کرناہ کے دھنی سعدپوہ گائوں کے کسانوں کو کھیتوں کی سنچائی کےلئے پانی حاصل کرنے میں ایک بار پھر دقتیں پیش آرہی ہیں اور سینکڑوں کنال آراضی بنجر میں تبدیل ہو نے کا خدشہ لاحق ہو گیا ہے ۔مقامی لوگوں نےالحآق ٹیم کو بتایا کہ دو برس قبل لوگوں کو اس مشکلات سے نکالنے کےلئے فوج نے قریب 70لاکھ کی لاگت سے ایک سکیم شروع کی جس کا مقصد تھا کہ لوگوں کےکھیتوں کو اپنے ہی علاقے میں داخل ہونے والے نالہ کاجی ناگ سے پانی فراہمکیا جائے سکیم کے تحت محکمہ اریگیشن اینڈ فلڈ کنٹرول نے ابھی فوج کی مدد کرتے ہوے سدبھاونہ کے تحت پائب نصب کر کے ایک جرنیٹرموٹر بھی عوام کے نام وقف کی لیکن اب حالت ایسی ہے کہ موٹر چلانے کےلئے کوئی تربیت یافتہ ملازم ہی دستیاب نہیں ہے جس کےسبب آبادی کے کھیت ایک بار پھر پانی نہ ملنے کی وجہ سے خشک سالی کا شکارہو کر سڑ رہے ہیں ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں کئی مرتبہانتظامیہ کو بھی آگاہ کیا لیکن اس کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے ۔مقامی لوگوں کے مطابق پچھلے سال سکیم کے تحت نالہ سےکھتوں تک پہلے پلاسٹک کے پائپ نصب کئے گے جو ناکام ہو گئے اور بعدمیں200لوہے کے پائپوں کے ذریعے پانی کو کاجی ناگ سے کھتوں تک پہنچایاگیالیکن اب نصب کی گئی مشینوں کو چلانے والا کوئی تربیت یافتئہ ملام بھی موجود نہیں ہے ۔ معلوم رہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے دھنی اور سعدپورہ ایسے علاقے ہیں جہاں کے کھتوں کو کئی برسوں تک پاکستانی زیر انتظام کےلوگ پانی فراہم کرتے تھے ۔مقامی لوگوں کے مطابق فضلوں کی بوئی کے دوران ہروقت فوج کی جانب سے ایک فلیگ میٹنگ اُس پار کی افوج کے ساتھ ہوتی تھی جس کے بعد یہاں سے گاﺅں والے اور وہاں کے گاﺅں والے آر پار ایک دوسرے سےملاقی ہوتے تھے اور پھر پانی کے حوالے سے بات ہوتی تھی اس دوران اگر وہاں کے لوگوں کو سعدپورہ آرہی کوہل کو ٹھیک کرنے کےلئے پیسے کی ضرورت ہوتی تھی وہ اُس کی مانگ کرتے تھے پھر کوہل کو ٹھیک کر کے پانی اس طرف پہنچاتےتھے اور یہ سلسلہ کئی برسوں تک جاری رہا ۔مقامی لوگوں نے سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ یا تو انہیں سکیم کے ذرایعے ہی پانی فراہم کیا جائے یا پھرسرحد پار کے لوگوں کے ساتھ ایک فلیگ میٹنگ کی جائے تاکہ یہاں کے لوگوں کو کھتوں کی سنچائی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ادھر گبرہ مڈیاں کے لوگوں نے محکمہ آر اینڈ بی پر الزام عائد کیا ہے کہ محکمہمنڈیاں کو گبرہ سے جوڑنے والے پل پر کام مکمل کرنے میں بری طرح سے ناکامہوا ہے اور یہ پل پچھلے 18برسوں سے تشنہ تکمیل ہے ۔مقامی لوگوں کا کہناہے کہ پل کی مرمت کے نام پر ابھی تک لاکھوں روپے نکالے گے لیکن پل کیبنیادیں تک کھڑا نہیں کی جا سکیں ۔منڈیا کے لوگوں کے مطابق پل کی عدمدستیابی کے سبب سکولی بچوں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی کئی کلو میٹر کی مسافت تہہ کر کے سکولوں اور دیگر کاموں پر جاتے ہیں ۔
ReplyForward
|