سرینگر ۷ ، مئی ؍کے این ایس ؍ ’’کشمیرمیں سحرخوانی کی روایت برقرار‘‘رکھتے ہوئے ’’سحرخوانوں نے ڈول بجابجاکرلوگوں کوسحری کیلئے جگادیا‘‘جبکہ مساجدکے لاؤڈ اسپیکروں سے بھی وقتِ سحرکی صدائیں بلندکی گئیں۔تاہم حالیہ کچھ برسوں کی طرح ہی امسال بھی شہرسری نگرمیں کم قلیل تعدادمیں ہی سحرخوان واردہوئے ہیں۔سوموارکوشام دیرگئے ماہ رمضان کاچاندنظرآنے کی تصدیق ہونے کے بعددوران شب 2بجے سے ہی سحرخوان سڑکوں اورگلی کوچوں پرنکل آئے اورانہوں نے ڈول بجابجاکرلوگوں کوسحری کیلئے جگانے کی کوشش کی۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب سونے جگانے کیلئے الیکٹرانک آلات کاستعمال کیاجاتاہے تواس دورمیں بھی وادی کشمیر میں سحری کے وقت ڈھول بجاکر لوگوں کو جگانے کی روایت برقرار ہے۔ تاہم یہ فریضہ انجام دینے والے سحر خوانوں کی تعداد ہرگذرتے سال کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔چاندنظرآتے ہی سایہ فگن ہوئے ماہ صیام کی پہلی سحری کے وقت بھی سری نگرشہرمیں ڈول کی آوازسنائی دی ،کیونکہ پھرایک بارسحرخوان لوگوں کوسحری کیلئے جگانے کی خاطرگلی گلی ،بستی بستی ڈول بجانے کیلئے نمودارہوئے۔شہرخاص اورگرمائی راجدھانی کے نواحی علاقوں ،بستیوں اورکالونیوں میں آغازسحری سے ایک آدھ گھنٹہ پہلے ہی سحرخوان ڈول لیکرنکل آئے اورانہوں نے گلی گلی جاکرڈول بجائے تاکہ لوگ سحری کیلئے وقت پربیدارہوسکیں ،اوربالخصوص خواتین جلدجاگ کرسحری کے پکوانوں کوتیاریاگرم کرسکیں۔شہرخاص ،سونہ وار،ڈلگیٹ،راجباغ اوردیگرکئی علاقوں کے لوگوں نے بتایاکہ حسب روایت وہ سحری خوانوں کے ڈول بجانے سے جاگے اورانہوں نے سحری کھانے کی تیاری شروع کردی۔لوگوں نے بتایاکہ اْنھیں سحرخوانوں کاڈول بجاکراْنھیں جگانااچھالگتاہے کیونکہ ایسے سحرخوان معقول وقت پرلوگوں کوجگانے کافریضہ انجام دیتے ہیں۔لوگوں کے مطابق سحرخوانی کافریضہ انجا م دینے والے زیادہ ترافرادکاتعلق سرحدی ضلع کپوارہ اورشمالی کشمیرکے دیگرکئی علاقوں سے ہے۔ شہرکے لوگ کہتے ہیں کہ اْنھیں ایسے بزرگ سحرخوانوں کی ماہ صیام کے آتے ہی یادآتی ہے جواب ڈول نہیں بجاتے۔انہوں نے کہاکہ بیشترایسے سحرخوان شہرکے مختلف علاقوں میں قائم مساجدمیں بطورحمام فرائض انجام دیتے رہتے ہیں جبکہ ایسے درجنوں نوجوان بھی سحرکے وقت ڈول بجانے نکل جاتے ہیں جوشہرمیں بغرض محنت مزدوری مقیم ہیں۔کچھ ایسے نوجوان سحرخوانوں کاکہناہے کہ و ہ سحرخوانی صرف کچھ روپے کمانے کیلئے نہیں کرتے ہیں بلکہ اْنھیں یہ کارخیرانجام دینے سے قلبی سکون ملتاہے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں اْس کالونی یابستی کے لوگ عیدالفطرکی آمدسے کچھ روزقبل ہی محنتانہ اداکرتے ہیں اورلوگ ہماری حوصلہ افزائی کرنے کیساتھ ساتھ ہماراشکریہ بھی اداکیاکرتے ہیں۔سحرخوانوں کی تعدادمیں کمی آنے یااس روایت کے دم توڑجانے کے بارے میں عام لوگوں اورسحرخوانوں کاکہناہے کہ صورتحال بگڑجانے کے بعدسحرخوان ڈول لیکرسڑکوں گلی کوچوں میں نکلنے سے ڈرتے ہیں ،اوریہی وجہ ہے کہ سحرخوانی یاسحرخوانوں کی روایت وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ایک قصہ پارینہ بن رہی ہے۔کئی سحرخوانوں نے بتایاکہ اس جدید دور میں سحرخوانی کی کوئی مطابقت نہیں ہے،لیکن لوگ چاہتے ہیں کہ یہ روایت یوں ہی برقرار رہے۔سحرخوانوں نے بتایاکہ لوگ نیند سے بیدار ہونے کیلئے اپنے موبائیل فونوں میں الارم بھی سیٹ کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ ٹیکنالوجی پر سحرخوانی کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔سحرخوان مانتے ہیں کہ ہم روایتی سحرخوانی کے حامیوں کے لئے الارم کا کام کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ لوگوں میں سحرخوانوں کے تئیں عزت و احترام میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر گذرتے سال کے ساتھ سحرخوانوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔
دور جدید میں بھی کشمیر میں سحر خوانی کی روایت برقرار
شہر و دیہات میں سحر خانوں نے ڈول بجابجاکرلوگوں کوسحری کیلئے جگادیا