سرینگر۱۳، اپریل ؍کے این ایس ؍ آج اس ریاست کو سیاسی طور سب سے بڑا خطرہ ہماری شناخت، ہماری پہنچان، دفعہ370اور 35اے کیخلاف ہورہی سازشیں ہیں اور ہمیں اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں جیسا کی ریاست کے گورنر صاحب کہتے ہیں کہ چند سیاسی جماعتیں دفعہ35اے اور370کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کررہے ہیں۔ ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے چنائوی مہم کے دوران آج ڈاک بنگلہ اننت ناگ میں پارٹی کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔کشمیر نیوز سروس ( کے این ایس ) کوموصولہ بیان کے مطابق ریاست سابق وزیر اعلیٰ اور این سی نائب صدر عمر عبد اللہ نے ریاست کو سیاسی طور سب سے بڑا خطرہ ہماری شناخت، ہماری پہنچان، دفعہ370اور 35اے کیخلاف ہورہی سازشیں ہیں اور ہمیں اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں جیسا کی ریاست کے گورنر صاحب کہتے ۔ اس موقعے پر پارٹی کے صوبائی صدر ناصر اسلم وانی اور نامزد اُمیدوار جسٹس حسنین مسعودی کے علاوہ کئی لیڈران بھی موجو دتھے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ پہلے مرکزی وزیر خزانہ نے دفعہ370اور 35اے کو ہٹانے کے ریمارکس پیش کئے، پھر بھاجپا صدر امت شاہ نے2020تک جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کرنے کا اعلان کیا ، اس کے بعد وزیر اعظم مودی نے بھی ایسی ہی زہرافشائی کی اور بھاجپا نے اپنے منشور میں بھی دفعہ35اے اور 370کو ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اب خدارا گورنر صاحب بتائے کہ غلط فہمی اُنہیں ہے یا ہمیں۔عمر عبداللہ نے کہاکہ ’’ان سازشوں کا مقابلہ ہمیں دو جگہوں پر کرنا ہوگا، ایک ہندوستان کے سب سے بڑے جمہوری ایوان پارلیمنٹ میں اور پھر عدالت میں، اس لئے نیشنل کانفرنس کے جنوبی کشمیر کیلئے نامزد اُمیدوار جسٹس حسنین مسعودی سے بہتر ہماری نمائندگی کوئی نہیں کرسکتا۔ہم نے بہت ہی سوچ سمجھ کر انہیں میدان میں اُتارا ہے تاکہ وہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کے حوالے سے ہماری صحیح ترجمانی کرے۔‘‘این سی نائب صدر نے کہاکہ ’’اننت ناگ کے لوگوں نے 25جون 2016کو بہت بڑی غلطی کی، اسی روز محبوبہ مفتی یہاں سے ضمنی اسمبلی الیکشن جیتیں، اس کے کچھ دن بعد برہان وانی کو ایک انکائونٹر میں مار ڈالا گیا۔ اُس کے بعد جو آگ لگی اُس سے یہاں کوئی نہیں بچ پایا اور جب محبوبہ مفتی سے پوچھا گیا کہ نوجوانوں کا تہیہ تیغ کیوں کیا جارہا ہے؟ ہماری بچیوں کو پیلٹ گن سے نابینا کیوں بنایا جارہاہے؟ اُس وقت ان کا جواب ’یہ کیا دودھ لانے گئے تھے، یہ کیا ٹافی لانے گئے تھے، فورسز کی بندوقیں صرف دکھانے کیلئے نہیںہوتیں استعمال کرنے کیلئے بھی ہوتی ہیں‘ ہوا کرتا تھا۔ آج محبوبہ مفتی کو اپنی ان کہی ہوئی باتوں پر افسوس ہے ، اگر محبوبہ مفتی نے اُسی وقت افسوس کا اظہار کیا ہوتا تو میں مانتا کہ انہیں لوگوں کی ہمدردی ہے‘‘۔پی ڈی پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’جب سے پی ڈی پی نے بھاجپا کیساتھ اتحاد کیا تب سے لیکر آج تک یہاں کے لوگوں نے سختی اور سختی کے علاوہ کچھ نہیں دیگا۔ ہر طرف گرفتاریوں، کریک ڈائون، آپریشن CASO، آپریشن آل آئوٹ، علیحدگی پسندوں کیخلاف نئے نئے مقدمے، نئے نئے کیس۔ مذہبی رہنمائوں تک کو نہیں بخشا گیا، لگاتار 3دن کے انٹروگیشن کے بعد میرواعظ عمر فاروق صاحب کل سرینگر واپس لوٹے، یہ ساری مہربانی محبوبہ مفتی حکومت کی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’آج محبوبہ مفتی شکایت کررہی ہیں ، آج اُن کو بھاجپا میں خرابیاں نظر آتی ہیں، آج اُن کو مذہبی رہنمائوں کیخلاف کیسوں پر ترس آرہا ہے، آج وہ کہتی ہیں کہ بھاجپا یہاں فساد پیدا کررہی ہے۔محبوبی جی 2018سے پہلے بھی تو ایسا ہی حال تھا تب آپ کی زبان کیوں بند تھی؟ تب آپ نے کرسی کیوں نہیں چھوڑی؟یہاں کے لوگ آپ سے جاننا چاہتے ہیںجب مسلمانوں کیخلاف ملک میں قتل و غارت جاری تھا، جب مسلمانوں کو زندہ جلایا جارہاہے،تب آپ نے بات کیوں نہیں کی، جب یہاں کشمیری نوجوانوں کو کہا جاتا تھا کہ اگر آپ ہاتھ میں پتھر اُٹھائو گے تو آپ کو ملی ٹینٹ کی طرح گولی کا شکار بنایا جائیگا، محبوبہ جی تب آپ نے خاموش کیوں رہی؟ اُس وقت تو آپ نے اُف تک نہیں کی، اُس وقت آپ کی آواز کسی نے نہیں سنی، آج آپ کس منہ سے انہی لوگوں سے ووٹ مانگ رہی ہو۔اگر آپ نے کشمیریوں پر ہورہے مظالم اور کشمیر کیخلاف ہورہی سازشوں کیخلاف کرسی کو لات مار دی ہوتی تو ہم مانتے لیکن بھاجپا نے آپ نے کرسی سے دھکیلا اور تب جاکر آپ کو بھاجپا میں تمام برائیاں نظر آئیں‘‘۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا کہ پی ڈی پی اور بھاجپا اتحاد ہمیں بہت مہنگا پڑا، آج پہاڑی اور گجر بائیوں کی حالت دیکھئے ، اُن کا جنگلوں پر جو حق تھا وہ بھی محبوبہ مفتی کی حکومت نے چھیننے کا کام کیا۔آج گجر اور بکروال بھائیوں کو ہائی وے پر اپنے مال مویشی لے جانے کی اجازت تک نہیں دی جارہی ہے۔ان ناانصافیوں کا کہیں نہیں تو ہمیں حساب لینا ہوگا، ان ناانصافی کا بدلہ آپ لوگ اپنے ووٹ کے ذریعے دے سکتے ہو۔ اس ریاست کو بچانے کیلئے، اس ریاست میں دوبارہ امن قائم کرنے کیلئے اور پچھلے 5سال کی ناانصافیوں کا خاتمہ کرنے کیلئے لوگوں کو جوق در جوق ووٹ ڈالنے کیلئے گھروں سے باہر آنا ہوگا کیونکہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ہم 2015میں مرحوم مفتی محمد سعید کو غیر مشروط حمایت دینے کا اعلان کیا اور اُن سے کہا کہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس آپ کو وزیر اعلیٰ بنائے گی، آپ اپنے تمام ممبرانِ اسمبلی کو وزیر بنائے، ہمیں کوئی وزارت نہیں چاہئے، خدارا آپ بھاجپا کو یہاں مات لایئے، لیکن مفتی صاحب نے نہیں مانااور بھاجپا کیساتھ اتحاد کیا اور کشمیریوں کو ایجنڈا آف الائنس کے نام پر سبز باغ دکھائے گئے، نتیجہ ہم نے دیکھ لیا۔ ایجنڈا آف الائنس کی عمل آوری میں ایک بار ناکامی کے بعد محبوبہ مفتی نے 2016میں یہ غلطی دوبارہ دہائی اور پھر سے ایجنڈا آف الائنس کے نام پر بھاجپا کیساتھ اتحاد کیا گیا۔ محبوبہ مفتی ایجنڈا آف الائنس میں کہی گئی باتوں میں سے ایک بات کی طرف اشارہ کریں جس کو پورا کیا گیا۔اس موقعے پر سٹیٹ سکریٹری پیرزادہ احمد شاہ، جنوبی زون صدر ڈاکٹر بشیر احمد ویری، ضلع صدر اسلام آباد الطاف احمد کلو، سینئر لیڈران غلام نبی رتن پورہ، پیر محمد حسین ، شمی اوبرائے،ایڈوکیٹ مجید لارمی، ڈاکٹر بشیر احمد، شیخ محمد رفیع، شبیر احمد کلے ،سلام الدین بجاڑ، عمران نبی ڈار، ریاض احمد خان کے علاوہ کئی عہدیداران موجود تھے۔
دفعہ370اور35اے کیخلاف بھاجپا کے عزائم کو اَن دیکھا نہیں کیا جاسکتا
محبوبہ مفتی ایجنڈا آف الائنس میں سے پورا کیا گیا ایک وعدہ بیان کرے :عمر عبداللہ