اسمبلی الیکشن سے قبل نئے فرنٹوں کی تشکیل پر لوگوں کے تحفظات

کشمیریوں کے ووٹوں کو تقسیم کرنے کی منصوبہ بند ساز ش قرار دیا

اسمبلی الیکشن سے قبل نئے فرنٹوں کی تشکیل پر لوگوں کے تحفظات

سرینگر ۱۹، جون ؍کے این ایس ؍ اسمبلی الیکشن سے قبل تشکیل پارہے سیاسی فرنٹوں سے متعلق لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ نئے فرنٹوں کی تشکیل سے کشمیریوں کے ووٹ کو منصوبہ بند سازش کے تحت تقسیم کرنا ہے۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق جموں وکشمیر میں اسمبلی الیکشن قریب آنے کیساتھ ہی نئے محاذوں اور فرنٹوں کی تشکیل کا سلسلہ جاری ہے۔ جہاں چند دن قبل مذکورہ فرنٹو ں میں شامل پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے سے نہیں ہچکچاتی تھیں وہیں اسمبلی انتخابات کے قریب آنے کیساتھ ہی شمال و جنوب کا ملن ہونا شروع ہوچکا ہے۔سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی اس نئی روش پر لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسمبلی الیکشن سے قبل اس طرح کے محاذ تشکیل پانا ایک منصوبہ بند پروگرام معلوم ہو تاہے جس کا مقصد کشمیریوں کو مزید تقسیم کرنا مطلوب ہے۔سینئر سیاسی تجزیہ نکار اور آئی یو ایس ٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر صدیق واحد نے کشمیرنیوز سروس کو بتایا کہ جموں وکشمیر کی خصوصی شناخت کی حفاظت کو ممکن بنانے کیلئے کشمیریوں کو چاہے کہ وہ اپنے منڈیٹ کو ضائع ہونے سے بچائے۔ صدیق واحد کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں نئی محاذ کی تشکیل ایک خطرناک طریق کار ہے۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ اگر کشمیری عوام آج کے موقعے پر اپنے مستقبل کی فکر کرتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ اپنے منڈیٹ کو ضائع ہونے بچائیں۔ کشمیریوں کو چاہیے کہ وہ صرف ایک ہی پارٹی تک محدود رہیں تاکہ فریکچرڈ منڈیت سے بچا جاسکے۔ صدیق واحد کے بقول ’’میرا ماننا ہے کہ اس نام نہاد اتحاد کا مقصد پانی کو مزید آلودہ بنانا ہے‘‘۔ پروفیسر واحد کا کہنا تھا کہ نئے تشکیل پارہے فرنٹوں کے پس پردہ بی جے پی کے رول کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ انہوں نے بتایا کہ اسمبلی الیکشن سے قبل اس طرح کے محاذ کا تشکیل پانا ایک منصوبہ بند پروگرام معلوم ہوتا ہے جس کے پیچھے بی جے پی کے رول کو خارج از امکان قرارنہیں دیا جاسکتا۔انہوں نے بتایا کہ نئی دہلی کی ہمیشہ سے یہی پالیسی رہی ہے کہ کشمیریوں کو تقسیم در تقسیم کیا جائے۔ ادھر کشمیریونیورسٹی میں شعبہ پولیٹکل سائنس کے سربراہ گل محمد وانی نے کشمیر نیوز سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب ریاست براہ راست مرکز کے کنٹرول میں ہوگی تو ایسے میں شکوک و شبہات بڑھ جاتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ موجودہ صورتحال میں عوام کے اندر شکوک و شبہات مزید تقویت پارہے ہیں کہ مرکزی حکومت جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات کو معنقد کرانے کے حق میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر میں پنچایتی، بلدیاتی اور پارلیمانی انتخابات منعقد کئے مگر اسمبلی الیکشن کے حوالے سے مرکزی سرکار سرد مہری کا مظاہرہ کررہی ہے جس سے شکوک و شبہات کا بڑھ جانا لازمی امر ہے۔انہوں نے بتایا کہ موجودہ حالات میں اسمبلی الیکشن کے انعقاد میں روڑے اٹکانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔گل محمد وانی کا کہنا تھا کہ پہلے سے موجود سیاسی پارٹیوں نے جموں وکشمیر میں جمہوریت کو پنپنے کا موقعہ نہیں دیا اسی لیے آئے روز نئے فرنٹ یا محاذ تشکیل پارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اندرونی سطح پر جمہوریت کی عدم موجودگی کے باعث سیاسی لیڈران اور گروپوں نے نئے محاذ تشکیل دینا شروع کردئے ہیں۔ انہوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ اندرونی سطح پر جمہوریت کی عدم موجودگی کے نتیجے میں ہی سیف الدین سوز نے نیشنل کانفرنس سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور پی ڈپی پی میں موجودہ انتشار بھی اسی سلسلے کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ جب پہلے سے موجود سیاسی پارٹیاں ذاتی جاگیر بن جاتی ہیں تو یہاں سے لوگوں کا انخلا ایک فطری عمل ہے۔گل محمد وانی کے بقول این سی، پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس جیسی سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر نظریاتی اور سیاسی اسپیس کو پنپنے کا موقعہ دیں اور ساتھ ہی موزوں اور مناسب قیادت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔خیال رہے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی وادی کشمیرمیں نئے سیاسی فرنٹوں کی تشکیل پر سوال کھڑا کرتے ہوئے اسے کشمیریوں کے ووٹ کو تقسیم کرنے کی سازش سے تعبیر کیا ہے۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ نئے فرنٹ یا محاذ جموں یا لداخ صوبوں میں تشکیل کیوں نہیں پارہے ہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published.