سرینگر ۱۱، جون ؍کے این ایس ؍ نیشنل کانفرنس نے مرکزی سرکار کی جانب سے ریاست میں اضلاع کی حد بندی سے متعلق اپنے ردعمل میں بتایا کہ اس قسم کے مطالبات پر 2026تک پابندی عائد کی جاچکی ہے تاہم بی جے پی کی طرف سے ریاست کے تینوں خطوں میں پائی جارہی تفریق کو ختم کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق نیشنل کانفرنس نے مرکزی سرکار کی جانب سے ریاست میں اضلاع کی نئے سرے سے حد بندی پر اپنے رد عمل میں بتایا کہ اس قسم کے مطالبات پر 2016تک پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ پارٹی کے جنرل سیکرٹری علی محمد ساگر کا کہنا ہے کہ سال 2001میں قانون ساز اسمبلی میں تمام سیاسی پارٹیوں نے متفقہ طور پر ایک قرار داد پاس کی جس میں سال 2026تک ریاست میں کسی بھی حد بندی پر پابندی نافذ کی گئی۔خیال رہے مرکزی کابینہ میں بحیثیت وزیر داخلہ امت شاہ نے گزشتہ دنوں ایک متنازعہ بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ جموں وکشمیر میں نئے سرے سے حد بندی عمل میں لائی جائے گی تاکہ صوبہ جموں میں پائی جارہی سیاسی تفریق کا سدباب کیا جاسکے۔بی جے پی کے ریاستی ترجمان الطاف ٹھاکر نے کشمیرنیوز سروس کو بتایا کہ جہاں تک اسمبلی نشستوں کا تعلق ہے صوبہ جموں کیساتھ انتہائی حد تک تفریق برتی جارہی ہے۔الطاف ٹھاکر کے بقول ’’صوبہ جموں میں 29لاکھ ووٹران ہے جبکہ کشمیر میں رائے دہندگان کی تعداد 31لاکھ ہے لیکن صوبہ کشمیر میں 47نشستیں جبکہ جموں میں اس کی تعداد صرف 25ہے جو سراسر سیاسی تفریق کی واضح مثال ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ بی جے پی کا ماننا ہے کہ صوبہ جموں میں نئے سرے سے حد بندی ہونی چاہیے تاکہ اسمبلی نشستوں کی تقسیم سے متعلق کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے، لہٰذا حد بندی ناگزیر عمل ہے۔بی جے پی لیڈر نے اس بات سے صاف انکار کیا کہ پارٹی ریاست میں ہندو وزیر اعلیٰ کو کرسی پر بٹھانے کے حق میں نہیں ہے۔ ہمار امقصد ہے کہ ریاست کے تینوں خطوں کو برابر کا حصہ ملے۔ ہم موجودہ صورتحال سے مطمئن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ تقسیم سے صرف نیشنل کانفرنس، کانگریس اور پی ڈی پی جیسے سیاسی پارٹیوں کو فائدہ ملا ہے جو صرف اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ادھر نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکرٹری علی محمد ساگر نے بی جے پی کی طرف سے حد بندی کے عمل کو جنگ و جدل سے تعبیر کیا ہے۔ساگر نے بتایا کہ موجودہ حالات میں حد بندی کیسے ممکن ہے جبکہ سال 2001میں اس حوالے سے ایک قرار داد بھی پاس کی گئی ہے جس میں 2026تک اس پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ساگر کے بقول اگر بی جے پی ریاست میں حد بندی پر بضد ہے تو ایسے میں انہیں مرکزی کابینہ کے ساتھ صلاح ومشورہ کرنا ہوگا جس کے بعد ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ نیشنل کانفرنس ایسے کسی بھی عمل کی شدید مخالفت کریگی۔ جب حد بندی سے متعلق ریاستی اسمبلی میں بل پاس کی گئی تو اسوقت ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی اس طرح کی قرار دادیں پاس کی گئیں۔
اسمبلی نشستوں کی تقیسم سے متعلق حد بندی معاملے پر بھوال جاری
2026تک سوچنا بھی گناہ: این سی؛سیاسی تفریق کا سدباب لازمی: بی جے پی