الحاق رپورٹ ۔۔۔ریاست میں پہلے مرحلے پر بارہمولہ-کپوارہ پارلمانی نشت کے لئے جمعرات کو ووٹ ڈالے گئے اور 18 اپریل کو سرینگر پالمانی نشت کےلئے ووٹرس اپنے ووٹ کا استمال کرنے جارہے ہیں ۔
اگر سرینگر-گاندربل پارلمانی نشت پر نظر ڈالی جائے تو اس نشت پر اب کی بار مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے کھڑے کئے گئے امیدواروں کے درمیان اتنا سخت مقابلہ نظر نہیں آرہا ہے ۔مبصرین کے مطابق اس نشت پر نیشنل کانفرنس کےصدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے مقابلے میں کوئی قدآور لیڈر میدان میں نہیں ہے کیونکہ جو امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں یا تو وہ پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں یا عوامی سطح پر وہ اتنے مقبول نہیں ہے تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ الیکشن الیکشن ہی ہوتا ہے اور اس میں کسی بھی امیدوار کی جیت ممکن ہوتی ہے اور آخری لمحات تک اس بارے میں حتمی رائے دینا مناسب نہیں ہوتی ہے ۔نیشنل کانفرس نے پارٹی کے صدر کو میدان میں اتارا ہے اور اس سے پہلے بھی ضمنی انتخابات کے دوران ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اس نشت پر اپنی جیت درج کی تھی اور اب کی بار ڈاکٹر فاروق کو اپنی سیٹ کا دفا بھی کرنا ہے ۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نیشنل کانفرنس اورکانگریس دوستانہ بنیادوں پر پارلمانی الیکشن لڑرہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کانگریس نے اس نشت پر کسی بھی امیدوار کو کھڑا نہیں کیا ہے ۔پی ڈی پی نے اس نشت پر آگا سید محسن کو کھڑا کیا ہے اور وہ پہلی بار پارلمنٹ الیکشن میں حصہ لے رہا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی پی کے ووٹرس اب کی بار کس طرح اپنے امیدوار کی جیت درج کرنے میں کامیاب ہوجائے گے ۔ادھر بی جے پی نے خالد جہانگیر کو میدان میں اتارا ہے اور وہ بھی پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لے رہا ہے جبکہ پی سی کے ساتھ ساتھ آزاد امیدوار بھی اس الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور مجوعی طور پر مبصرین کے مطابق بارہمولہ اور انت ناگ پارلمانی نشت کے مقابلے میں اس نشت پر امیدواروں کے درمیان اتنا سخت مقابلہ دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ سرینگر -گاندربل پارلمانی نشت پر سال 1967 میں پہلی مرتبہ نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور سابق وزیر اعلی بخشی غلام محمد نے اپنی جیت درج کی تھی اسکے بعد سال 1971 میں مرحوم شمیم احمد شمیم نے بطور آزاد امیدوار اس سیٹ پر اپنی کامیابی درج کی ۔سال 1977 میں ُڈاکٹر فاروق عبداللہ، 1984 میں نیشنل کانفرنس ٹکٹ پر عبدل الرشید کابلی،1989 میں این سی کے محمد شفیح بٹ ،سال 1996 میں کانگریس کے غلام محمد میر، سال 1998 ،سال 1999 اور سال 2004 میں عمر عبداللہ نے متواطر طور اپنی جیت درج کی جبکہ سال 2009 میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ ،سال 2014 میں پی ڈی پی کے طاریق احمد کرہ نے اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی تاہم جب انہوں نے پی ڈی پی سے علحیدگی اختیار کی اور پارلمانی نشت سے استعفے دیا تو اسکے بعد ضمنی انتخابات کے دوران ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے دوبارہ اس سیٹ پر اپنا قبضہ جمالیا اور اب سال 2019 میں وہ ایک بار پھر اس نشت پر الیکش لڑرہے ہیں ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سال 1967 سے لیکر سال 2017 تک یعنی 50 برسوں کے دوران نیشنل کانفرنس نے 11 مرتبہ جبکہ پی ڈی پی اور کانگریس نے ایک ایک بار اس نشت پر کامیابی حاصل کی ہے اور شمیم احمد شمیم نے بطور آزاد امیدوار ایک بار۔
اگر سرینگر-گاندربل پارلمانی نشت پر نظر ڈالی جائے تو اس نشت پر اب کی بار مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے کھڑے کئے گئے امیدواروں کے درمیان اتنا سخت مقابلہ نظر نہیں آرہا ہے ۔مبصرین کے مطابق اس نشت پر نیشنل کانفرنس کےصدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے مقابلے میں کوئی قدآور لیڈر میدان میں نہیں ہے کیونکہ جو امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں یا تو وہ پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں یا عوامی سطح پر وہ اتنے مقبول نہیں ہے تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ الیکشن الیکشن ہی ہوتا ہے اور اس میں کسی بھی امیدوار کی جیت ممکن ہوتی ہے اور آخری لمحات تک اس بارے میں حتمی رائے دینا مناسب نہیں ہوتی ہے ۔نیشنل کانفرس نے پارٹی کے صدر کو میدان میں اتارا ہے اور اس سے پہلے بھی ضمنی انتخابات کے دوران ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اس نشت پر اپنی جیت درج کی تھی اور اب کی بار ڈاکٹر فاروق کو اپنی سیٹ کا دفا بھی کرنا ہے ۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نیشنل کانفرنس اورکانگریس دوستانہ بنیادوں پر پارلمانی الیکشن لڑرہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کانگریس نے اس نشت پر کسی بھی امیدوار کو کھڑا نہیں کیا ہے ۔پی ڈی پی نے اس نشت پر آگا سید محسن کو کھڑا کیا ہے اور وہ پہلی بار پارلمنٹ الیکشن میں حصہ لے رہا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی پی کے ووٹرس اب کی بار کس طرح اپنے امیدوار کی جیت درج کرنے میں کامیاب ہوجائے گے ۔ادھر بی جے پی نے خالد جہانگیر کو میدان میں اتارا ہے اور وہ بھی پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لے رہا ہے جبکہ پی سی کے ساتھ ساتھ آزاد امیدوار بھی اس الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور مجوعی طور پر مبصرین کے مطابق بارہمولہ اور انت ناگ پارلمانی نشت کے مقابلے میں اس نشت پر امیدواروں کے درمیان اتنا سخت مقابلہ دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ سرینگر -گاندربل پارلمانی نشت پر سال 1967 میں پہلی مرتبہ نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور سابق وزیر اعلی بخشی غلام محمد نے اپنی جیت درج کی تھی اسکے بعد سال 1971 میں مرحوم شمیم احمد شمیم نے بطور آزاد امیدوار اس سیٹ پر اپنی کامیابی درج کی ۔سال 1977 میں ُڈاکٹر فاروق عبداللہ، 1984 میں نیشنل کانفرنس ٹکٹ پر عبدل الرشید کابلی،1989 میں این سی کے محمد شفیح بٹ ،سال 1996 میں کانگریس کے غلام محمد میر، سال 1998 ،سال 1999 اور سال 2004 میں عمر عبداللہ نے متواطر طور اپنی جیت درج کی جبکہ سال 2009 میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ ،سال 2014 میں پی ڈی پی کے طاریق احمد کرہ نے اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی تاہم جب انہوں نے پی ڈی پی سے علحیدگی اختیار کی اور پارلمانی نشت سے استعفے دیا تو اسکے بعد ضمنی انتخابات کے دوران ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے دوبارہ اس سیٹ پر اپنا قبضہ جمالیا اور اب سال 2019 میں وہ ایک بار پھر اس نشت پر الیکش لڑرہے ہیں ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سال 1967 سے لیکر سال 2017 تک یعنی 50 برسوں کے دوران نیشنل کانفرنس نے 11 مرتبہ جبکہ پی ڈی پی اور کانگریس نے ایک ایک بار اس نشت پر کامیابی حاصل کی ہے اور شمیم احمد شمیم نے بطور آزاد امیدوار ایک بار۔
ReplyForward
|