سرینگر ۲۴ ، جون ؍ کے این ایس ؍ سی پی آئی (ایم) کے ریاستی لیڈر اور سابق ایم ایل اے کولگام محمد یوسف تاریگامی نے ریاستی سرکار پر زور دیا ہے کہ وہ مسکولر اپروچ کے بجائے عوام دوست اقدامات اختیار کرتے ہوئے لوگوں کے اندر احساس بیگانگی کو دور کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اُٹھائیں۔تاریگامی نے بتایاکہ شاہراہ پر سفر کرنے کے دوران مسافروں کو تلاشی لینے کے دوران انتہائی تذلیل کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کے اندر خوف و ہراس کا ماحول پھیل گیا ہے۔ کشمیر نیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق سی پی آئی (ایم) کے ریاستی لیڈر اور سابق ایم ایل اے کولگام محمد یوسف تاریگامی نے گورنر انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ مسکولر اپروچ کے بجائے عوام دوست اقدامات اختیار کریں۔ انہوں نے بتایا کہ عوام پر تشدد ڈھانے اور ظلم و جبر کی پالیسی کو جاری رکھنے سے لوگوں کے اندر مزید بیگانگی اور اجنبیت کا احساس بڑھے گا۔ تاریگامی کے بقول ’’جنوبی کشمیر کے اننت ناگ، کولگام، پلوامہ اور شوپیان میں جولائی 2016کے بعد صورتحال بد سے بدتر ہوچکی ہے۔ 3سال کا عرصہ گزرنے کے باجود یہاں صورتحال میں کوئی نمایاں تبدیلی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئے روز جنوبی کشمیر میں نوجوان عسکری صفوں میں شامل ہورہے ہیں‘‘۔انہوں نے ریاستی سرکار سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی کشمیر میں بھاری تعداد میں فوج کو تعینات کرنے کے باوجود بھی صورتحال جوں کی توں کیوں ہے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ریاستی سرکار نے عوام دوست اقدام کے بجائے مسکولر اپروچ کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہے۔ انہوں نے گورنر کی قیادت والی سرکار کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ظلم و جبر والی پالیسی کا دوبارہ جائزہ لے کر عوام کو اس گھمبیر صورتحال سے باہر نکالیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر اُمور سے متعلق پالیسی ترتیب دینے والوں کو یہاں کی خراب صورتحال کا جواب دینا چاہیے۔ ہر روز نوجوانوں کو گرفتار کرنے اور ماردھاڑ سے امن کو بحال نہیں کیا جاسکتا؟انہوں نے کہا فورسز کی طرف سے بے تحاشہ نوجوانوں کو گرفتار کرنا، شبانہ چھاپہ مار کاروائیاں عمل میں لانا اور عوام کو عدم تحفظ کا احساس دلانے سے خطے میں غیریقینی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ اس طرح کا طریق کار پہلے بھی عملایا گیا ہے تاہم اُس وقت حکومت کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ سرکار کی ان ناقص اور عوا م دشمن پالیسیوں سے صورتحال میں تبدیلی آنے کے بجائے عوام بالخصوص نوجوانوں کے اندر مزید غصہ پیدا ہوگا۔انہوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ 90کی دہائی میں بھی لوگوں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کیا گیا تاہم اُس وقت صورتحال میں سدھار آنے کے بجائے مزید الجھائو پیداہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کا طریق کار ماضی میں بھی بری طرح سے ناکام ہوچکا ہے اور مستقبل میں بھی یہ حالات کو مزید بدتر بنانے کا باعث ہوگا۔اسی طرح نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو کالے قوانین کے تحت گرفتار کرلیا گیا ہے۔ عدالت کی طرف سے انہیں رہائی کے احکامات بھی ملے ہیں تاہم پھر بھی ان کی اسیری کوبلاوجہ طول دیا جارہا ہے۔انہوںنے کہا کہ عدالت نے جن نوجوانوں کو رہا کردیا ، پولیس انہیں دوبارہ گرفتار کرہی ہے اور ان پر دوبارہ سے پی ایس اے کے تحت جیل بھیجا جارہا ہے۔ کشمیرنیوز سروس کے مطابق تاریگامی نے بتایاکہ شاہراہ پر سفر کرنے کے دوران مسافروں کو تلاشی لینے کے دوران انتہائی تذلیل کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کے اندر خوف و ہراس کا ماحول پھیل گیا ہے۔ تاریگامی کے بقول سیکورٹی فورسز کی سلامتی بھی ضروری ہے تاہم اس کیلئے عام لوگوں کو پریشان و ہراساں نہیں کیا جانا چاہیے۔ شاہراہ پر سفر کرنے والے مریضوں، طلبا، ملازمین، تجار اور دیگر لوگوں کو ہر روز آنے اور جانے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کے اندر خوف و دہشت کا ماحول پید اہوا ہے۔
مسکولر اپروچ کے بجائے عوام دوست اپنے کی ضرورت
شاہراہ پر تلاشی کے بہانے لوگوں کی تذلیل ناقابل قبول: تاریگامی