دلی کو مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل اور اندرونی خودمختاری کی بحالی کیلئے تیار کریں گے

آنے والی لڑائی 35اے اور 370کو بچانے کیلئے ہوگی : عمر عبداللہ

دلی کو مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل اور اندرونی خودمختاری کی بحالی کیلئے تیار کریں گے

جو بہن اپنے بھائی کا ووٹ حاصل نہ کرسکی، وہ عوام کا ووٹ کیسے حاصل کرپائیگی
سرینگر۲۴، اپریل ؍کے این ایس ؍ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے دعویٰ کیا کہ ہم لوگ بانت بانت کی بولیاں نہیں بولتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ پر واضح کردیا تھا کہ مسئلہ کشمیر ایک سیاسی معاملہ ہے اور اس کو مالی پیکیجز سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ پی ڈی پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے بتایا کہ ہمارا مقابلہ اُن لوگوں کیساتھ ہے جنہوں نے کشمیر دشمن بی جے پی کیساتھ اشتراک کرکے ریاست کو بھیانک صورتحال سے دوچار کرایا۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بدھوار کو جنوبی کشمیر کے ژولگام کولگام اور نپو ہوم شالی بگ میں چنائوی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا دعویٰ کیا کہ نیشنل کانفرنس بانت بانت کی بولیاں بولنی والی جماعت نہیں ہے۔عمر عبداللہ نے بتایا کہ ہم وہ لوگ نہیں جو اقتدا رمیں رہ کر ایک بات کرتے ہیں اور اقتدار میں آکر دوسری بات ، یہ وہی جگہ ہے جہاں میں نے بحیثیت وزیر اعلیٰ ملک کے وزیر اعظم شری منموہن سنگھ سے کہا تھا کہ آپ جموںوکشمیر کیلئے فنڈس اور پیکیج بھیجتے ہیں اُس کا بہت شکریہ لیکن جموں و کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اس کا حل آپ پیسوں سے نہیں خرید سکتے اور اس کا سیاسی حل بات چیت کے ذیعے حاصل کرنا ہوگا۔ہم یہی پیغام دوبارہ دلی کو دینا چاہتے ہیں، 23مئی کے بعد جب مرکز میں نئی حکومت بنے گی ہم دلی کو جموں وکشمیر کا سیاسی حل نکالنے کیلئے تیار کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اندرونی خودمختاری دوبارہ بحال ہو۔عمر عبداللہ نے کہا کہ آج جن سازشوں کا ہمیں سامنا کرنا ہے، جن طاقتوںکا ہمیں مقابلہ کرنا ہے، اُس کیلئے بہت ضروری ہے کہ ہم یہاں سے ایسا اُمیدواردلی بھیجیں جو وہاں جاکر کچھ بول سکے، جو وہاں پر ہمارے حقوق کیلئے لڑ سکے، جو وہاں پر ہماری آواز کو بلند کرسکے۔ہم چاہتے تو ہم کسی سیاست دان کو میدان میں اتارتے، یہ دیکھتے ہوئے یہ آنے والی لڑائی 35اے اور 370کو بچانے کیلئے ہوگی ،اس کیلئے ہم نے جسٹس (ر) حسنین مسعودی کو میدان میں اتارا کیونکہ یہ لڑائی لڑنے کیلئے اُن سے بہتر کوئی نہیں ہوسکتا۔انہوں نے کہاکہ بھاجپا صدر، وزیرا عظم اور دیگر لیڈران کی طرف سے شائد ہی کوئی تقریر ہوتی ہے جس میں جموں و کشمیر کو دھمکی نہیں دی جاتی، جہاں جموںوکشمیر کو ڈرانے کی کوشش نہیں کی جاتی، جہاں دفعہ370اور دفہ35اے کو ہٹانے کی بات نہیںہوتی۔ بھاجپا والے آئے روز یہی دہراتے رہتے ہیںکہ حکومت ملنے کے ساتھ ہی وہ جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کا کام شروع کریں گے۔ اگر یہ دفعات صرف کاغذ کے ٹکڑے ہوتے تو شائد ہمیں اس کو بچانے میں اتنی دلچسپی نہیں ہوتی، لیکن ہماری شناخت، ہماری پہچان، ہمارے نوجوانوں کا روزگار اور ہمارے بچوں کے تعلیمی حقوق اور مستقبل اس قانون کیساتھ جڑا ہوا ہے۔پی ڈی پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’ہمارا مقابلہ اُنکے ساتھ ہے جس کا نشان قلم دوات ہے اور جنہوں نے بھاجپا کیساتھ مل ریاست کی ایسی حالت کردی جو بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔کل جو الیکشن ہوا، ووٹ کہاں سے پڑے؟جو بجبہاڑہ پی ڈی پی کا گڑھ مانا جاتا تھا وہاں مٹھی بھر ووٹ پڑے۔ جس اننت ناگ کی نمائندگی نومبر 2018تک محبوبہ مفتی کرتی تھی، جہاں سے انہوں نے 2016میں 12ہزار کے فرق سے الیکشن جیتا تھاآج وہاں صرف3ہزار ووٹ پڑے۔آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیںکہ پی ڈی پی نے یہاں کی حالت کس قدر خراب کردی ہے۔ محبوبہ مفتی کے بھائی، جو اس وقت ایم ایل سی بھی ہیں، نے اپنی بہن کو اپنے ووٹ کے لائق نہیں سمجھا۔کشمیرنیوز سروس کے مطابق عمر عبداللہ نے سوال کیا کہ ’’جو بہن اپنے بھائی کا ووٹ حاصل نہیں کرسکی، کیا وہ عوام کے ووٹ کی حقدار ہوسکتی ہے؟ پی ڈی پی نے وعدے تو بہت کئے لیکن ان کا ایفاء کرنے کیلئے سنجیدگی نہیں دکھائی، نہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا، نہ امن قائم رکھ سکے، نہ 370کو بچا پائے، نہ پاور پروجیکٹ واپس لاسکے، نہ افسپا ہٹا سکے، نہ فوج کی تعداد کم کرسکے ۔ اگر پی ڈی پی نے اس ریاست کو کچھ دیا تو وہ بے بسی، تنہائی، ظلم سختی، بربادی اور خون خرابہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ پی ڈی پی کا نشان قلم دوات ہے لیکن ہمارے بچوں کو قلم تھمانے کے بجائے ان لوگوں نے پیلٹ، گولیوں اور ٹیئر گیسوں کی بارش کروائی۔ ’’محبوبہ مفتی کی طرف سے پہلگام جاکر آنسو بہانے کا کیا فائدہ؟ اگر یہ آنسو اقتدار میں بہے ہوتے تو ان کی کوئی وقعت ہوتی لیکن آج یہ آنسو صرف اور صرف الیکشن کیلئے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.