیوں اور بالائے زمین کارکنوں کو بھی اس آپریشن کے تحت تہہ تیغ کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ جنرل راوت صاحب بس اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ ڈرونوں کو استعمال میں لانے کی بھی وکالت کرتے ہیں۔ اُن کی دھمکیاںجنگجوؤں اور ان کے حامیوں کی وساطت سے عوام الناس اور سرحد پار ملک کے حکمرانوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہیں۔ حق یہ ہے کہ زمینی سطح پر روز روز کی خوں ریز وتباہ کن فوجی کارروائیاں گورنر صاحب کے بیان کا منہ چڑا رہی ہیں۔
دو ، دو تین، تین کے جتھوں میں نوعمر(Teenage) نوخیزمزاحمت کار جن کی عمریں اکثر و بیشتر۱۴؍ سے اکیس بائیس سال کے درمیان ہوتی ہیں ، جو زیادہ سے زیادہ ایک عدد پستول یا کہیں سے چھینی بندوق کے حامل ہوتے ہیں اور ان کو آپریٹ کرنے میں بھی ناقص التربیت ہوا کرتے ہیں، مطلب یہ کہ عددی قوت، تربیت اور وسائل کے لحاظ سے فورسز اور ان کے مابین کوئی نسبت ہی نہیں، ان کے مقابلے میں سینکڑوں جدید ہتھیاروں سے لیس چاق و چوبند، اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی اہلکار جب ان کو گھیر لیتے ہیں تومہا بھارت کا سماں پیدا کرتے ہیں۔ایک پستول فائر کے جواب میں ہزاروں راونڈ گولیاں برستی ہیں، گرینیڈ اور مارٹر گولے داغے جاتے ہیں ، کہیں کہیں کمانڈوز اور گن شپ ہیلی کاپٹرکا بھی استعمال ہوتا ہے نتیجتاً آناً فاناً چند منٹوں کی گھن گرج کے بعد ہی یہ نو آموز نوجوان خون میں لت پت ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجاتے ہیں۔ا س فوجی کارروائی میں دو تین مکانات مسمار اور برسوں کی جمع شدہ پونجی کے پرخچے اُڑ جاتے ہیں۔ فوجی سورما پھر احتجاجی عوام کی طرف بُلٹ اور پیلٹ گنوں کے دہانے موڑ دیتے اور بے تحاشا جو جس کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے وصول کرتا ہے۔کئی موت سے ہمکنار ، کئی بینائی سے محروم ، کئی زخموں سے لہولہاں اور کئی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناخیز بن جاتے ہیں۔سوختہ آشیانوں سے کئی روز تک دھواں اُٹھتا رہتا ہے۔ عوام الناس سہم کے رہ جاتے ہیں اور پوری وادی سوگوار۔ یہی خونین عمل ہر جگہ ہر مقام پر دُہرایا جاتا ہے۔رہائشی مکانوں کو بم اور بارود سے اُڑا دینا فوجیوں کا مشغلہ بنتا جارہا ہے جس کے نتیجے میں کھاتے پیتے گھرانے لمحوں میں کوڑی کوڑی کے محتاج بن جاتے ہیں۔ جذبۂ آزادی سے مخمور یہ لڑکے اب مکانوں کوتیاگ دے کر برف پوش ، کھائیوں، ڈھلوانوں ، کھیت کھلیانوں اور باغات میں برف کی وسیع چادر تلے بلوں کو کمین گاہیں بناکر فورسز سے لوہا لیتی ہیں،پر آپریشن آل آوٹ کی یلغار برفانی ٹیلوں کو بھی لالہ زار بنادیتی ہے۔اخبارات کے مطابق۲۰۱۸ء میں کم و بیش ۳۵۰؍ کشمیری مار دئے گئے۔ ان میں جنگجو، عام لوگ، سیاسی ورکر اور خواتین و بچے بھی شامل ہیں۔ ۲۰۰؍ مکانات زمین بوس اور ۲۶۷؍عسکریت پسند جان بحق ہوچکے ہیں۔ سینکڑوں لڑکے لڑکیاں پیلٹ گنوں کی شکار محرومِ بینائی ہوچکی ہیں جن میں ۱۶؍ماہ کی معصوم حبہ جان بھی شامل ہیں۔ ایک چھوٹی سی وادی جس کی حدیں بانہال سے اُوڑی اور بڈگام سے بانڈی پورہ تک محدود ہیں صرف ایک سال کی مدت میں یہ زبردست ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان قومی سطح پر تباہ کن اثرات کا حامل ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہندو قوم پرستوں کے لیے کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت سدا سوہانِ روح بنی رہی ہے۔ اس کو بدل کررکھ دینے کی خاطر وہ ہر جائز و ناجائز حربہ اختیار کرنے پر تیار رہتے ہیں ۔ اس پس منظر میں ریاست کے مسلمان ۱۹۴۷ء سے ہی آپریشن آل آوٹ کی مار سے جوجھ رہے ہیں۔۱۹۴۱ء کی مردم شماری کے مطابق صوبہ جموں کی مسلم آبادی ۶۱؍فیصد تھی جو ۱۹۶۱ء میں ۳۸؍ فیصد تک گھٹ گئی۔ ضلع جموں میں ۴۰؍ فیصد مسلمان آباد جو۱۹۶۱ء میں صرف دس فیصد رہ گئے۔ یہ لاکھوں کلمہ گو اسی آل آوٹ آپریشن کی بھینٹ چڑھ گئے۔ خون مسلم کے دریا بہا دئے گئے۔ رنبیر سنگھ پورہ ، میراں صاحب، بھمبر، پونچھ ، اکھنور، ریاسی ، کٹھوعہ، سانبہ ، ادھم پورہ، رام نگر و دیگر علاقے کلمہ خوانوں سے یکسر خالی ہوگئے۔ جموں خاص میں مسلم اکثریتی محلوں سے مسلمانوں کا صفایا کردیا گیا اور یہ سارا تانڈو ناچ حکومت کے زیر نگرانی کھیلا گیا۔ آپریشن آل آوٹ کی اصطلاح بھلے ہی موجود نہ ہو لیکن معنیٰ و مفہوم کے لحاظ سے جو ہمہ گیر مسلم کش مہم صوبہ جموں میں انجام دی گئی وہ اس اصطلاح کی لفظ بہ لفظ صحیح ترجمانی کرتی ہے۔ اسی آپریشن کے تحت ۱۹۵۳ء میں شیخ محمد عبداللہ کو وزارت اعظمیٰ سے کھدیڑ کر اوٹاکمنڈ پہنچا دیا گیا۔ غلام محمد بخشی ، غلام محمد صادق، میر قاسم کو اقتدار کی لالچ سے باندھ کرریاست کی خصوصی پوزیشن کو تحلیل کرنے کی سمت آئین ہند کی کل ۳۹۵؍دفعات میں سے۲۶۰؍ دفعات کو ریاست پر لاگو کیا گیا۔ حالانکہ دفعہ۳۷۰؍ کے مطابق دلی سرکار کی حدود کار میں صرف دفاع، بیرونی معاملات اور مواسلات ہیں۔ دفعہ ۳۵(الف) جو دفعہ۳۷۰؍ کے حصار کا شاید کونے کا آخری پتھر ہے، قوم پرست ہندو برادران ہتھوڑے، پھاوڑے لے کر اسے اُکھاڑ پھنکنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ۳۵(الف)، خدا نخواستہ آئین ہند کی سر زمین سے اُکھڑ گیا تو سنگھ پریوار کا دیرینہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا۔ مسلم اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوگی ، سوا کروڑ کشمیری مسلمانوں کا پیدائشی حق ، حق خودارادیت منوں مٹی تلے دب جائے گا اور گزشتہ ۷۰؍ سال سے پیش کی گئی قربانیاں رائیگاں ہوجائیں گی۔مشہور آئینی قانون دان اے جی نورانی کے بقول۱۹۵۴ء سے تا حال دفعہ۳۷۰؍ میں جتنے بھی ترک تازیاں ہوئیں ہیں سب غیر آئینی و غیر قانونی ہیں کیونکہ قانون کے مدنظر اس دفعہ کے تحت جو بھی ’مرکزی‘ قوانین ریاست پر چسپاں کیے گئے ہیں اُن کے لیے ریاستی آئین ساز اسمبلی کی توثیق لازم ہے۔ چونکہ آئین ساز اسمبلی۱۹۵۶ء میں ہی ختم ہوچکی ہے لہٰذا جتنے بھی ’’مرکزی‘‘ قوانین آئین ساز اسمبلی کی توثیق کے بنا ہیں جملہ غیر قانونی و غیر آئینی ہیں اور آپریشن آل آوٹ کی دین ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار اور جمہوری قدروں کا احترام و فروغ کی ڈینگے مارنے والی حکومت نے اسی آپریشن کے تحت ۱۹۸۷ء کے اسمبلی انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کے بیسویں کامیاب اُمیدواروں کو ناکام او رناکام کو کامیاب قرار دے کر جمہوریت کو شرمسار کردیا اور اس کے ردعمل میں جب جوانوں کو بندوق تھام لینے پر مجبور کردیا گیا تو آپریشن کیچ اینڈ کِل ، آپریشن ٹائیگر، آپریشن بھوت اور آپریشن سروناش جیسے خون خوار ہتھکنڈوں کے ذریعے ہزاروں کشمیری جوانوں کو خاک و خون میں ڈبو دیا، ہزاروں کو سلاخوں کے پیچھے کردیا، ہزاروں کو تعذیب خانوں کے نذر کرکے اپاہچ اور ناخیز بناکر رکھ دیااور ہزاروں کو ایسے غائب کردیا کہ تین دہائیاں گزرنے کے بعد میں اُن کی قبروں کا کہیں نشان تک نہیں ملتا۔ ہندواڑہ، کپواڑہ، سوپور، گاؤکدل، نوہٹہ اور بجبہاڑہ وغیرہ جیسے قتل عام کے تصور سے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اربوں کی جائیداد کو پھونک دیا گیا۔ خواتین کے خلاف آپریشن کونن پوشہ پورہ سے شروع ہوکر بٹہ پورہ ہندواڑہ، چھانہ پورہ سرینگر، سعدہ پورہ شوپیان، قاضی گنڈ اور بانہال اور شوپیان سے ہوتے ہوئے رسانہ کٹھوعہ تک پہنچ گیا۔ ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ، ٹاڈا،پوٹا، افسپا اور پی ایس اے جیسے جنگل کے قوانین کے تحت کم عمر لڑکوں کو کٹھوعہ و ہریانہ کی جیلوں میں ٹھونسنا اور طرفہ یہ کہ جواہر لعل یونیورسٹی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں زیر تعلیم کشمیری طلباء کے خلاف غداری کے مقدمات درج کرنا ، این آئی اے کی طرف سے کشمیرکے سیاسی ورکروں کے خلاف مہم ، ان پر بھونڈے الزامات لگا کر دور دہلی کی جیل میں تڑپانا، اُنہیں طبی امداد سے محروم کرنا اور سب سے شرم ناک یہ کہ بیمار و علیل کشمیری بیٹیوں کو بھی تہاڑ جیل کی کال کوٹھریوں میں ٹھونسنا آپریشن آل آوٹ نہیںتو کیا ہے؟دہشت گردی کے نام پر ریاست میں اپوزیشن بالخصوص حریت پسندوں پرسیاسی سپیس (Space)اتنی تنگ کردی گئی ہے کہ بزرگ سیاست دانوں کو سالہاسال اُن کے گھروں میں نظر بند کرکے عوام الناس سے کاٹ کے رکھ دیا گیا ہے۔اُن پر تحریر و تقریرکے دروازے بند ہیں ۔
یہ آپریشن آل آوٹ صرف کشمیر تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے دائرے میں بھارت کے کروڑوں کلمہ خواں بھی لائے گئے ہیں۔ بھارت کی تاریخ تبدیل کی جارہی ہے، مسلم شہروں کے نام بدلے جارہے ہیں، مسلم عہد حکومت کو غلامی سے پکارا جارہا ہے۔ جن مسلم حکمرانوں نے اس دھرتی کو اپنا وطن بناکر ایک ہزار سال تک اُسے اپنے خون سے سینچا، بکھری ہوئی اکائیوں کو وشال بھارت میں پرو دیا ،اُس کی تعمیر و ترقی ،سجانے سنوارنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ ان ہی کو آج حملہ آور کہہ کر اور بابر کی اولاد کی گالی دے کر مشق ستم بنایا جارہا ہے۔ اُن کے لیے اپنی ہی جنم بھومی تنگ ترہوچکی ہے۔عائلی قوانین کو تبدیل کرنا ، مشترکہ سول کوڈ کو رائج کرنے کی کوشش کرنا ، اذانوں و نمازوں پر پابندی ، داڑھیوں اور ٹوپیوں سے نفرت ، گائے کی حرمت اور راہ چلتے مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کرنا اور اسلامی تہذیب و تمدن کو جبراً ہندوتوا کے رنگ میں رنگنا آپریشن آل آوٹ نہیں تو کیا ہے؟اس آپریشن میں رہی سہی کسر اب سٹیزن شپ امیڈمنٹ بِل(Citizenship Amendment Bill)نے واضح کردی ہے۔ اس کی رُو سے پاکستان، افغانستان ، بنگلہ دیش ، نیپال یا اور کسی ملک سے جو ہندو ، جین، سکھ ، پارسی یا یہودی بھارت آئیں تو اُنہیں آنکھوں پر بٹھا کر اُنہیں یہاں کی شہریت سے نوازا جائے گا، ماسوائے مسلمان!!
جناب گورنر صاحب !! آپریشن آل آوٹ میں اب بھی کچھ کمی باقی رہ گئی ہے؟