ترکہ وانگام شوپیان میں شبانہ شوٹ آئوٹ

پولیس کا جنگجو اور بالائے زمین کارکن کو ہلاک کرنے کا دعویٰ

ترکہ وانگام شوپیان میں شبانہ شوٹ آئوٹ

’’فردوس جنگجو نہیں بلکہ مدرسہ چلا رہا تھا‘‘: اہل خانہ؛علاقے میں مکمل ہڑتال، انٹرنیٹ ٹھپ
شوپیان، کولگام ۳، جون ؍کے این ایس ؍ پولیس نے دعویٰ کرتے ہوئے بتایا کہ مولو چتراگام شوپیان علاقے میں ایک ناکے کے دوران فورسز کا سامنا جنگجوئوں کی ایک پارٹی سے ہوا جس کے بعد مختصر وقفے کی مڈبھیڑ میں 2جنگجوئوں کو جا بحق کردیا گیا تاہم مارے گئے افراد کے اہل خانہ نے پولیس کے دعویٰ کر یکسر مسترد کردیا ہے۔ادھر پولیس نے مارے گئے جنگجوئوں کی تحویل سے قابل اعتراض مواد سمیت اسلحہ و گولہ بارود برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ادھر مارے گئے نوجوانوں کی نعشیں جونہی آبائی علاقوں میں پہنچائی گئیں تو یہاں تمام قسم کے معمولات ٹھپ ہونے کیساتھ ساتھ سڑکوں سے ٹریفک کی نقل و حمل مکمل طور پر غائب ہوئی۔ انتظامیہ نے اس دوران امن و قانون کی صورتحال کو قائم رکھنے کیلئے کولگام اور شوپیان کے چند علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروس کا معمول کے مطابق کریک ڈائون عمل میں لایا۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق پولیس نے سوموار کو دعویٰ کرتے ہوئے بتایا کہ مولو چتراگام شوپیان علاقے میں فورسز کی ناکہ پارٹی نے 2جنگجوئوں کو جابحق کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پولیس نے دعویٰ کرتے ہوئے بتایا کہ اتوار اور سوموار کی درمیانی رات کو پولیس اور فورسز کی مشترکہ ناکہ پارٹی نے ترکہ وانگام شوپیان علاقے میں ایک ناکہ لگایا جس دوران یہاں سے ایک تویرا گاڑی معمول کے مطابق گزری تاہم گاڑی میں سوار افراد نے جونہی فورسز کو دیکھا تو انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ پولیس کے بقول پولیس و فورسز پارٹی نے ترکہ وانگام روڑ پرمصدقہ اطلاع موصول ہونے کے بعد ایک ناکہ لگایا جس کے بعد یہاں سے ایک تویرا گاڑی معمول کے مطابق گزری۔ پولیس ترجمان کے مطابق گاڑی میں سوار اسلحہ برداروں نے پولیس و فورسز کو دیکھتے ہی گاڑی کے اندر سے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کے بعد فورسز اہلکاروں نے بھی مورچہ سنبھالتے ہوئے جوابی کارروائی شروع کی۔ انہوں نے بتایا کہ فورسز کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں فردوس احمد بٹ نامی جنگجو اور اُن کے فعال معاون سجاد احمد جو کہ گاڑی کو چلارہا تھا، جاں بحق ہوگئے۔پولیس کے بقول دونوں مارے گئے بندوق بردار جنوبی کشمیر کے کولگام علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔پولیس ترجمان کے مطابق طرفین کی فائرنگ کے دوران گاڑی میں سوار مزید ایک جنگجو نوجوان نے تاریکی کا فائڈہ اُٹھاتے ہوئے یہاں سے فرار ہونے میں کامیابی حاصل کی۔انہوں نے بتایا کہ فردوس احمد بٹ نامی جنگجو معروف عسکریت پسند تھا جو پولیس و فورسز کو کئی کیسوں میں مطلوب تھا۔پولیس ترجمان نے مزید بتایا کہ مارے گئے جنگجوئوں کی نعشوں کو طبی اور قانونی لوازمات کے بعد ورثا کے سپرد کردیا گیا۔ادھر ایس ایس پی شوپیان سندیپ چودھری نے بتایاکہ فردوس احمد گزشتہ ایک سال سے لاپتہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ فردوس اشتعال انگیز تقاریر کرتا تھا جس کیلئے وہ پولیس کو انتہائی مطلوب تھا۔ ایس ایس پی کے مطابق فردوس نے اپنے ساتھی عرفان احمد جو گزشتہ ماہ فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران مارا گیا، رواں سال کے اپریل مہینے میں حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ادھر مارے گئے نوجوانوں کے رشتہ داروں نے پولیس کے دعویٰ کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔فردوس احمد کے بھائی گلزار احمد نے میڈیا کو بتایا کہ ان کا بھائی ایک دینی مدرسہ چلارہا تھا جس دوران پولیس اور آرمی نے انہیں 5برسوں سے ہراساں و پریشان کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ گلزار احمد کے بقول پولیس اور فوج کا دعویٰ تھا کہ میرا بھائی اشتعال انگیز تقریریں کرتا تھا۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک برس سے میرا بھائی فورسز کی تنگ طلبی سے بچنے کیلئے کبھی ایک جگہ تو کبھی دوسری جگہ امان حاصل کرنے کیلئے جاتا تھا۔ 5اپریل 2019کو ہی فورسز اہلکاروں نے ہمارے گائوں کا محاصرہ عمل میں لاکر میرے بھائی فردوس احمدکو گرفتار کرلیا ، اُس وقت مقامی آبادی نے مزاحمت کرتے ہوئے فورسز پر سنگ باری کی جس کے بعد سے میرا بھائی گرفتاری سے بچنے کیلئے گھر سے دور ہی رہتا تھا۔فورسز نے کئی مرتبہ میرے بھائی کو فون کرکے پولیس تھانوں اور فورسز کیمپوں پر حاضر ہونے کو کہا لہٰذا اُس کی عسکری صفوں میں شمولیت سے متعلق ہمیں کچھ بھی علمیت نہیں ہے۔گلزار احمد نے مزید بتایا کہ میرے بھائی کے مدرسے سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم جو فتح پورہ دیالگام اننت ناگ کا رہنے والا تھا نے لشکر طیبہ میں شامل ہوا جس کے بعد پولیس اور فورسز نے فردوس احمد کو مسلسل ہراساں کرنا شروع کردیا۔ادھر اہل خانہ کیساتھ ساتھ مقامی آبادی نے بھی پولیس کے دعوے کو مسترد کردیا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ فردوس احمد نہ جنگجو تھا اور نہ ہی بالائے زمین کارکن۔مقامی آبادی کے مطابق فردوس احمد ایک دینی مدرسہ چلارہا تھا اور شوپیان میں ادارے کیلئے مالی معاونت کی خاطر گیا ہوا تھا۔اس دوران مارے گئے نوجوانوں کی لاشیں جونہی آبائی علاقے کولگام پہنچائی گئیں تو یہاں آناً فاناً تمام قسم کی معمولات ٹھپ ہوکر رہ گئیں۔ معلوم ہوا کہ نوجوانوں کی ہلاکت سے متعلق خبر پھیلتے ہی ضلع کولگام اور مضافاتی علاقوں میں عوامی، تجارتی، کاروباری اور غیر سرکاری سرگرمیاں پوری طرح سے ٹھپ ہوئیں جبکہ سڑکوں سے گاڑیوں کی نقل و حرکت بھی پوری طرح سے مسدود ہوکر رہ گئیں۔ اس دوران کئی مقامات پر نوجوانوں کی مختلف ٹولیوں نے سڑکوں پر نکل کر پولیس کے دعوے کیخلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے اسلام ا ورآزادی کے حق میں زور دار نعرے لگائے۔ ادھرانتظامیہ نے بھی ضلع کولگام اور شوپیان کے چند علاقوں میں احتیاطی طور پر موبائل انٹرنیٹ سروس پر بریک لگائی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.