سرینگر ۲۳، مئی ؍کے این ایس ؍ سال2014کے پارلیمانی انتخابات میں جب نیشنل کانفرنس کے اُمیدواروں بشمول ڈاکٹرفاروق کووادی کے تینوں پارلیمانی حلقوں میں علاقائی حریف جماعت پی ڈی پی کے اُمیدواروں کے مقابلے میں ناکامی کاسامناکرناپڑا،تولگاکہ یہ اولین علاقائی مین اسٹریم جماعت کشمیروادی کے سیاسی منظرنامے سے غائب ہوتی جارہی ہے لیکن صرف پانچ سال بعدنیشنل کانفرنس کے اُمیدواروں نے پارلیمانی انتخابات میں ایسی شاندارکامیابی دکھائی کہ پوری وادی میں پھر’ہل ‘والاجھنڈالہرایا۔ کشمیرنیو زسروس (کے این ایس) کے مطابق سال 2014کے پارلیمانی الیکشن میں جب نیشنل کانفرنس کے اُمیدواروں بشمول ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو وادی کے تینوں پارلیمانی حلقوں میں علاقائی حریف جماعت پی ڈی پی کے اُمیدواروں کے مقابلے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو لگا کہ یہ اولین علاقائی مین اسٹریم جماعت کشمیر وادی کے سیاسی منظرنا مے سے مکمل طورپر غائب ہوگئی لیکن صرف پانچ سال بعد نیشنل کانفرنس کے اُمیدواروں نے پارلیمانی انتخابات میں ایسی شاندار کامیابی درج کی کہ پوری وادی میں پھر ’ہل ‘ والا جھنڈا لہرانے لگا۔ نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے سری نگر پارلیمانی نشست پھر جیت لی ۔ انہوں نے تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے مدمقابل پی ڈی پی کے آغا سید محسن نے قریب36 ہزارووٹ اور پیپلز کانفرنس کے عرفان رضا انصاری نے قریب 26 ہزار ووٹ حاصل کئے۔ اور دیگر10، امیدواروں میں سے کوئی بھی امیدوار2 ہزار یا2 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپایا ہے۔83 سالہ فاروق عبداللہ کا سیاسی کیریئر قریب4 دہائیوں پر محیط ہے۔ انہیں اپنے طویل سیاسی کیریئر میں پہلی مرتبہ سنہ 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں پی ڈی پی کی ٹکٹ پر انتخابات لڑنے والے طارق حمید قرہ نے 42 ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے ہرایا تھا۔تاہم طارق قرہ نے 2016 میں پی ڈی پی سے الگ ہوکر بحیثیت پارلیمنٹ ممبر استعفیٰ دیا اور پھر 2017میں سری نگر پارلیمانی نشست کیلئے ہوئے خونین ضمنی انتخابات میں ڈاکٹر فاروق کامیاب ہوئے اورانہوں نے اپنے مد مقابل پی ڈی پی اُمیدوار نذیر خان کو 10 ہزار 775 ووٹوں کے فرق سے ہرایا تھا۔اننت ناگ پارلیمانی نشست بھی نیشنل کانفرنس کی جھولی میں چلی گئی کیونکہ یہاں سے پارٹی کے اُمیدوارریٹائرڈجسٹس حسنین مسعودی نے نہ صرف شاندارکامیابی حاصل کی بلکہ انہوںنے پی ڈی پی صدرمحبوبہ مفتی اورکانگریس کے ریاستی صدرغلام احمدمیرکوبڑاسیاسی جھٹکادیا۔نیشنل کانفرنس اُمیدوارکی جیت اس اعتبارسے کافی اہم مانی جائیگی کیونکہ16اسمبلی حلقوں پرمشتمل جنوبی کشمیرکوپی ڈی پی کامضبوط گڑھ سمجھاجاتاہے ۔اُدھر15اسمبلی حلقوں پرمشتمل شمالی کشمیرکی پارلیمانی سیٹ بھی نیشنل کانفرنس نے پھرایک مرتبہ حاصل کرلی ۔این سی اُمیدواراورسابق اسپیکراسمبلی ایڈووکیٹ محمداکبرلون نے بارہمولہ پارلیمانی نشست کیلئے ہوئے چوطرفہ مقابلے میں کامیابی پائی ۔انہوں نے ایک لاکھ32ہزارسے زیادہ ووٹ حاصل کئے جبکہ پیپلزکانفرنس کے اُمیدوارسابق اعلیٰ پولیس افسرراجااعجازعلی نے ایک لاکھ 14ہزارکے لگ بھگ ووٹ پائے ۔عوامی اتحادپارٹی کے صدراورسابق ممبراسمبلی انجینئررشیدجن کواس مرتبہ سابق بیوروکریٹ ڈاکٹرشاہ فیصل کی کھلی حمایت حاصل تھی ،نے تیسرے نمبرپررہتے ہوئے لگ بھگ ایک لاکھ ووٹ حاصل کئے۔پی ڈی پی نے الیکشن سے پہلے ہی اس پارلیمانی حلقے سے اپنی شکست تسلیم کرلی تھی کیونکہ کسی بڑے لیڈرکے بجائے پارٹی نے اس مرتبہ سابق ملازم لیڈرعبدالقیوم وانی کومنڈیٹ دیکرمیدان میں اُتارا،اورقیوم وانی نے کل تقریباً53ہزاررووٹ حاصل کئے جو2014کے پارلیمانی انتخابات میں مظفرحسین بیگ کے حاصل کردہ ووٹوں سے ایک لاکھ 25ہزارکم ہے کیونکہ مظفربیگ نے پچھلے پارلیمانی انتخابات میں بارہمولہ لوک سبھانشست سے کل ایک لاکھ75ہزار277ووٹ لیکرکامیابی حاصل کی تھی ۔
نیشنل کانفرنس 5سال بعدمنظرنامے پردوبارہ چھاگئی
وادی کی تینوں لوک سبھا نشستوں پرپارٹی اُمیدواروں کی جیت درج