ماہ رمضان کے آمد پر گیلانی کا عالم اسلام کو مبارکباد

مسلمان کو اپنے گردونواح میں مستحق افراد کی خبرگیری اور معاونت کی تلقین کی

ماہ رمضان کے آمد پر گیلانی کا عالم اسلام کو مبارکباد

سرینگر ۷ ، مئی ؍کے این ایس ؍ حریت چیرمین سید علی گیلانی نے آمدِ رمضان پر عالم اسلام کو عمومی اور مسلمانانِ جموں کشمیر کو خصوصی طور مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صیام کا یہ مقدس مہینہ جہاں عبادات اور تزکیہ نفس کی ایک اعلیٰ ترین مشق ہے وہیں یہ امت کو اپنے گردونواح میں مستحق افراد کی خبرگیری اور معاونت کی تلقین بھی کرتا ہے ۔کشمیر نیوز سروس ( کے این ایس ) کے مطابق حریت چیرمین سید علی گیلانی نے آمدِ رمضان پر عالم اسلام کو عمومی اور مسلمانانِ جموں کشمیر کو خصوصی طور مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہیںگرد نوح میں مسحق افراد کی خبر گیری اور معاونت کی تاکید کی ہے انہوں نے کہا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور زندگی کے ہر شعبے کے لیے اس میں راہنمائی موجود ہے۔ سیاست ہو یا معیشت، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی ، جنگ ہو یا صلح، تعلیم ہو یا تعمیر، خانوں میں بٹنے کے بجائے یہ ایک مربوط عمل ہے۔ امت مسلمہ نے خود ہی اس عظیم طریقۂ زندگی کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے دشمنوں کے لیے خود کو ترنوالہ بننے کی راہ ہموار کی ہے دنیا بھر میں آج مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ پریشان کُن ہی نہیں، بلکہ تشویش ناک بھی ہے۔ دشمنان اسلام نے ہر محاذ پر آگ وآہن کی بھٹی گرم کر رکھی ہے۔ مسلمانوں کو انتہا پسندی کے نام پر مذہبی جنون کے نام پر، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اس بھٹی میں ایندھن کی طرح جھونک کر تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔ معصوم بچوں کے نازک جسموں کو بموں سے ریزہ ریزہ کیا جاتا ہے، بزرگوں اور عورتوں کو یا تو عمر بھر کے لیے اپاہج بنادیا جاتا ہے یا پھر قبرستانوں میں سلادیا جاتا ہے۔ مسلم ممالک کے سربراہوں کی ناعاقبت اندیشی اور دین بیزاری سے فائدہ اٹھاکر انہیں اپنے ذاتی خواہشات، اقتدار، عیش وعشرت اور جاہ وحشمت کا دلدادہ بناکر اُن ممالک کی قومی دولت کو اسلحہ اور گولی بارود کے بدلے ہتھیایا جارہا ہے۔ کلمہ گو ایک دوسرے کا گلہ کاٹ کر نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں تو دور بیٹھا دشمن شاباشی دینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ ایسے ہی دورِ پُرآشوب میں رمضان المبارک کا مقدس مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے۔ ماحول میں پاکیزگی اور خوشگوار تبدیلی دیدنی ہوتی ہے۔ منبرومحراب گرج رہے ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک کا یہ ظاہری حسن وجمال دلکش ہوتا ہے، لیکن یہ مختصر عرصہ ایک مسلمان کی عملی تربیت کے لیے کریش کورس کی حیثیت رکھتا ہے جو اس کے ماننے والوں کو زندگی کے نشیب وفراز اور کٹھن ادوار کے مقابلے کے لیے ذہنی اور فکری تربیت کے لیے تیار کرتا ہے۔ عبادات ایک مسلمان کو اس داعمی زندگی کے لیے زاد راہ فراہم کرتا ہے جو زندگی کی چند روزہ مہلت اور اس کی چکا چوند کو موت کی ساعت آتے ہی یک لخت ختم کردیتی ہے اور اس سرحد سے پار ہوتے ہی انسان اُس عالم میں پہنچ جاتا ہے جہاں سب کچھ عین مطابق حقیقت ہوتا ہے اور انسان سے معلوم کیا جاتا ہے کہ وہ صداقت کا کتنا جوہر اپنے ساتھ لایا ہے جو منزل حق میں کسی وزن اور قدروقیمت کا حامل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بابرکت مہینہ ہمیں حق وباطل کے معرکوں کی نہ صرف یاد تازہ کرتا ہے، بلکہ ہمیں ذہنی طور اس میں شرکت کے لیے آمدہ بھی کرتا ہے، لیکن موجودہ دور میں ملت کی تقسیم درتقسیم نے حق وباطل کے پیمانے ہی بدل کے رکھ دئے ہیں جس سے عام مسلمان اس قدر تذبذب اور انتشار کا شکار ہوا ہے کہ وہ اپنے دین کی اصل روح کی کھوج میں درد ر کی ٹھوکریں کھانے پر اپنے آپ کو مجبور پارہا ہے اور اصل اور کھرے کی تلاش میں ہر چمکنے والی چیز کو سونا سمجھ کر اس کے پیچھے بھاگنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی اور اور اپنی ریاست کی پستیوں میں گری ہوئی ملت ایک حساس فرد کے لیے خون کے آنسو رُلانے کے لیے کافی ہے۔ یہاں کی بدحالی اور افراتفری ہماری آئندہ نسل کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔ سیاسی بے یقینی اور غلامی کی بدترین زنجیروں میں جکڑی یہ نہتی قوم اپنے منبع ہدایت سے بھی کوسوں دور جاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ متاع غیرت لٹنے کے ساتھ ساتھ اُس کے احساس سے بھی جب قلب وذہن حال ہو جائے تو قوموں کو ڈوبنے اور نیست ونابود ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ ایسی قوم تعمیر وترقی کے کھوکھلے نعروں کے سحر میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ سیاسی گداگروں اور بے ضمیر حکمرانوں کے لیے ایسی قوم ترنوالہ بن جاتی ہے اور وہ اُن کے خود غرضانہ اور لالچی مزاج کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرکے اپنے اور اپنے حواریوں کے لیے تخت وتاج کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کے مہینے میں روزے رکھ کر، تراویح پڑھ کر، تلاوت قرآن اور اضافی عبادات، صدقۂ خیرات اور باقی نیکی کے کام کرنے کے باوجود اگر ہم حق وباطل کے درمیان فرق کرنے اور انہیں پرکھنے کی صلاحیت سے اسی طرح محروم رہے جس طرح رمضان سے پہلے تھے تو اس بابرکت مہینے کا مقصد اور اس کو حاصل کرنے کی سعادت اور افادیت سے ہم اپنی زندگی کی تاریکیوں کو روشن کرنے میں ناکام ہوجائیں گے اور اس ماہ کی ظاہری عبادات سے قرب ہونے کے باوجود ہم بحیثیت ملّت اپنا وجود منوانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ حق پرستوں کو زمانے کے ہر دور میں طویل مدتوں تک آزمائشوں کی بھٹی میں تپایا گیا ہے۔ انہیں اپنے صبر کا، اپنی راستبازی کا، اپنے ایثارووفاداری کا، اپنے ایمان کی بختگی اور اپنے توکل علی اللہ کے اعصاب شکن امتحان سے گزرنا پڑا ہے۔ جو قوم مصائب اور تکالیف کے ان کٹھن مراحل سے گزر کر اپنے اندر وہ صفات پیدا کریں جو صرف اسی دشوار گزار کھائی میں ہی پنپ سکتی ہیں، وہیں لوگ اور وہی قوم ابتلاء خالص اخلاق فاضلہ اور سیرت صالحہ کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر جاہلیت لادینیت اور ظالموں پر فتح پانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ یہی ماہ صیام کی اصل روح اور اس کا عبدی پیغام ہے جس کو سمجھنے اور عملانے کی آج کے دور میں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.