ریڈیو کشمیر سرینگر کی شہربین ,کے این ایس میڈیا گروپ اورروزنامہ الحاق کی مشترکہ ٹیم کا لائن آف کنٹرول پر آباد کیرن علاقے کا دورہ,عوامی مسائل کو کیا ریکاڑ .

سرحدی علاقہ “کیرن” میں مواصلاتی نظام کی عدم دستیابی کےباعث لوگوں کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع

ریڈیو کشمیر سرینگر کی شہربین ,کے این ایس میڈیا گروپ اورروزنامہ الحاق کی مشترکہ ٹیم کا لائن آف کنٹرول پر آباد کیرن علاقے کا دورہ,عوامی مسائل کو کیا ریکاڑ .

کیرن لائن آف کنٹرول سے فیاض وانی ……

الحآق رپورٹ ……..لائن آف کنٹرول پر دریائے کشنگنگا کے کنارے پر آباد تحصیل کیرن مواصلاتی نظام کی عدم دستیابی کے سبب پوری دنیاسے کٹ ہو کے رہ گیا ہے جس کی وجہ سے اسکولی بچے ,پڑھے لکھے نوجوان اور کنٹرول لائن پر تعینات فوجی اہلکار شدید ترین مشکلات سے دوچار ہورہے ہیں جبکہ ٹیلی فون کی سہولیات میسر نہ ہونے کے باعث مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ کیرن تحصیل میں سرکاری ملازمین اور افسران شدید ذہنی اضطراب میں مبتلا ہوئے ہیں لیکن نہ کوئی پوچھنے والا اور نہ ہی کوئی سنے والا ہے.ریڈیو کشمیر سرینگر سے نشر ہونے والے عوامی مسائل پر مبنی پرگرام “شہربین “کے این ایس “ میڈیآ گروپ اور روزنامہ الحاق کا مشترکہ ٹیم جس میں ریڑیو کی طرف سے شہربین پرگرام کے سربراہ مقصود احمد , کے این ایس میڈیا گروپ کے ایگزکیٹو ایڈیٹر و مدید اعلی روزنامہ الحاق فیاض وانی ,شہربین کے نمائندے برائے شمالی کشمیر اشفاق سعید ,ریڈیو کے ہی ضمیر اندرابی ,پرمجیت سنگھ وغیرہ شامل تھے نے گزشتہ روز سرحدی تحصیل کیرن کا چار روزہ دورہمکمل کیا اور وہاں پر لوگوں کے مسائل سنے اور ریکاڑ کئے , یہ سن کر آپ کو حیرانگی ہو گی کہ ریاست جموں ئوکشمیر کا ایک سرحدی علاقہ ایسا بھی ہے جہاں کے لوگو ں کو دنیا کے بدلتے حالات کے بارے میں آج کے اس سائنسی دور میں بھی کوئی علمیت نہیں ہے۔سرینگر کی گرمائی راجدھانی سرینگر سے 170کلو میٹر کی دوری پر واقعہ گاؤں کیرن جو صرف 13ہزار نفوش پر مشتمل ہے کی آبادی پچھلے دو ماہ سے موصلاتی نظام کی عدم دستیابی کے باعث نہ اپنے عزیز واقارب سے رابطے میں ہے اور نہ ہی انہیں دنیا کے اس بدلے حالات کے بارے میں کوئی جانکاری ہے اور سرکار ڈیجیٹل انڈیا کے دعویٰ کر رہی ہے ۔کیرن کے لوگوں کا کہنا ہے کہ کئی سال قبل سرکارنے کیرن علاقے میں تین ایس ٹی ڈی بوتھ قائم کئے تاکہ گاﺅں کے لوگ ریاست یا ریاست کے باہر اپنے عزیزوں سے رابطہ قائم کر سکیں لیکن یہ سہولیات 2ماہ قبل اچانک لوگوں سے چھین لی گئی اور ایسے میں یہاں کے لوگ اپنوں سے مہینوں تک بات نہیں کر پاتے ہیں حالت اس علاقے کی ایسی ہے کہ یہاں کے بچوں نوجوانوں اور بڑوں کو وٹس ایپ ، فیس بک ٹوئٹر، اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس کے بارے میں کوئی بھی جانکاری نہیں ہے اور معمولی کام کےلئے ایک فون کال کرنے یہاں کے لوگ پاتروں یا پھر کیرن کئی کلو میٹر دور جاتے ہیں ۔کیرن کی سرپنچ میس انیسہ بٹ کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا انٹر نیٹ اور موصلاتی نظام کی وجہ سے ایک چھوٹے سے گاﺅں میں بدل گئی ہے لیکن یہاں کے لوگ آج بھی اس سہولیات کےلئے ترس رہے ہیں ۔انیسہ کا کہنا تھا کہ مقامی لوگوں نے کئی بار اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا کہ کرناہ اور دیگر سرحدی علاقوں کی طرض پر کیرن میں بھی موبائل ٹاور نصب کر کے یہاں کے لوگوں کو اس سہولیات کے ساتھ جوڑ دیا جائے لیکن کیرن کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔کیرن کے نائب سرپنچ راجہ تسلیم کا کہنا تھا کہ اس قصبہ کیرن کی حالت ایسی ہے کہ یہاں اگر کوئی فوت ہو جائے تو اُن کے گھر والوں کو کئی کئی روز بعد پتا چلا ہے ۔اُس کا کہنا تھا کہ ناگاں کیرن کا ایک بزرگ شہری حالیہ دنوں فوت ہو گیا تاہم اُس کی دو بیٹیوں کو والد کی فوت ہونے کی کوئی خبر تک نہیں ملی اور ایسے میںجب اُن کو خطہ کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا تو اُن پر قیامت ٹوٹ پڑی اور وہ بچیاں اپنے والد کی مرتے وقت شکل تک نہیں دیکھ سکیں ۔راجہ تسلیم کے مطابق آج جب ہر ایک محکمہ کو انٹر نیٹ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے وہیں پولیس سٹیشن کے علاوہ دیگر محکمہ جات بھی اس سہولیات سے محروم ہیں اور یہاں آج بھی خصول معلومات کا ذریعے ریڈیو ہی ہے ۔سکولی بچوں کے فارم آن لائن کر دیئے گے ہیں لیکن کیرن کے بچوں کو کپوارہ نہ صرف فوٹو اٹھانے کےلئے جانا پڑتا ہے بلکہ انہیں اس کےلئے ہزاروں روپے کا خرچہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے ۔فاروق احمد نامی ایک نوجوان کے مطابق یہاں کے جن نوجوان کو ملازمت یا پھر بورڈ اور یونیورسٹی کےلئے فارم داخل کرنے ہوتے ہیں انہیں بھی تاریخوں کے بارے میں کوئی علمیت نہیں ہوتی اور ایسے میں نہ صرف وہ نوکریوں حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ انہیں امتخانات میں بھی شرکت کرنے سے محروم ہونا پڑتا ہے ۔مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ فوجی جوانوں اور پولیس کے اہلکاروں کو بھی پریشانی کی حالت میں دیکھا گیا .میڈیا کے نمائندوں نے جب کیرن میں فوج کی مقامی یونٹ میں ایک ایس ٹی ڈی کال کرنے کی کوشش کی تو دیکھا گیا کہ ایس ٹی ڈی پر فوجی جوانوں کی ایک بڑی تعداد لائنوں میں کھڑا ہو کر ایک فون کال کرنے کےلئے انتظار میں تھی ۔ایک فوجی اہلکار نے بتایا کہ وہ پچھلے 15روز سے اپنے گھر والوں سے بات نہیں کر پایا ہے۔ایک دوسرے فوجی اہلکار نے کہا کہ ہم اس کے حق میں ہیں کہ یہاں انٹر نیٹ سروس کے ساتھ ساتھ موبائل سروس بھی بحال ہو ۔انہوں نے اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ کیرن میں قائم تین ایس ٹی ڈی بوتھ کو بند کر دیا گیا ہے ۔فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں کے لوگوں کو اس سہولیات سے محروم ہیں ۔انہوں نے کہا کہ گرمیوں میں تو یہ لوگ فوج کے ساتھ پیدل آکر رابطہ کر لیتے ہیں لیکن جب یہاں بھاری برف بھاری ہوتی ہے تو یہاں کے لوگوں اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں اور ایسی صورتحال میں انہیں فوج کے ساتھ بھی کوئی رابطہ نہیں رہتا ۔ افسر نے بتایا کہ کیرن میں فوج نے 2 سیول گھروں میں اپنے لاین دی ہے تاکہ سیول آبادی کی پریشانی کے بارے میں انہیں آگاہی مل سکے تاکہ فوج اُن کی مدد کےلئے سامنے آسکے ۔یہاں کے لوگوں کی مانگ ہے کہ انہیں موصلاتی سہولیات فراہم کی جائے تاکہ وہ بھی دینا کے حالات کے بارے میں جانکاری حاصل کر سکیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.