سرینگر۲۶، اپریل ؍کے این ایس ؍ نیشنل کانفرنس کے پارلیمانی اُمیدوار برائے جنوبی کشمیر جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے ریاست میں جاری صورتحال کو گھمبیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم سب متحد ہوکر اُن تمام سازشوں اور مذموم منصوبوں کا ڈٹ پر مقابلہ کریں اور ناکام بنائیں جو ہمیں لسانی، علاقائی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لئے رچائے جارہے ہیں۔ انہوں نے عوام کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ انتخابات میں بھاجپا اور اس کی درپردہ جماعتوں کو شکست دے کر ہی ہم اپنی ریاست کی وحدت، اجتماعیت اور انفرادیت کا تحفظ یقینی بناسکتے ہیں۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق نیشنل کانفرنس کے پارلیمانی اُمیدوار برائے جنوبی کشمیر جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے جمعہ کو جنوبی کشمیر کے دیوسر،ملہ پورہ، والٹینگو اور کنڈ علاقوں میں مختلف عوامی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے ریاست جموں وکشمیر میں جاری صورتحال کو انتہائی گھمبیر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم سب متحد ہوکر اُن تمام سازشوں کا مقابلہ کریں جو ہمیں لسانی، علاقائی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لئے رچائے جارہے ہیں۔ جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے بتایا کہ کشمیری عوام امن پسند قوم ہے اور عزت و آبرو کی زندگی گزارنے کے متلاشی رہے ہیں۔ کشمیری قوم ایک باغیرت قوم ہے جس نے ماضی میں ظلم و ستم، ناانصافی اور غلامی کیخلاف جدوجہد کی اور اس میں سرخ رو ہوکر سامنے آئی ہے۔ انہوں نے نئی دہلی کو خبردار کرتے ہوئے بتایا کہ کشمیری قوم دفعہ370اور 35اے کیخلاف کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ ٹھنڈے پیٹوں نہیں برادشت نہیں کریگی۔ حسنین مسعودی نے کہا کہ ریاست کے موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم سب متحد ہوکر اُن سازشوں اور مذموم منصوبوں کو ناکام بنائیں جو ہمیں لسانی، علاقائی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کیلئے رچائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے لوک سبھا انتخابات میں پی ڈی پی اور بھاجپا کی درپردہ شراکت داری تھی اور ایک منصوبے کے تحت پی ڈی پی والوں نے وادی میں بھاجپا کیخلاف ووٹ مانگے اور پھر انہی کے ساتھ مل گئی۔بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد یہاں جو کچھ ہوا اُس سے کوئی بے خبر نہیں ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ انتخابات میں بھاجپا اور اس کی پراکسی جماعتوں کو شکست دیکر ہی ہم اپنی ریاست کی وحدت، اجتماعیت اور انفرادیت کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کیلئے الیکشن میں عوام کی بھر پور شرکت ضروری ہے۔ ہمیں اپنی ریاست کے روشن مستقبل کیلئے الیکشن میں بھر پور شمولیت کرنی پڑے گی ، اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی حکومت کی طرف سے ریاست پر جی ایس ٹی کا اطلاق 1953سے لیکر آج تک دفعہ370کیلئے سب سے دھچکا تھا جس کی وجہ سے ہم اپنی اقتصادی خودمختاری سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انہوں نے کہا کہ سابق پی ڈی پی حکومت کی ناکامی اور نااہلی کی وجہ سے ریاست کا ہر ایک شعبہ بری طرح متاثر ہوا، ہم ایک سیکٹر میں پیچھے رہ گئے۔ جسٹس مسعودی نے کہا کہ شیر کشمیر کی قیادت میں پہلی بار نیشنل کانفرنس نے عوامی حکومت بھاگ ڈور سنبھالتے ہی ریاست کے درجہ فہرست ذاتوں اور قبیلوں کیساتھ ساتھ پسماندہ طبقوں کو خصوصی مراعات دیئے گئے۔ اس کے بعد نیشنل کانفرنس کی متواتر حکومتوں نے پسماندہ طبقوں کی زندگی بہتر بنانے کیلئے تاریخی اور انقلابی اقدامات کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے گوجر ، بکروالوں اور پہاڑیوں کو جنگلات پر حقوق دلانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ انہوں نے اپیل کی کہ دیگر درجہ فہرست ذاتوں کے 2فیصد ی ریزرویشن میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے کیونکہ OSCکیساتھ 30کشمیری پسماندہ اور غریبی سے نیچے زندگی گزر بسر کرنے والے قبیلے وابستہ ہیں۔ادھر پارٹی کے سینئر لیڈر ایڈوکیٹ عبدالمجید لارمی نے چناوی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی کشمیر کے ووٹروں نے 2002سے لگاتار پی ڈی پی بھر پور حمایت دی اور وفا کی، کیا پی ڈی پی نے یہاں کے لوگوں کیساتھ وفا کی؟جنوبی کشمیر کے حالات دیکھ کر ایسا بالکل بھی نہیں لگتا۔پی ڈی پی کے تمام وعدوں سراب ثابت ہوئے ۔گولی نہیں بولی، امن، مفاہمت، مصلحت، ہیلنگ ٹچ اور دیگر طرح طرح کے تمام نعرے کھوکھلے نکلے، پی ڈی پی کی حکومت جنوبی کشمیر کے عوام کیلئے ایک ڈراونا خواب ثابت ہوئی، سب سے زیادہ کریک ڈائون جنوبی کشمیر میں دیکھنے کو ملتے ہیں، سب سے زیادہ زیادتیوں جنوبی کشمیر میں ہوئیں، سب سے زیادہ پی ایس اے کا اطلاق اور گرفتاریاں جنوبی کشمیر میں ہوئیں، سب سے زیادہ خون خرابہ جنوبی کشمیر میں ہورہا ہے، سب سے زیادہ بنکر جنوبی کشمیر میں بنائے گئے، سب سے زیادہ ٹیئر گیس، پیلٹ اور گولیوں کا استعمال جنوبی کشمیر میں ہوا۔ کیا یہی سب دیکھنے کیلئے پی ڈی پی کو عوام نے ووٹ دیئے تھے؟۔‘‘انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی آج ہر بات پر ہمدردی، افسوس اور آنسو بہاتی ہے لیکن 2016میں جب نوجوان گولیوں کے شکار بنائے جارہے تھے ، اُس وقت کسی کو یہ آنسو نظر نہیں آئے، جب یہاں اندھا دھند گرفتاریاں اور مظالم جاری تھے تب محبوبہ جی نے کسی کیساتھ ہمدردی نہیں کی، تب تو موصوفہ کہتی تھی کہ جو لڑکے گولیوں کا شکار ہوئے وہ ٹافی اور دودھ لانے نہیں گئے تھے ، اقتدار کے نشے میں دُھت موصوفہ نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ فوجی اور فورسز کی بندوقیں صرف دکھانے کیلئے نہیں ہوتیں بلکہ استعمال کرنے کیلئے بھی ہوتی ہیں۔اگر اُس وقت محبوبہ جی کی آنکھوں سے آنسو نکلے ہوتے تو وہ سب کے دلوں کو چھو جاتے لیکن تب ایسا نہیں ہوا ۔ آج موصوفہ آنسو بہارہی ہیں، یہ آنسو الیکشن کے آنسو ہیں۔ جنوبی کشمیر کے لوگوں نے ان سیاسی آنسوئوں کا بہت خمیازہ بھگتا ہے۔
روشن مستقبل کیلئے بھاجپا اور اسکے درپردہ ساتھیوں کو شکست دینا لازمی
دفعہ 370اور 35Aکیساتھ چھیڑ چھاڑ ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کی جائیگی: نیشنل کانفرنس