’’معطلی عارضی،ٹھوس پالیسی کے بعد ہی بحالی کے امکانات‘‘: سرکاری ذرائع
سرینگر۲۴، اپریل ؍کے این ایس ؍ آر پار تجارت پر عائد عارضی پابندی سے متعلق سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے کہ مذکورہ تجارت کے پیچھے دہائی قبل سرحد پار کرگئے 10کشمیری جنگجوئوں کا ہاتھ ہیں جو کراس بارڈر تجارت کو غلط طور پر پر استعمال کرکے اس پار ہتھیار، غیر قانونی کرنسی نوٹ اور ڈرگس کا کاروبار کرتے تھے۔ سرکاری ذرائع سے جاری تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ سر حدپار بیٹھے جنگجوئوں نے وہاں آئی ایس آئی کی کھلی معاونت سے بڑے بڑے تجارتی مراکز قائم کئے ہیں جس دوران وہ مسلسل آر پار کاروبار کی آڑ میں جنگجوئوں اور علیحدگی پسندوں کو رقومات بھیجنے میں ملوث ہیں۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق 18اپریل 2019کومرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے 10سال سے جاری آر پار تجارتی سرگرمیوں کو غیر معینہ عرصے کیلئے معطل کیا گیا ۔ اس سلسلے میںمرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے ایک آر ڈر 18اپریل2019کو ناتھ بلاک نئی دہلی سے جاری کیا گیا جس پر مرکزی وزارت داخلہ کے محکمہ برائے اُمور جموں وکشمیر کی خاتون ڈائریکٹر مس سلیکھا کا دسختط ثبت ہے۔ مذکورہ آرڈر کے اجرا ہوتے ہیں ریاست بھر میں سیاسی ، تجارتی اور عوامی حلقوں میں مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے لئے گئے فیصلہ پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا جس کے بعد عوامی حلقوں نے یک زبان آر پار تجارت کو فوری طور پر بحال کرنے پر زور دیا۔ اس سلسلے میں سرکار کی طرف سے جاری تحقیقات میں اس بات کا سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے کہ مذکورہ تجارت کے پیچھے دہائی قبل سرحد پار کرگئے 10کشمیری جنگجوئوں کا ہاتھ ہیں جو کراس بارڈر تجارت کو غیر قانونی سرگرمیوں کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے معطلی کے آرڈر میں اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ آر پار تجارت کی آڑ میں سرحد پار تجار تصدیق شدہ اشیائے کے علاوہ ہتھیاروں کی سمگلنگ، نشیلی ادویات کی تقسیم اور غیر قانونی کرنسی نوٹ کے پھیلائو میں ملوث تھے۔ ادھر سرکار کی طرف سے جاری تحقیق میں اس بات کا خلاصہ کیا گیا ہے کہ آر پار تجارت کی معطلی کے پیچھے اُن 10کشمیری جنگجوئوں کی سرگرمیاں محرک ثابت ہوئی جو تجارت کی آڑ میں کشمیری جنگجوئوں اور علیحدگی پسندوں کو حوالہ رقوم بھیجنے میں ملوث ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ دہائی قبل سرحد عبور کرچکے 10کشمیری جنگجوئوں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد سے بڑے بڑے تجارتی مراکز قائم کئے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں مذکورہ جنگجو کشمیر میں سرگرم جنگجوئوں اور علیحدگی پسندوں کو غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے رقومات ٹرانسفر کرتے تھے۔تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کشمیر میں سرگرم جنگجوئوں اور علیحدگی پسندوں کو سرحد پار سے جنگجوئوں کی جانب سے کثیر تعداد میں رقومات فراہم کی جاتی رہی ہیں تاکہ وہ یہاں بھارت مخالف بیانیہ کو مضبوط کرنے میں اہم رول ادا کرسکیں۔تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ کشمیری جنگجو پاکستان کے اسلام آباد اور راول پندی اور پاک زیر انتظام کشمیر کے مظفر آباد علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جہاں سے وہ بادام، کھجور، خشک میوہ جات وغیرہ کا کاروبار کرکے تجارت سے حاصل شدہ آمدن کو کشمیربھیج کر یہاں غیر یقینی کی صورتحال کو مزید ہوا دے سکیں۔سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان کے شہروں میں بیٹھے ان جنگجوئوں کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی کھلی معاونت حاصل ہیں جن کی مدد سے مذکورہ جنگجوئوں نے بڑے بڑے تجارتی مراکز قائم کئے ہوئے ہیں۔پولیس کے سینئر افسر نے اس حوالے سے مزید بتایا کہ مذکورہ 10جنگجو آر پار تجارت کو کشمیر میں غیر یقینیت جیسی صورتحال کو پروان چڑھانے میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔خیال رہے دہائی قبل ہندوپاک مملکتوں کے بیچ رشتوں کو مضبوط بنانے کی خاطر اعتماد سازی کے اقتدامات کو فروغ دینے کی غرض سے چکان داں باغ اور سلام آباد کے راستوں سے کراس بارڈر تجارت کو شروع کیا گیا تھا جس کے بعد دونوں اطراف سے وابستہ تجارت پیشہ افراد کے لئے یہ شروعات ایک نیک شگون ثابت ہوئی ۔ اس سلسلے میں تحقیقاتی افسران نے تجارت میں ملوث 10کشمیری جنگجوئوں کے مکمل کوائف کو بھی سامنے لایا گیا جس کے مطابق سیکورٹی نوعیت سے انتہائی حساس مانا جانے والا ترال علاقے کا رہنے والا معراج الدین بٹ تجارت کی آڑمیں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث بتایا جاتا ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ معراج الدین بٹ فی الوقت پاکستان کے راولپنڈی شہر میں مقیم ہے جہاں انہوں نے ’’معراج الدین ٹریڈرس‘‘ کے نام سے تجارت شروع کی ہے۔معلوم ہوا ہے کہ معراج الدین ساکن ترال کا بھائی اس پار سے بھی اُوڑی کے تجارتی مرکز کیساتھ وابستہ ہے۔اسی طرح پانپور کے رہنے والے نذیر احمد بٹ نے بھی دہائی قبل سرحد عبور کرکے پاکستان میں رہائش اختیار کی ہے اور فی الوقت وہیں پر اپنا تجارت شروع کی ہوئی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق نذیر احمد فی الوقت اسلام آباد میں ’’نیو کشمیر ٹریڈرس‘‘ اور ’’نیو کشمیر فرم‘‘ کے نام سے تجارت چلارہے ہیں۔وسطی ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے بشارت احمد بٹ نے بھی سرحد کو عبور کرکے جنگجوئوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم فی الوقت موصوف راولپنڈی میں مقیم ہیں اور ’’النصیر ٹریڈنگ کمپنی‘‘ کے نام سے بزنس چلا رہے ہیں۔بڈگام کے ہی شوکت احمد بٹ نے بھی سرحد کو عبو ر کرکے ہتھیاروں کی تربیت حاصل کرکے جنگجوئوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی اور اب راولپنڈی میں رہائش پذیر ہونے کیساتھ ساتھ وہاں ’’طٰحہٰ انٹرپرائزس‘‘ کے نام سے تجارتی مرکز قائم کیا ہوا ہے۔سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بڈگام کے ہی نور محمد نے دہائی قبل ہتھیاروں کی تربیت حاصل کرنے کی غرض سے سرحد کوعبور کرتے ہوئے جنگجوئوں کی صف میں شامل ہوا تھا تاہم فی الوقت راولپنڈی میں مقیم ہونے کیساتھ ساتھ انہوں نے وہاں ’’النور‘‘ کے نام سے تجارت شروع کی ہوئی ہے۔سرینگر سے تعلق رکھنے والے خورشید احمد کے مطابق بتایا گیا ہے کہ انہوں نے آٹھ برس قبل سرحد کو عبور کرکے جنگجوئوں کی صف میں شامل ہوا تھا تاہم فی الوقت اسلام آباد میں رہائش پذیر رہنے کیساتھ ساتھ موصوف ’’مسرز خورشید اینڈ سنز‘‘ کے نام سے بزنس چلارہے ہیں۔اسی طرح بڈگام سے تعلق رکھنے والے امتیا زاحمد کے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے سات سال قبل لائن آف کنٹرول کو عبور کرکے پاکستان میں ہتھیاروں کی تربیت حاصل کرکے جنگجوئوں کی صف میں شامل ہوگیا تھا جس کے بعد انہوں نے مظفرآباد سے ہی آر پار تجارت میں شامل ہونے کی غرض سے ’’ایم آئی کے ٹریڈرس‘‘ اور ’’مسرز امتیاز ٹریڈرز‘‘ کے نام سے تجارتی مراکز قائم کئے جس کے ذریعے موصوف آر پار تجارت کے ذریعے غیر قانونی سرگرمیوں کا ارتکاب کررہے ہیں۔تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق شمالی کشمیر کے بارہمولہ علاقے سے تعلق رکھنے والے عامر بھی چند برس قبل لائن آف کنٹرول کو عبور کرکے جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہونے کے لئے گئے اور اب راولپنڈی سے ہی آر پار تجارت کو کنٹرول کئے ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں عامر سے متعلق سنسنی خیز خلاصہ کیا گیا ہے کہ وہ آر پار تجارت میں ملوث تجار میں سب سے زیادہ متحرک اور فعال ہے۔رپورٹ کے مطابق اعجاز رحمانی ساکن بارہمولہ نے بھی دہائی قبل سرحد کو عبور کرکے پاکستان میں ہتھیاروں کی تربیت حاصل کی جس کے بعد انہوں نے مظفر آباد اور اسلام آباد سے آر پار تجارت میں حصہ لینا شروع کردیا۔سوپور کے رہنے والے شبیر الٰہی سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موصوف حزب المجاہدین کا متحرک کارکن ہیں اور آر پار تجارت میں ’’ایم این ٹریڈنگ کمپنی‘‘ کے نام سے شرکت کررہے ہیں۔سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ آر پار تجارت میں جنگجوئوں کی کھلی مداخلت اور اُن کی طرف سے کشمیر میں سرگرم جنگجوئوں اور علیحدگی پسندوں کو رقومات فراہم کرنے جیسی سرگرمیاں ہی آر پار تجارت کی معطلی کی وجوہات بنی۔انہوں نے بتایا کہ سرکار آر پار تجارت کو دوبارہ بحال کرنے کی خاطر تجارت سے تعلق قواعد و ضوابط پر دوبارہ نظر ثانی کریگی اور اس حوالے سے سخت اور ٹھوس پالیسی کو وضع کیا جائیگا تاکہ سرحد کے آر پار تجارت کی آڑ میں غیر قانونی سرگرمیوں کا ارتکاب بند ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ آر پار تجارت سے صرف اُن لوگوں کو مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا جائیگا جن کا ٹریک ریکارڈ بالکل پاک و صاف ہوگا ۔
آر پارکی تجارت سے متعلق تحقیقات میں سنسنی خیز انکشاف
سرحد عبور کرچکے 10کشمیری جنگجو ئوں کا کاروبارسے جڑے ہونے کا خلاصہ