سرینگر ۱۷، مئی ؍کے این ایس ؍ ریاستی سرکارکی جانب سے شہرکے مضافاتی علاقہ زکورہ میں 60 کنال سرکاری اراضی مرکزی پولیس فورس یعنی سی آرپی ایف کونناوے سال کیلئے پٹے پرفراہم کئے جانے کے اقدام کیخلاف مین اسٹریم جماعتوں اورلیڈروں نے سخت ردعمل ظاہر کیا ۔ نیشنل کانفرنس کے سینئرلیڈراورپارٹی کے جنرل سیکرٹری علی محمدساگرنے گورنرانتظامیہ کے منتقلی اراضی فیصلے کوسراسرغلط قراردیتے ہوئے کے این ایس کوبتایاکہ یہ عوامی مفادات اورشہری آزادی کے برخلاف لیاگیافیصلہ ہے ۔انہوں نے کہاکہ گورنرانتظامیہ نے یہ غلط فیصلہ لیتے ہوئے قواعدوضوابط کوبالائے رکھنے کیساتھ ساتھ سویلین آبادی کے مفادات کوبھی نظراندازکردیا۔علی محمدساگرکاکہناتھاکہ سویلین آبادی میں کسی بھی فورس کوکیمپ قائم کرنے کیلئے اراضی فراہم قواعدکی سریحاًخلاف ورزی ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہم شہری یاآبادی والے علاقوں میں فورسزکی موجودگی کوکم سے کم کرنے کامطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن گورنرانتظامیہ فورسزکی موجودگی بڑھانے کی پالیسی پرکاربندنظرآتی ہے ۔ این سی جنرل سیکرٹری نے اس صورتحال کیلئے حریف علاقائی جماعت پی ڈی پی کوذمہ دارٹھہراتے ہوئے کہاکہ اگرا س جماعت نے بی جے پی کا ہاتھ اقتدارکیلئے نہ تھاماہوتاتوگورنرراج اس قدرکشمیری عوام پربھاری نہ پڑتا۔انہوں نے کہاکہ پی ڈی پی نے سرکاری اراضی کوفورسزاورفوج سے خالی کرانے کے کئی باروعدے کئے لیکن وہ سبھی وعدے سراب ثابت ہوئے اوراب صورتحال یہ ہے کہ فورسزکومستقل بنیادوں پرکیمپ قائم کرنے کیلئے لیزپراراضی فراہم کی جارہی ہے ۔اُدھرپی ڈی پی کے سینئرلیڈراورسابق وزیرنعیم اخترنے بھی زکورہ سری نگرمیں ساٹھ کنال سرکاری اراضی فورسزکولیزپردئیے جانے کوغلط فیصلہ قراردیا۔نعیم اخترنے کے این ایس کوبتایاکہ آبادی والے علاقہ میں فورسزکیمپ کی موجودگی سے عام شہریوں کی نقل وحمل متاثرہوگی ۔انہوں نے کہاکہ بجائے اسکے کہ سری نگراورکشمیرکے دوسرے علاقو ں میں فورسزکی موجودگی کوکم یاجائے ،گورنرانتظامیہ فورسزکومستقل طورشہری علاقوں میں رکھنے کی غرض سے سرکاری اراضی فراہم کررہی ہے جوکہ سراسرغلط اورناقابل قبول اقدام ہے ۔نعیم اخترکامزیدکہناتھاکہ مود ی سرکارنے کبھی کشمیریوں کے دلوں کوجیتنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس سرکارنے روزاول سے ہی یہاں طاقت کی پالیسی اپنائی اوربقول موصوف زکورہ میں سی آرپی ایف کوچھائونی قائم کرنے کیلئے سرکاری اراضی فراہم کرنااسی خطرناک پالیسی کی ایک کڑی ہے۔
شہریوں کی آزادانہ سرگرمیوں پر لگام کسنے کی کوشش : علی محمد ساگر
طاقت پر مبنی پالیسی کی ایک خطرناک کڑی : نعیم اختراندرابی