فرنٹ چیرمین کو کوئی گزند پہنچی تو ذمہ داری حکومت ہندوستان پر عائد ہوگی: گیلانی

قیدیوں کے حقوق کی علمبردار جماعتیں بھارت کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں

فرنٹ چیرمین کو کوئی گزند پہنچی تو ذمہ داری حکومت ہندوستان پر عائد ہوگی: گیلانی

سرینگر۲۳، اپریل ؍کے این ایس ؍ حریت (گ) چیرمین سید علی گیلانی نے فرنٹ چیرمین محمد یاسین ملک کی این آئی اے کی تحویل میں بگڑتی صحت پر اپنی گہری فکرمندی اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موصوف کی زندگی کے ساتھ جان بوجھ کر کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے حکومت ہند کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر موصوف کوکوئی بھی گزند پہنچی تو اسکی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کو موصولہ بیان کے مطابق حریت (گ) چیرمین سید علی گیلانی نے فرنٹ چیرمین محمد یٰسین ملک کی این آئی اے کی تحویل میں بگڑتی صحت پر اپنی گہری تشویش اور فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی کے ساتھ جان بوجھ کر کھلواڑ کیا جارہا ہے اور اگر انہیں کوئی گزند پہنچی تو اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت ہند پر عائد ہوگی۔ انہوں نے اپنے بڑے فرزند ڈاکٹر نعیم گیلانی کو این آئی اے کی طرف سے دہلی بلا کر پوچھ تاچھ کرنے کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے حکمرانوں اوچھے حربے استعمال کرکے ہمارے عزم وحمت کو توڑنا چاہتے ہیں۔ گیلانی نے کہا کہ دنیا میں ہر جگہ لوگ اپنے جائز اور پیدائشی حقوق کے بازیابی کے لیے جمہوری طریقے جدوجہد کرتے ہیں، البتہ جموں کشمیر دنیا میں ایسا واحد خطہ ہے جہاں اپنے غصب شدہ حقوق کے خلاف آواز اٹھانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے اور بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا دعویدار ملک ہے اپنے ہی ہاتھوں اس کا جنازہ جموں کشمیر کی سرزمین سے اُٹھا رہا ہے۔ انہوں نے ریاست اور ریاست کے باہر کے جیلوں میں کشمیری قیدیوں کی حالت زار پر بھی اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت نے اس ریاست کے باشندوں کے خلاف ہر محاذ پر ایک جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ قتل وغارت گری کا بازار گرم کرکے اوپریشن آل آوٹ کے تحت ہر کشمیری حریت پسند کو قابل گردن زنی تصور کیا جاتا ہے، دوسری طرف نام نہاد تحقیقاتی اداروں کو جنگی ہتھیار کے طور استعمال کرکے چھاپوں، بلاؤں اور پوچھ گچھ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فنڈنگ کے نام پر سینکڑوں حریت پسند پابند سلاسل کئے گئے ہیں جن میں شبیر احمد شاہ، الطاف احمد شاہ، ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین کلوال، نعیم احمد خان، فاروق احمد ڈار، شاہد الاسلام، سید شکیل احمد، سید شاہد یوسف اور ظہور احمد وٹالی۔ خواتین کو عزت اور احترام کا دعویٰ کرنے والوں کے ہاتھوں ہماری آزادی پسند خواتین بھی دوردراز جیلوں اور خاص کر بدنامِ زمانہ تہاڑ جیل میں قید ہیں جن میں سیدہ آسیہ اندرابی، ناہیدہ نصرین، فہمیدہ صوفی شامل ہیں۔حریت (گ)چیرمین نے کہا کہ بھارتی حکمرانوں نے اپنی ہی جمہوریت کا مذاق بنایا ہوا ہے۔ عدالت میں بیٹھے انصاف دینے والے بھی حسب ونسب دیکھ کر ہی فیصلے سُناتے ہیں۔ اگر کہیں کوئی شخص حق وانصاف کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنے کی جرأت کرتا ہے تو اس کو ’’پلک جھپکتے ہی اپنی کرسی سے ہٹا کر وہاں اپنے من پسند فرد کو تعینات کردیا جاتا ہے، تاکہ حکمرانوں کی منشاء اور مرضی کے مطابق فیصلے صادر کردئے جائیں، جس کی تازہ مثال ریاست کے معروف تاجر ظہور احمد وٹالی کی دلی ہائی کورٹ کی طرف سے ملی ضمانت کو سپریم کورٹ کی طرف سے مسترد کرنے کا حیران کُن فیصلہ ہے، جو یہاں کی عدالتوں کی غیر جانبداری اور شفافیت پر ایک بڑا سوال ہے۔ اگرچہ کشمیریوں کے حوالے سے بھارتی عدالتیں پہلے سے ہی متعصبانہ شبیح رکھتے ہیں، لیکن خود سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کی طرف سے سیاسی مداخلت کا کھلم کھلا اعلان ایک نہتی قوم کے خلاف عدالتی تعصب اور جانبداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ میں اقبال جرم کرنے والے اسیم آنند اور اس کے ساتھیوں کو ہندوتوا کے پرچارک باعزت بری کردیتے ہیں، شاید اس لیے ان کو اس دھماکے میں مرنے والے زیادہ تر مسلمان اور پاکستانی تھے، تو دوسری طرف بے گناہ کشمیریوں کو اپنے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کے لیے عدالتی طوالت سے برس ہا برس تک جیلوں میں سڑایا جارہا ہے۔موصولہ بیان کے مطابق حریت (گ) چیرمین سید علی گیلانی نے کہا کہ ہمارے اسیروں نے تحریک مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے جن میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، ڈاکٹر محمد شفیع خان شریعتی، غلام قادر بٹ، فیروز احمد بٹ، بلال احمد کوٹا، بشیر احمد بابا، شیخ نذیر احمد، محمد ایوب میر، محمد ایوب ڈار، علی محمد بٹ، لطیف احمد واجا، مرزا نثار، عبدالغنی گونی، محمود ٹوپی والا، جاوید احمد خان، پرویز احمد میر، غلام محمد بٹ، ڈاکٹر وسیم وغیرہ شامل ہیں۔ 35بارپبلک سیفٹٰی ایکٹ کے تحت گرفتار حریت لیڈر مسرت عالم بٹ، 8سال سے تہاڑ جیل میں مقید ڈاکٹر غلام محمد بٹ، 3سال سے نظر بند محمد یوسف فلاحی، عبدالغنی بٹ، منظور احمد خان بٹہ مالو، مولانا سرجان برکاتی، اور حال ہی میں گرفتار شدگان جن میں امیر جماعت اسلامی ڈاکٹرعبدالحمید فیاض، ایڈوکیٹ زاہد علی، مولانا مشتاق احمد ویری، سید امتیاز حیدر شامل ہیں۔آزادی پسند راہنما نے کہا کہ اب تو سینٹرل جیل سرینگر میں بھی ملاقاتیوں کو تلاشی اور پوچھ گچھ کے لیے گھنٹوں انتظار کروایا جاتا ہے اور دوردراز علاقوں سے آئے ہوئے قیدیوں کے عزیز واقارب کو اتنے طویل انتظار کے بعد جھالیوں کی اوٹ سے چند منٹ کے لیے ملاقات کروائی جاتی ہے جس سے اہل خانہ اور خاص کر معصوم بچوں کی تسلی نہیں ہوتی ہے۔حریت (گ)چیرمین نے بین الاقوامی اداروں اور خاص کر قیدیوں کے حقوق کے علمبرداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ ریاست اور ریاست سے باہر کے جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار کا سنجیدہ نوٹس لے کر بھارت کو کم سے کم اپنے ہی قوانین کی پاسداری کرنے کے لیے مجبور کریں۔انہوں نے کہا کہ آزادی کی تحریکوں میں جیل کے مراحل لازمی ہیں۔ اس لیے سنگینوں کی چاردیواریاں ہمارے عزم اور حوصلوں کو قید کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.