پی ڈی پی ، پی سی اور بھاجپا ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے

قلم دوات اور بھاجپا کے ملن کا خمیازہ آج پورا کشمیر بھگت رہا ہے: عمر عبداللہ

پی ڈی پی ، پی سی اور بھاجپا ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے

اوڑی۷،اپریل ؍کے این ایس ؍ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پی ڈی پی ، پی سی اور بھاجپا کو ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے قرار دیا۔ انہوں نے خصوصی پوزیشن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 35Aکیساتھ نوجوانوں کا روزگار وابستہ ہے اورچھیڑ چھاڑ کی صورت میں یہاں کے نوجوانوں کو ہمیشہ کے لیے روزگار کے مواقع سے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اتوار کو شمالی کشمیر کے اُوڑی علاقے میں چناوی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پی ڈی پی، پی سی اور بھاجپا کو ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے قرار دیا۔عمر عبداللہ نے بتایا کہ اس ریاست کو کمزور کرنے ،اس ریاست کی پہنچان مٹانے اوراس ریاست کی شناخت یعنی خصوصی پوزیشن کو تہس نہس کرنے کیلئے طرح طرح کی کوششیں اور مختلف قسم کی سازشیں رچائی جارہی ہیں ۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے یونین آف انڈیا کیساتھ ہماری مشروط الحاق کیا اور بعد میں ان شرائط کو ایک ایک کرکے اُن کو کمزور کیا گیا ۔ اب جو کچھ بچا کچھا ہے اُس کو بھی ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں بی جے پی اور اُن کے دوستوں،جوریاست کو اندر سے کھوکھلا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ ہمارا اپنا آئین ہے، ہمارا اپنا جھنڈا ہے ،ہماری اپنی پہنچان ہے اورہم کو اس کو بچا کے رکھنا چاہتے ہیں،جبھی تو ہم کہتے ہیںکہ ہمیں ایسے نمائندے ملک کے سب سے بڑے ایوان میں بھیجنے ہونگے جو ہمارے حقوق کیلئے لڑیں گے،جو ہماری خصوصی پوزیشن اور شناخت کو بچانے کیلئے جدوجہد کریں گے۔انہوں نے کہا کہ قلم دوات جماعت اور بھاجپا رشتوں کا خمیازہ ہم آج بھگت رہیں ہیں، کمل کے پھول کے نشان والوں اور سیب کے نشان والوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ کس طرح سے ریاست کو کمزور کیا جاسکے۔ آج یہ لوگ ہمارے ہمدرد بن بیٹھے ہیں، پچھلے 4سال ریاست کے حالات دیکھے، جب جب یہاں کے عوام کو اُن کی آواز کی ضرورت پڑی ہم نے اُن کی آواز نہیں سنی۔آج قلم دوات جماعت اور سیب کے نشان والے ریاست کے تشخص کے دفاع کی باتیں کررہے ہیں لیکن جب یہ دونوں جماعتیں حکومت میں تھیںتب یہ خاموش رہے۔ جب بھاجپا والے ریاست کی خصوصی پوزیشن کو جی ایس ٹی، فورڈ سیکورٹی ایکٹ ، سرفیسی ایکٹ اور دیگر مرکزی قوانین کے ذریعے روند رہے تھے ان دونوں جماعتوں کے لیڈران خصوصی پوزیشن کی لوٹ کا خاموشی سے تماشا دیکھ رہے تھے اور کرسی جانے کے ساتھ ہی ان لوگوں نے فریبی بیان بازیاں شروع کردیں۔بے روزگاری پر بات کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا کہ ’’جب ہم 35اے کو بچانے کی بات کرتے ہیں، ہم بڑی بڑی باتیں نہیں کرتے، زمینی سطح کی باتیں کرتے ہیں۔جب ہم بے روزگاری کے حل کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کو روزگار ملنا چاہئے، اس کا سیدھا سیدھا رشتہ 35اے کیساتھ ہے، کیونکہ اس دفعہ کے تحت ہمارے ریاست کے اندر نوکریاں ،روزگار اور سکالرشپوں کے مواقع اسی ریاست کے لوگوں کیلئے بچائے گئے ہیںاور یہ کچھ لوگوں کو گلے سے اترتا نہیں، ان لوگوں سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ریاست کے اندر ریاست کا ہی نوجوان نوکری حاصل کرے، روزگارحاصل کرے اور ترقی کرے۔اسی لئے یہ لوگ دفعہ35اے اور دفعہ370کو ہٹانا چاہتے ہیں۔اگر ایسا ہوا تو اس کا خمیازہ یہاں کے غریبوں اور بے روزگار نوجوانوں کو بھگتنا پڑے گا کیونکہ پھر یہاں کی نوکریوں ،روزگار کے دیگر مواقع اور مراعات کیلئے پورے ملک کے اُمیدوار اہل ہوسکتے ہیں اور خدارا مجھے بتایئے کہ اوڑی کا بچہ ملک کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں سے نکلنے والوے بچوں کا کیا مقابلہ کرے گا؟اگر ہمارا بطہ سرکاری ملازمت حاصل کرتا ہے تو اسی 35اے کی بدولت کرتا ہے۔اگر 35اے گیا تو یہ ساری نوکریاں اور سب باہر کے لوگ لے جائیں گے۔‘‘عمر عبداللہ نے کہا کہ سابق نیشنل کانفرنس حکومت کے دوران میں نے اسمبلی اور کونسل سے 5فیصدی پہاڑی ریزرویشن پاس کروایا اسے گورنر ہائوس منظوری کیلئے بھیج دیالیکن بدقسمتی سے حکومت تبدیل ہوئی لیکن پی ڈی پی ، پی سی اور بھاجپا کی حکومت نے ساڑھے 3سال کے دوران ان کاغذات کو گورنر ہائوس سے دستخط کرکے عملدرآمد کرنے کی زہمت تک گوارا نہیں کی۔پھر پی ڈی پی کی حکومت گئی اور اس کے بعد گورنر انتظامیہ نے اس کو 3فیصدی کرکے منظور کردیا۔ اگر ہماری حکومت نے 5فیصدی منظور کروایا تھا تو پھر اسے 3فیصد کیوں کیا گیا؟میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ انشاء اللہ نیشنل کانفرنس کی حکومت آئی تو ہم کو دوبارہ اس ریزرویشن کو 5فیصد کرے آپ کے حوالے کر دیں گے تاکہ ان دور دراز علاقوں کے نوجوان روزگار حاصل کرنے کے قابل رہے۔ کشمیرنیوز سروس کے مطابق پی ڈی پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا کہ ’’قلم دوات والوں نے 2015میں بھاجپا کیساتھ اتحاد کرتے وقت وعدہ کیا کہ پاور پروجیکٹ واپس لائیں گے ،کون سا پروجیکٹ واپس آیا ؟ایجنڈا آف الائنس میں کہا گیا کہ ہندوستان اور پاکستان کی دوستی بڑے گی لیکن سب الٹا ہوا۔ تنائو بڑا، دشمنی بڑی، خطرہ بڑا، جنگ کے بادل نظر آنے شروع ہوئے، دوستی نہیں ہوئی۔عوام سے وعدہ کیا گیا مزید راستے کھلیں گے، تجارت بڑھے گی، آج مشکل سے تجارت ہورہی ہے، پی ڈی پی کے ایجنڈا آف الائنس میں کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوا‘‘۔عمر عبداللہ نے کہاکہ آج قلم دوات جماعت اور سیب کے نشان والے لوگوں کے ہمدرد بن بیٹھے ہیں لیکن جب گولہ باری اور بمباری ہوئی، جب آپ کو مشکل میں ڈالا گیا، یہ لوگ کہاں تھے؟ جب آپ کو گھروں سے بگھانا پڑا، کیا ان لوگوں نے حکومت میں رہ کر آپ کی خیر و عافیت دریافت کی، آپ کی حفاظت کیلئے بنکر بنانے کی زہمت گوارا کی؟ یہ لوگ آج کس منہ سے آپ سے ووٹ مانگ رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.