علیحدہ علیحدہ انتخابات بے معنی و بے سود: بی جے پی
سرینگر ۲۱، جون ؍کے این ایس ؍ ریاست جموں وکشمیر میںقانون ساز اسمبلی کی مدت کار میں ممکنہ تخفیف پر سیاسی و غیر سیاسی حلقوں میں ایک نئے بحث نے جنم لینا شروع کردیا ہے جس کے نتیجے میں عوامی حلقوں میں اس طرح کی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ادھر علاقائی مین اسٹریم سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نے قانون سازاسمبلی کو تخفیف یا بڑھوتری کیلئے مختار کل قرار دیا جبکہ بھاتیہ جنتا پارٹی کا ماننا ہے کہ ایک ملک میں علیحدی علیحدہ انتخابات بے معنی اور بے سود ہے۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق ریاست جموں وکشمیر میں قانون ساز اسمبلی کی مدت کار میں ممکنہ تخفیف پر سیاسی و غیر سیاسی حلقوں میں ایک نئے بحث نے جنم لینا شروع کردیا ہے جسکے نتیجے میں عوامی حلقوں نے معاملے کی نسبت اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے جدید نعرے ’’ایک ملک، ایک انتخاب‘‘ نے جموں وکشمیر کے سیاسی و غیر سیاسی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے جس کے نتیجے میں عوامی حلقوں کے اندر قانون سازاسمبلی کی مدت کار میںتخفیف سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس دوران علاقائی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کا ماننا ہے کہ جو ریاست وفاقی آئین میں خصوصی پوزیشن کی حامل ہو، وہاں قانون ساز اسمبلی کی مدت کار میں تخفیف اور ایک ملک، ایک انتخاب جیسے نعرے فرسودہ قرار پاتے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کا ماننا ہے کہ اسمبلی کی مدت کار میں تخفیف عمل میں لانا صرف قانون ساز اسمبلی کے حد اختیار میں ہے۔ادھر سیاسی تجریہ کاروں کا ماننا ہے کہ جموں وکشمیر اسمبلی کی مدت کار میں تخفیف عمل میں لانے جیسا نعرہ وزیرا عظم نریندر مودی کی طرف سے ریاست کی خصوصی پوزیشن پر ایک اور حملے کی کڑی ہے۔ سینئر سیاسی تجزیہ نگار وں کا ماننا ہے کہ اگر ایک ملک، ایک انتخاب حقیقت بن گیا تو ریاست میں اسمبلی کی مدت کار 6سال سے کم ہوکر 5سال ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی سرکار کی پالیسی جموں وکشمیر کے حوالے سے انتہائی خطرناک ہے اور وہ ریاست کو وفاقی حکومت کے ساتھ ہمیشہ کیلئے مدغم کرنا چاہتی ہے۔ اس دوران معلوم ہوا ہے کہ نریندر مودی کی سربراہی میں 19جون کو نئی دہلی میں منعقدہ کل جماعتی اجلاس میں تمام سیاسی پارٹیوں کو اس حوالے سے تبادلہ خیال کرنے کی دعوت دی گئی جس دوران اجلاس میں 40میں سے 30شریک پارٹیوں نے نریندر مودی کی مکمل حمایت کی ۔ اس دوران نیشنل کانفرنس صدر اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کل جماعتی اجلاس کے دوران شریک سیاسی پارٹیوں پر واضح کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم کے نئے نعرے ’’ایک ملک ، ایک انتخاب‘‘ کو دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ اس سے وفاق کے طریق کار پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے دبے الفاظ میں ہی اس بات کا اعلان کیا کہ نریندر مودی کے نئے فارمولے سے نیشنل کانفرنس ناراض نہیں ہے کیوں کہ انہوں نے نہ ہی اس کی سرے سے مخالفت کی بلکہ صرف اس کا سرسری جائزہ لینے کی وکالت کی۔کشمیر نیوز سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے پارٹی کے جنرل سیکرٹری علی محمد ساگر نے بتایا کہ ’’ایک ملک، ایک انتخاب‘‘ تب ہی حقیقت میں تبدیل ہوسکتا ہے جب اس کیلئے ریاست کی قانون ساز اسمبلی کوئی آرڈیننس سامنے لائیگی۔ انہوں نے بتایا کہ ریاستی قانون میں تحریف عمل میں لانے کے بعد ہی اس طرح کا نعرہ عملی شکل اختیار کرسکتا ہے۔علی ساگر کا کہنا تھا کہ جونہی ریاستی اسمبلی میں آئین میں درج شق کی ترمیم کی جائیگی تب ہی اسمبلی کی مدت کار میں تخفیف ممکن ہے۔ ادھر کانگریس لیڈر نے معاملے پر بولتے ہوئے کہا کہ پہلے پہل پارٹی تمام قواعد کا گہرائی سے مطالعہ کریگی جس کے بعد ردعمل پیش کیا جائیگا۔ اس دوران بی جے پی کے ریاستی ترجمان الطاف ٹھاکر نے کشمیرنیوز سروس کو بتایا کہ ’’ایک ملک، ایک انتخاب‘‘ کا بنیادی مقصد ملک بھر میں انتخابات سے جڑے اخراجات میں کمی لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست جموں وکشمیر کے ماسوا تمام ریاستوں میں الیکشن میں صرف کئے جانے والے اخراجات میں توازن پایا جاتا ہے تاہم ’’ایک ملک، ایک انتخاب‘‘ کو نافذ العمل کرنے کے بعد ملک بھر کی ریاستوں میں انتخابی اخراجات میں توازن برقرار رہیگا۔انہوں نے بتایا کہ ’’ایک ملک، ایک انتخاب‘‘ کا خصوصی پوزیشن کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
قانون ساز اسمبلی کی مدت کار میں تخفیف کا معاملہ
فیصلے کی مختارقانون ساز اسمبلی : نیشنل کانفرنس