سرینگر ١٣ ، مئی ؍کے این ایس ؍ حریت کانفرنس (گ) چیرمین سید علی گیلانی نے حریت رہنمائوں ا وراُن کے رشتہ داروں کو من گھڑٹ کیسوںمیں پھنسانے کی کارروائیوں کو بدترین اور سیاسی انتقام گیری قرار دیا ۔ انہوں نے بتایا کہ بلاجواز کارروائیوں کو جواز بخشنے کی خاطر عدالتی نظام کو بھی استعمال میں لایا جارہا ہے جہاں اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کی سرعام دھجیاں اُڑائی جارہی ہے۔ کشمیر نیوز سروس (کے این ایس) کو موصولہ بیان کے مطابق حریت کانفرنس (گ) چیرمین سید علی گیلانی نے ریاست جموں کشمیر کے حریت پسند راہنماؤں کو بنا کسی قانونی یا اخلاقی جواز کے اور ان رشتہ داروں کو فرضی اور من گھڑت کیسوں میں پھنسا کر انہیں بدترین قسم کی سیاسی انتقام گیری کا نشانہ بنائے جانے کے لیے اپنے عدالتی نظام کو بھی استعمال میں لایا جارہا ہے، جہاں اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کو دھجیاں اڑانے میں کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا ہے۔ تہاڑجیل میں محبوس بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی کی طرف سے سید شاہد یوسف اور سید شکیل احمد کو محض اس لیے ایک من گھڑت کیس میں ملوث کیا گیا ہے، کیونکہ وہ ریاست جموں کشمیر کی ایک خانہ زاد عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کے فرزند ہیں۔ مورخہ 9مئی کو دہلی کی عدالت میں دونوں محبوسین کی درخواست ضمانت پر بنا کسی بحث کے 70دنوں تک مؤخر کرنا اور اسی طرح لمبی لمبی تاریخیں مقرر کرکے ان کے مدّتِ اسیری میں طول دینے کی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ حریت (گ)چیرمین نے کہا کہ بھارتی حکمرانوں نے اپنی ہی جمہوریت کا مذاق بنایا ہوا ہے۔ عدالت میں بیٹھے انصاف دینے والے بھی حسب ونسب دیکھ کر ہی فیصلے سُناتے ہیں۔ اگر کہیں کوئی شخص حق وانصاف کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنے کی جرأت کرتا ہے تو اس کو ’’پلک جھپکتے ہی اپنی کرسی سے ہٹا کر وہاں اپنے من پسند فرد کو تعینات کردیا جاتا ہے، تاکہ حکمرانوں کی منشاء اور مرضی کے مطابق فیصلے صادر کردئے جائیں، جس کی تازہ مثال ریاست کے معروف تاجر ظہور احمد وٹالی کی دلی ہائی کورٹ کی طرف سے ملی ضمانت کو سپریم کورٹ کی طرف سے مسترد کرنے کا حیران کُن فیصلہ ہے، جو یہاں کی عدالتوں کی غیر جانبداری اور شفافیت پر ایک بڑا سوال ہے۔ اگرچہ کشمیریوں کے حوالے سے بھارتی عدالتیں پہلے سے ہی متعصبانہ شبیح رکھتے ہیں، لیکن خود سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کی طرف سے سیاسی مداخلت کا کھلم کھلا اعلان ایک نہتی قوم کے خلاف عدالتی تعصب اور جانبداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ گیلانی نے ریاستی عوام کے تئیں بھارتی عدلیہ کا رویہ جانبدارانہ اور سیاست زدہ قرار دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ حریت پسندوں کے اہل خانہ کو اس طرح بنا کسی جواز کے ظلم وبربریت کا نشانہ بنانا شہری آزادی اور عزت وقار کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے۔ انہوں نے شہید محمد مقبول بٹ اور شہید محمد افضل گورو کو بھارتی عوام کے اجتماعی ضمیر اور سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے تختۂ دار پر لٹکا دینا اس ضمن میں انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی عوام کو بھارت کے عدلیہ سے مکمل طور پر اعتماد اُٹھ چکا ہے اور انہیں یہاں انصاف ملنے کی کوئی بھی امید نظر نہیں آرہی ہے۔انہوںنے تہاڑ جیل میں علیل حریت راہنماؤں محمد یٰسین ملک، شبیر احمد شاہ، الطاف احمد شاہ، پیر سیف اللہ، آسیہ اندرابی، ڈاکٹر غلام محمد بٹ وغیرہ کی حالت زار پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے ارباب اقتدار مذکورہ حریت پسندوں کی زندگی سے کھلواڑ کرنے کے مرتکب ہیں اور انہیں اگر کوئی گزند پہنچی اس کی تمام تر ذمہ داری بھارت پر عائد ہوگی۔ انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے ریاست جموں کشمیر کے حریت پسند محبوسین کے تئیں ظالم حکمرانوں اور عدلیہ کے انتقام گیرانہ روئیے کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے ان مظالم پر روک لگانے کے لیے بھارت پر اپنا سفارتی دباؤ بڑھانا چاہیے۔
حریت رہنمائوں اور رشتہ داروں کو من گھڑت کیسوں میں پھنسانا سیاسی انتقام گیری
بلاجوا ز کارروائیوں کو جواز بخشنے کیلئے عدالتی نظام استعمال کیا جارہا ہے: گیلانی