جب تک نہ فارسٹ اور وائلڈ لائف محکموں سے عدم اعتراض سند حاصل کریں تب تک آر اینڈ بی شوپیان سڑک کو ہاتھ نہ لگائے ۔۔۔۔۔عدالت عالیہ
الحاق رپورٹ ۔۔۔۔۔۔ایک طرف سرکاری ادارے جنگلات کے تحفظ ،ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے اور قومی سرمایہ بچانے کے لئے بڑے بڑے دعوے کتے رہتے ہیں وہی دوسری جانب جنگلی جانوروں کی پناہ گاہوں کو کسی بھی ممکنہ خطرے سے بچانے کے خاطر کروڑوں روپے تو خرچ کئے جاتے ہیں تاہم یہ سرکاری دعوے اس وقت بے معنی ہوکے رہ جاتے ہیں جب وائلڈ لائف سنچریوں اور گنے جنگلات کے بیچوں بیچ سیاسی اثر رسوخ کی بنا پر غیر ضروری اور غیر قانونی طور سڑک پروجیکٹوں کی تعمیر و تجدید کے دوران منسلک اداروں کے اعلی افسران چشم پوشی کا مظاہرہ کرکے سپریم کورٹ کی احکامات کو ہی نظر انداز کرلیتے ہیں ۔الحاق کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آر اینڈ بی ڈویژن شوپیان نے اثر رسوخ کی بنا پر سپریم کورٹ اور نیشنل وائلڈ لائف بورڈ کی احکامات کو بالائے طاق رکھ کر دبجن سے چھانچ مرگ تک گنے جنگلات اور وائلڈ لائف سنچری کے بیچوں بیچ 14 کروڑ روپے کی لاگت سے سڑک تعمیر کرنےکےلئے ٹنڈر طلب کئے جس کے خلاف شوپیان میں سرگرم مختلف انجمنوں کے مشترکہ پلیٹ فارم "کاڑی نیشن کمیٹی” شوپیان عدالت عالیہ میں چیلنج کرکے اس پورے عمل کو عدالت عظمی کی احکامات کی سنگین خلاف ورزی قرار دی ہے اور عدالت کو تحریری طور آگاہی فراہم کی کہ آرایش بی ڈویژن شوپیان کمپارٹمنٹ نمبر RB16 جو ہرپورہ وائلڈ لائف سنچری کا وسیع حصہ ہے پر سڑک تعمیر کرنے کےلئے غیر قانونی طور ٹنڈر طلب کئے ہیں جس کا مقصد صرف اور صرف ماحولیات کے ساتھ ساتھ جنگلی حیاتیات کے زندگیوں کو خطرے سے دوچار کرنا ہے۔انہوں نے عدالت کو اپنے وکیل ایڈوکیٹ محمد ایوب شیخ کے ذریعے مزید بتایا کہ مذکورہ سڑک تعمیر کرنے کی کوئی جوازیت نہیں بنتی ہے اور نہ اس روڑ سے شوپیان علاقے کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا اور یہ صرف ضلع ہیڈ کوارٹر کو الگ تھلگ کرنے کی غیر ذمہ دارانہ کوشش ہے ۔کاڑی نیشن کمیٹی نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ 29 اکتوبر 2018 کو ہی وائلڈ لائف پروٹکشن ڈیپارٹمنٹ نے ایک خط زیر نمبر WLW-SPN/ESTT/2028/1014-17 محکمہ آر اینڈ بی کو آگاہی فراہم کی تھی کہ RB16 ہرپورہ وائلڈ لائف سنچری کا حصہ ہے لہذا کوئی بھی کام شروع کرنے سے قبل سپریم کورٹ اور نیشنل وائلڈ لائف بورڈ سے اجازت نامہ حاصل کرنا لازمی ہے لیکن متعلقہ محکمے نے ایسا نہیں کیا ہے تاہم عدالت کے دو رکنی بینچ جسٹس علی محمد ماگرے اور جسٹس سنجیو کمار نے معاملے کا سنجیدہ نوٹس لیکر ریاست کے چیف سیکریٹری، پرنسپل سیکریٹری فارسٹ،کمشنر سیکریٹری آر اینڈ بی اور فارسٹ،پرنسپل چیف کنسرویٹر فارسٹس،کنسرویٹر فارسٹ برائے جنوبی کشمیر ،ڈپٹی کمشنر شوپیان ،چیف واڈن وائلڈ لائف پروٹکشن کشمیر،سپر انڈنڈنٹ انجینئر آر اینڈ بی کے علاوہ ایگزیکٹو انجینئر آر اینڈ بی ڈویژن شوپیان اور DFO شوپیان کو ہدایت دی کہ وہ ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری اقدامات اٹھائے اور ساتھ ہی میں سڑک تعمیر کرنے والے محکمے کے افسران کو بھی ہدایت دی گئی ہے کہ جب تک نہ وائلڈ لائف اور فارسٹ محکموں سے "عدم اعتراض سند”
یعنی No objection certificate حاصل کی جائے تب تک سڑک پر کسی قسم کا کام شروع نہ کریں جبکہ کاڑی نیشن کمیٹی شوپیان کو بتایا گیا کہ اگر کسی بھی منسلک سرکاری ادارے کو قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا تو اس صورت میں کاڑی نیشن کمیٹی عدالت کا دوبارہ رجوع کرسکتی ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہرپورہ وائلڈ لائف سنچری 341 مربع کلو میٹر رقبہ پر پھیلی ہوئی تھی لیکن مغل روڑ تعمیر کرنے ہرپورہ وائلڈ لائف سنچری کے بیچوں بیچ 400 کے ۔وی سانبہ -امرگڈھ ٹرانسمیشن لائن بجھانے سے نہ صرف سنچری کا رقبہ سکڑ گیا ہے بلکہ ہرپورہ وائلڈ لائف سنچری میں قومی سطح کے مشہور اور نایاب جانور مار خور کی آبادی میں بھی تشویشناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے اور وائلڈ لائف محکمے کے اعلی ترین افسران اس پورے معاملے پر پراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جو یقینی طور پر قابل افسوس اور مذکورہ محکمہ کی اعتباریت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بھی ہے ۔