سرینگر ۹ ، مئی ؍کے این ایس ؍ نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سیکرٹری ڈاکٹر شیخ مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ اگر ہندوستان واقعی جموں وکشمیر اور خطے میں دیرپا امن اور شانتی کی متمنی ہے تو نئی دلی کو دفعہ370کی مکمل بحالی، 1953سے پہلے کی پوزیشن اور دہلی اگریمنٹ کو بحال کرنا ہوگا اور ساتھ ہی جموں و کشمیر کی 9ویں اسمبلی کی طرف سے 1999میں منظور شدہ قرارداد اٹانومی کو قبول کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی اور بھاجپا کی سابق مخلوط حکومت کے قیام کے بعد حالات کی ابتری، بے چینی، افراتفری، ماردھاڈ، فرقہ پرستی، خوف و دہشت، کورپشن، بے روزگاری اور اقتصادی بدحالی کے سوا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ کشمیر نیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سیکرٹری ڈاکٹر شیخ مصطفی کمال نے جمعرات کو اپنی رہائش گاہ پر پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کیساتھ تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل کانفرنس اپنے اٹانومی کی بحالی کے ایجنڈا اور پالیسی پر قائم ہے اور یہی ایک ایسا حل ہے جو سب کیلئے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ہندوستان واقعی جموں وکشمیر اور خطے میں دیرپا امن اور شانتی کی متمی ہے تو نئی دلی کو دفعہ370کی مکمل بحالی، 1953سے پہلے کی پوزیشن اور دہلی اگریمنٹ کو بحال کرنا ہوگا اور ساتھ ہی جموں و کشمیر کی 9ویں اسمبلی کی طرف سے 1999میں منظور شدہ قرار اٹانومی کو قبول کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور ہمارا یہی موقف ہے کہ اگر اٹانومی سے بہتر کوئی ایسا حل ہے جو یہاں کے لوگوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمان کرتا ہے تو ہم اس قبول کرتے ہیں۔ ڈاکٹر کمال کے مطابق گذشتہ4سال کے دوران ریاست جموں وکشمیر کو ہر لحاظ سے اندھیروں میں دھکیلا گیا۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی اور بھاجپا کی سابق مخلوط حکومت کے قیام کے بعد حالات کی ابتری، بے چینی، افراتفری، ماردھاڈ، فرقہ پرستی، خوف و دہشت، کورپشن، بے روزگاری اور اقتصادی بدحالی کے سوا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔انہوںنے کہا کہ یہاں کے عوام نے ان ایام میں جو مصائب، مظالم اور مشکلات جھیلے اُن کی ماضی میں کہیں مثال نہیں ملتی۔انہوں نے کہا کہ یہاں کے خراب حالات سے سیاحت، کاروبار، تجارت، تعلیم، روزگار ، عام زندگی نیز ہر شعبہ غیر یقینیت کی نذر ہوگیا ہے۔ ریاست خصوصاً وادی کے عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں۔ ڈاکٹر کمال نے کہا کہ ریاست میں امن و امان لوٹانے کیلئے بے انتہا کام کیا گیا تھا لیکن سابق پی ڈی پی بھاجپا حکومت کی غلط پالیسیوں نے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا اور ہم ایک بار پھر وہیں پر کھڑے ہیں جہاں اندھیروں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل اور ہند و پاک کی مضبوط دوستی کو ریاست اور خطے میں امن و امان کی ضمانت قرار دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سکریٹری نے حکومت ہند پر زور دیا کہ وہ پاکستان کیساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے تمام متعلقین کیساتھ بات چیت شروع کریں تاکہ ریاست کے عوام کو دیر پا امن اور چین کی زندگی نصیب ہو۔انہوں نے کہا کہ ہند و پاک میں روابط کے فقدان سے نہ صرف وادی کے حالات دگرگوں ہیں بلکہ سرحدیں بھی جل رہی ہیں۔ اگر ہندوستان اور پاکستان میں مذاکراتی عمل جاری رہتا تو موجودہ خراب صورتحال نہیں ہوتی اور آر پار کشمیری عتاب کے شکار نہ ہوتے۔
دیرپا امن کیلئے 370اور 1953کی ماقبل پوزیشن کی بحالی ناگزیر
مذاکراتی عمل جاری رہتا توآج صورتحال مختلف ہوتی: ڈاکٹر مصطفی کمال