وادی میں باغ مالکان روایتی میواہ صنعت کو تبدیل کرکے ہائی ڈینسٹی پلانٹ لگانے میں مصروف عمل

ترقیاتی ممالک کے مقابلے میں ریاست جموں کشمیر وسائل ہونے کے باوجود میواہ کی پیداواری صلاحت میں 7 گناہ پیچھے۔۔ماہرین

وادی میں باغ مالکان روایتی میواہ صنعت کو تبدیل کرکے ہائی ڈینسٹی پلانٹ لگانے میں مصروف عمل

الحاق رپورٹ ۔۔۔۔۔۔ریاست میں روایتی میواہ صنعت کو تبدیل کرنے کیلئے بیرون ممالک سے جدید ٹیکلوناجی سے تیار کئے گئے دو سال میں میواہ دینے کی صلاحت والے High Densty کے روٹ سٹاک درآمد کرکے میواہ کی پیدوار10 میٹریک ٹن فیHector سے 70 میٹریک ٹن تک بڑھانے کیلئے سکاسٹ اور ہاٹیکلچرمحکمے کے ماہرین غیرمعمولی اور انقلابی اقدامات اُٹھارہے ہیں۔اس دوران’’ ہائی ٹیک پلانٹیشن ‘‘کی جانکاری کیلئے بیرون ممالک کے ماہرین وادی کشمیر میں باغ مالکان کو جانکاری فراہم کررہے ہیں جبکہ ہائی ڈینسٹی میٹریل تیار کرنے والی کئی کمپنیوں کے ساتھ بھی سرکاری طور ایگریمنٹ طے کئے گئے ہیں۔ شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی کے اور محکمہ ہاٹیکلچر کے کئی ایک ماہرین نے الحاق کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا گزشتہ کئی دہائیوں سے وادی کشمیر میں کسان روایتی میواہ صنعت کو بڑھاوا دینے کیلئے اپنے تمام تر وسائل برائو کار لارہے ہیں لیکن تمام تر ممکنہ تجروبات کا سہارا لیکر بھی ہم مناسب اورخود کفیل میواہ کی پیداوار حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں جبکہ موسم میں غیر متواقع تبدیلی کی وجہ سے متعدد مقامات پر فروٹ انڈسٹری سے وابستہ افراد روز بہ روز شدید مالی دشواریوںسے بھی دوچار ہورہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی اور دیگر منسلک اداروں کے ماہرین ان تجروبات میں مصروف عمل تھے کہ کس طرح روایتی میواہ صنعت کو تبدیل کرکے میواہ کی پیداوار کو بڑھایا جاسکے اور اس سلسلے میں سرکارکی ہدایت پرSKUST کے ماہرین کی کئی ٹیموں نے بیرون ممالک کا دورہ کیا اور وہاںکے ماہرین سے تبادلہ خیال کرکے اُن سے ماہرانہ رائے حاصل کی ۔ماہرین نے ریاست کی روایتی میواہ صنعت کے مستقبل اور اس میں پائی جارہی خامیوں کے بارے میں الحاق کو بتایا کہ کشمیر میں گزشتہ کئی برسوں سے زرعی اراضی پر بڑے بڑے تعمیرات اور شاپنگ کمپلکس تعمیر کرنے میں تشویشناک اضافہ سنگین صورتحال اختیار کررہا ہے اور اس عمل سے ایگریکلچر اورہاٹیکلچر شعبہ بُری طرح متاثر ہورہا ہے۔ ماہرین کے مطابق کہ اس حوالے سے شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی اور ہاٹیکلچر محکمہ کے ذمہ داروں نے یہ فیصلہ کیا کہ روایتی میواہ صنعت کو HI- Tech نظام کے زمرے میں لاکر میواہ کی پیدوار کو اطمنان بخش تک لیجانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ فروٹ انڈسٹری سے وابستہ افراد مالی بدحالی سے چٹکارا پا سکے جس کے بعد ’’ ہائی ڈینسٹی پلانٹوں‘‘ کو وادی کشمیر میں متعارف کرنے کیلئے جدید سائنسی ٹیکلوناجی سے تیار کئے گئے root stalk بیرون ممالک سے درآمد کرکے انہیں شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی میں لگایا گیا ۔شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی کے ایک ماہر نے High densty پلانٹوں کو متعارف کرنے کے فائدے بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر روایتی طور ایک کنال اراضی میں 13 درخت لگاتے جاتے ہیں لیکن High densty درختوں کی صلاحت یہ ہے کہ ایک کنال اراضی میں 100 سے زائد درخت لگائے جاسکتے ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ٹیکلوناجی سے کس طرح کم اراضی کا استمال عمل میں لایا جاتا ہے اور اس لحاظ سے ہم ایک Hector اراضی یعنی 20کنال اراضی پر Space کم کرکے 4000 کے قریب درخت لگا سکتے ہیںاوروہی دوسری جانب مزکورہ پلانٹ صرف دو سال کے بعد ہی میواہ دینے کی صلاحت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک سروے کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں میواہ کی پیدواری صلاحت 10 میٹریک ٹن فی Hector ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک خاص کر یورپ میں High densty پلانٹ ٹیکلوناجی کا استمال عمل میں لایا گیا ہے اور وہاں پر میواہ کی پیدواری صلاحت 70 میٹریک ٹن فی Hector ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہم نہ صرف اس جدید سائنسی ٹیکلوناجی سے 7گناہ پیچھے ہیں بلکہ ہم کس طرح ہر سال شدید مالی نقصان سے دوچار ہوجاتے ہیں۔انکا مزید کہنا ہے کہ شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی کے ماہرین نے حال ہی میں یورپ کے کئی ممالک جن میں اٹلی ، ہالینڈ ، فرانس اور آسٹریلیا وغیرہ شامل ہے کا دورہ کیا اور وہاں کے باغ مالکان اور ہاٹیکلچر شعبہ کے ماہرین سے اس حوالے سے تبادلہ خیال کیا جس دوران یورپ کے ماہرین نے صاف الفاظ میں ریاست کے ماہرین کو بتایا کہ ریاست جموں کشمیر کے باغ مالکان جو روایتی ٹیکلوناجی استمال کررہے ہیں اُسے میواہ کی پیدوار کم بلکہ لکڑی کی پیدوار زیادہ حاصل کررہے ہیں ۔ وہاں پر ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ high densty پلانٹ صرف دو سال بعد میواہ دینے کی صلاحت رکھتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید اضافہ ہوتا ہے ۔انہوں نے الحاق کو مزید بتایا کہ سابق سرکار کے دور میں ہاٹیکلچر شعبہ کو بڑھاوا دینے کیلئے کچھ انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے یہاں جدید سائنسی ٹیکلوناجی رائج کرتے ہوئےH.D ٹیکنیک کیلئے 300 کروڑ روپئے مختص رکھے تھے جبکہ سرکار کی ہدایت پر ہی شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی کے ماہرین نے بیرون ممالک کادورہ کرکے وہاں MOU پر دستخط کئے اور بعد میںماہرین کی ایک ٹیم نے ریاست کے مختلف اضلاح کا دورہ کیا اور یہ جانے کی کوشش کی کہ کس علاقے میں High Densty پلانٹ لگائے جاسکتے ہیں اور کون سے علاقے کی اراضی اسکے لئے موضون ہے ۔ اس دوران حال ہی میں بیرون ممالک سے ہاٹیکلچر سے وابستہ ماہرین نے سرینگر میں محکمہ ہاٹیکلچر کے افسران کے ساتھ بھی ہائی ڈینسٹی پلانٹیشن کے بارے میںانکے ساتھ تبادلہ خیال کیا تاہم اب کئی ایک ماہرین نے الحاق کو بتایا کہ اب تو ہائی ڈینسٹی کا رحجان وادی کشمیر میں بڑھ گیا ہے تو اب بیرون ریاست سے جو میٹریل درآمد کیا جارہا ہے اسکی بڑے پیمانے پر جانچ کی جانی چاہے تاکہ کل یہاں کے باغ مالکان کسی قسم کے نقصان سے دوچار نہ ہونا پڑے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.