افغانستان میں مذاکرات ممکن تو کشمیر پر کیوں نہیں ؟

شاہراہ پر پابندی سے متعلق انتظامیہ کا بیان گمراہ کن: ڈاکٹر فاروق عبداللہ

افغانستان میں مذاکرات ممکن تو کشمیر پر کیوں نہیں ؟

ہندوستان آج وہ ملک نہیں وہ 1947میں تھا
سری نگر 11، جولائی ؍کے این ایس ؍ نیشنل کانفرنس صدر اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بات چیت کو واحد راستہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دیرینہ مسئلہ آج بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان لٹکا ہوا ہے اور جو عناصر اس کو نظر انداز کرتے چلے آرہے ہیں وہ خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگر مسئلہ کشمیر نہیں ہوتا تو یہاں اقوام متحدہ کے مبصر نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ معاملہ اقوام متحدہ میں موجود ہوتا۔ڈاکٹر فاروق عبداللہنے انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ گورنر انتظامیہ دعویٰ کرتی ہے کہ شاہراہ پر کوئی پابندی نہیں جو سراسر بے بنیاد ہے۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق نیشنل کانفرنس صدر اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جمعرات کو نسیم باغ درگاہ حضرتبل میں مادرمہربان کی 19ویں برسی کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بات چیت کو واحد راستہ قرار دیا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ یہ مسئلہ آج بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سب سے بڑا تنازعہ ہے اور جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں وہ خواب غفلت میں ہیں ۔ اگر کشمیر کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تو یہاں اقوام متحدہ کے مبصر نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ معاملہ اقوام متحدہ میں ہوتا۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت کے علاوہ آر پار کشمیریوں میں بھی مذاکرات ہونے چاہئیں اور ایک ایسا حل نکالنے کی ضرورت ہے جو سب کو قابل قبول ہو اور کسی کو ہار کا احساس نہ ہو۔ مسئلہ کشمیر کو ایک حقیقت سے تعبیر کرتے ہوئے این سی صدر نے بتایا کہ طاقت اور دھونس دبائو کی پالیسی سے اس مبرہن حقیقت کو بدلا نہیں جاسکتا۔ جب تک اس کا فیصلہ عوامی اُمنگوں کے عین مطابق نہیں ہوتا تب یہاں کے حالات میں سدھار کی کوئی اُمید نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی سرکار پاکستان کے ساتھ بات چیت کیلئے دہشت گردی کو مشروط کرتی ہے، جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ ا انہوں نے کہا کہ افغانستان کا مسئلہ حل ہونے کو ہے، وہاں دونوں طرف سے گولیاں چل رہی ہیں لیکن مذاکرات کا سلسلہ برابر چل رہا ہے۔ اگر افغانستان میں یہ پالیسی اختیار کی جاسکتی ہے تو یہاں ایسا نہیں ہوسکتا۔ اُن کا کہنا تھا کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کے حل کیلئے پاکستان سمیت تمام متعلقین کیساتھ بات چیت کرنی ہی ہوگی۔ملک کی موجودہ حالت کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ہندوستان آج وہ ملک نہیں جو 1947میں تھا، آج ہندوستان وہ ملک نہیں رہا جو ہندو، مسلم، سکھ ، عیسائی ، بودھ اور سب کیلئے برابر تھا، آج ملک کا نقشہ بدلنے کی مذموم کوششیں کی جارہیں، ملک کو ایک ہندو راشٹرا بنایا جارہا ہے، ایسے میں ہمیں اتحاد و اتفاق کیساتھ رہ فرقہ پرستی پر مبنی اس سوچ کو ناکام بنانا ہے۔ ‘‘کشمیرنیوز سروس کے مطابق بڑھتی ہوئی مہنگائی پر مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ’’یہ لوگ ’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ کے نعرے لگاتے ہیں لیکن دوسری جانب بجٹ میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں پر مزید ٹیکس عائد کرتے ہیں، جس کا براہ راست اثر غریب عوام پر پڑے گا۔ ایسے میں سب کا وکاس کیسے ہوسکتا ہے؟ غریبی کیسے دور ہوسکتی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے اکثریت کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر غریبوں پر مزید بوجھ ڈالا۔ شاہراہ پر پابندیوں کو مکمل طور ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ گورنر انتظامیہ دعویٰ کرتی ہے کہ شاہراہ پر کوئی پابندی نہیں جو سراسر بے بنیاد ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے عام ٹریفک کو جگہ جگہ پر کئی کئی گھنٹوں تک روکا جاتا ہے۔ انتظامیہ کو ایسی غلط بیانی سے پرہیز کرنا چاہئے اور فوری طور پر ان پابندیوں کو ختم کیا جانا چاہئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.