گورنر انتظامیہ کے اقدام کی سراہنا،لوگ مسائل کے حل کے حوالے سے پر امیُد
سرینگر ۱، جولائی ؍ کے این ایس ؍ گورنر انتظامیہ کی جانب سے ایک ہفتے کے طویل’’بیک ٹو ولیج‘‘پروگرام کومنعقد کرنے کے بعد ریاست جموں کشمیر کے دیہی علاقوں کی آبادی میں ایک اُمید کی کرن جاگ اُٹھی ہے کہ شائد دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر آبادی کی شکایات کو عوام کی اُمنگوں کے مطابق حل کیا جا ئے گا۔ گزشتہ کئی برسوں سے تعمیر و ترقی میںسب سے زیاد پسماندہ رہنے والے جنوبی کشمیر کے اکثر گاؤںاور دیہات کے لوگ درپیش مسائل کے حوالے سے پروگرام کو منعقد کرنے کے بعد پر امیدنظر آ رہے ہیں۔ادھر لوگوں نے گورنر انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ مذکورہ پروگرام کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے سیاسی مداخلت کو بالائے طاق رکھا جائے۔کشمیر نیوز سروس (کے این ایس )کے مطابق ریاست جموں کشمیر میں گورنر اور صدر راج کے دوران گور نر انتظامیہ کی جانب سے دہی آبادی کو درپیش مسائل جانے اور انہیں حل کرنے کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی کے پروگرام کو ترتیب دینے کے لئے ’’بیک ٹو ولیج‘‘ نامی ایک ہفتے کے طویل پروگرام کوکو22سے 27جون تک منعقدگیا ہے جس دوران سیول انتظامیہ میں شامل افسران کی ٹیمیں ریاست کے ہر دہی علاقے میں پہلی بار عوام کو درپیش مسائل اور مشکلات سننے ،مقامی آبادی کے اسرار پر ہی تعمیراتی پروجیکٹ کے منصوبے تیار کئے گئے ہیںجس میں جگہ جگہ پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے بڑے پیمانے پر شرکت کی ہے ۔جو غالباً ریاست جموں کشمیر کی تاریخ میں گور نر راج کے دوران پہلی بار ہوا ہے جس دوران پرو گرام پورے ہفتے کے دوران جگہ جگہ لوگوں کی بڑی بڑی جماعتیں مساجد کے صحن،سکول اور پارکوں میں انتظامیہ کو اپنے شکایات سنانتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔عوام کے سامنے عجیب اور منفرد پروگرام کی بڑے پیمانے پر عوامی حلقوں میں سراہا جا رہا ہے ۔پرگرام کے حوالے سے جب کی مقامات پر اس نمائندے نے سماج کے زی حس لوگوں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا آغازاچھا ہے لیکن انجام خدا جانے ؟۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ وادی کے باقی دور افتادہ علاقوں کے ساتھ ساتھ جنوبی کشمیر میں کزشتہ کئی سال کی نا مسائد حالات کے دوران کوئی بھی سیاسی سرگرمی نہیں ہو سکی اور سرکار عوام تک نہیں پہنچی حتی ٰ سرکاری افسران نے بھی وقت کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کے قریب جانے کی زحمت گوار نہیں کی ہے جس کے نتیجے میں عوام طرح طرح کے مشکلات سے دو چار ہوئی۔جبکہ گورنر انتظامیہ کی جانب سے منعقدہ بیک ٹو ولیج پروگرام میں لوگوں نے ایک امید لے کر اچھی خاصی تعداد میں حصہ لے کر حکام کو روز مرہ کے ضروریات کے حوالے سے دل کھول کر بات کی ۔جس دوران لوگوں کا پروگرام کے حوالے سے مثبت سوچ رکھنے کے علاوہ کافی امیدیں وابستہ ہیں ۔تاہم عوام کے ساتھ ہوئے سابق سرکاروں کے دور میں ہوئی نا انصافیوں اور زبانی وعدوںکی وجہ سے عوام کے دلوں میں طرح طرح کے خدشات بھی پاے جاتے ہیں کہ آیا واقعی یہ قدم عوام کے لئے سود مند ثابت ہوگا یا بس ایک خالی قدم ہی تھا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ گورنر راج کے اپنے الگ الگ فائدہ اور نقصانات ہو سکتے ہیں تاہم یہ بات صاف ہے کہ مزکورہ راج میں متحرک انتظامیہ کے باوجود لوگ دہی علاقوں کے لوگ طرح طرح کے مشکلات سے دو چار ہیں جہاں تعمیراتی پروجیکٹس کی سال سے رکے پڑے ہیں جس کے نتیجے میں عوام کی آواز صدا بہ صحرا ہونے عام لوگ گورنر انتظامیہ تک براہ راست اپنے مشکلات پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں جبکہ بیک ٹو ولیج پروگرا م میں جن شکایات کو حکام یا سراری افسران نے سنا ہے گورنر انتظامیہ کو یہ بھی ایک منفردانداز میں ہی ان شکایات کو حل کر کے ریاستی عوام کے سامنے ایک نئی مثال قائم کرنی ہوئی گی ورنہ گورنر انتظامیہ بھی یہاں کے سیاست دانوںکی طرح عوام کے سامنے بے مطلب ہو کر رہ جائیں گے ۔خیال رہے ریاست جموں کشمیر میں اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد گورنر راج اور اب صدر راج کا نفاذ ہے جس کے نتیجے میں عوام لوگوں کی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران تک پہنچ نہیں ہے جو عوام کے لئے انتہائی پریشان کن ثابت ہو رہا ہے ۔
’’بیک ٹو ولیج‘‘ آغاز اچھا ہے،انجام خدا جانے
سنی گئی شکایات کو حل کرنا انتظامیہ کے لئے امتحان