دفعہ35اے ہٹایا گیا تو صدارتی حکمنامے کے ذریعے لاگو کئے گئے تمام قوانین کو بھی خارج کرنا ہوگا
ہندوارہ 20 ، جولائی ؍کے این ایس ؍ نیشنل کانفرنس صدر اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ دفعہ370آئین ہند میں درج ہے جبکہ 35اے کو صدارتی حکمنامے کے ذریعے جموں وکشمیر پر نافذ کیا گیا ہے اور جو لوگ ان دفعات کو ہٹانے کی باتیں کرتے ہیں وہ تاریخ اور آئین سے نابلد ہے۔انہوں نے کہا کہ دفعہ370تب تک ختم نہیں کیا جاسکتا جب تک نہ مسئلہ کشمیر حتمی طور حل ہوجائے اور اگر35اے کو ہٹایا گیا تو مرکز کو وہ تمام قوانین بھی خارج کرنے ہونگے جو صدارتی حکمناموں کے ذریعے جموں وکشمیر پر نافذ کئے گئے ہیں۔کشمیر نیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق نیشنل کانفرنس صدر اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے سنیچرکو سرحدی قصبہ ہندوارہ میں ایک فقید المثال پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ370آئین ہند میں درج ہے جبکہ 35اے کو صدارتی حکمنامے کے ذریعے جموں وکشمیر پر نافذ کیا گیا ہے اور جو لوگ ان دفعات کو ہٹانے کی باتیں کرتے ہیں وہ تاریخ اور آئین سے نابلد ہے۔انہوں نے کہا کہ دفعہ370تب تک ختم نہیں کیا جاسکتا جب تک نہ مسئلہ کشمیر حتمی طور حل ہوجائے اور اگر35اے کو ہٹایا گیا تو مرکز کو وہ تمام قوانین بھی خارج کرنے ہونگے جو صدارتی حکمناموں کے ذریعے جموں وکشمیر پر نافذ کئے گئے ہیں۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ بڑے بڑے مرکزی لیڈران آج کہتے پھرتے ہیںکہ دفعہ 370عارضی ہے، ہماری لڑائی یہی ہے کہ جو ہمارے ساتھ وعدے کئے گئے ہیں اُن کی طرف دیکھئے، دفعہ370کیوں عارضی ہے یہ سمجھے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہندوستان اور پاکستان دو ملک بن گئے تو کشمیر کا فیصلہ نہ ہوسکا،ہمارے مہاراجہ فیصلہ نہ کرسکے، انہوں نے کوشش کی کہ یہ ریاست آزاد رہے اور دونوں ممالک کیساتھ اچھے رشتوں میں رہے لیکن مہاراجہ کو بعد میں الحاق کرنا پڑا اور اس ریاست کے تشخص کو بچانے کیلئے مشروط الحاق کیاگیا جس نے بعد میں دفعہ370کی صورت اختیار کرلی اور اُسی وقت یہ قرار پایا گیا کہ جب تک جموں وکشمیر کا آخری فیصلہ نہیں ہوگا تب تک یہ دفعہ قائم رہے گی اور جموں وکشمیر کا حتمی فیصلہ آج تک نہیں ہواہے، جب تک وہ فیصلہ نہیں ہوگا تب تک دفعہ370کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔کشمیرنیوز سروس کے مطابق ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ــاس کے علاوہ یہ لوگ ہمیں35اے ہٹانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں،یہ قانون1927میں مہاراجہ ہری سنگھ نے لایا ہے، مہاراجہ نے یہ قانون کشمیر یا لداخ کیلئے نہیں بلکہ جموں میں ڈوگری شناخت کو بچانے کیلئے لایا تھا کیونکہ اُنہیں خدشہ تھا کہ پنجابی جموں آخر وہاں غلبہ حاصل کرلیں گے۔ اس قانون کو آزادی کے بعد صدارتی حکمنامے کے تحت دفعہ35اے کے ذریعے ریاست پر نافذ کیا گیا۔ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ 35اے کو ہٹادیں گے تو انہیں وہ تمام قوانین ہٹانے پڑیں گے جو وقت وقت پر صدارتی حکمناموں کے ذریعے ریاست پر نافذ کئے گئے ہیں۔نئی دہلی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ دہلی والوں کی یہی کوشش ہے کہ جموں وکشمیر میں نیشنل کانفرنس کی حکومت قائم نہ ہو کیونکہ وہ ہماری جماعت سے خوفزدہ ہیں کیونکہ ہم جھکنے والے نہیں ہے۔ باقی جماعتوں اور لوگوں کو انہوں نے خرید لیا ہے، جن کے بڑے بڑے بیانات اخبارات میں پڑھنے کو ملتے ہیں وہ انہی کے آلہ کار ہیں اور ان لوگوں کو کشمیر کے تشخص کو بچانے کیساتھ کوئی لینا دینا نہیں، ان کا واحد مقصد کرسی پر بیٹھنا ہے ، پھر چاہئے اس کیلئے انہیں کوئی بھی حد کیوں نہ پار کرنی پڑے، اگر ان کو تشخص بچانے کی فکر ہوتی تو وہ آج ہماری صفوں میں شامل ہوکر قوم کو بچانے کیلئے کھڑے ہوتے کیونکہ اس بات میں کوئی دورائے نہیں کی نیشنل کانفرنس جموںوکشمیر کے مفادات اور احساسات کے تحفظ کی واحد ضمانت ہے۔اس دوران ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ضلع کے آوورہ کپوارہ میں یونسیہ کے آستان عالیہ پر حاضری دی جہاں ان کا والہانہ خیرمقدم کیا گیا۔ اس موقعے پر زیارت گاہ پر ملک و ملت کی عزت و آبرو، خوشحالی، ترقی اور امن و امان کیلئے خصوصی دعا کی گئی۔ بعد میں زائرین کے ایک بھاری اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا جب تک مروجہ تعلیم کے ساتھ دینی اور اخلاقی تعلیم کا نظام رائج نہیں ہوگا تب تک ہمارا روشن اور کامیاب مستقبل ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم سے آراستہ کرنا والدین کی پہلی ذمہ دار ی ہے۔ کشمیر میں بڑھتی ہوئی منشیات کی وباء پر زبردست تشویش کا اظہار کرتے ہوئے این سی صدر نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت اور پرورش کریں اور خصوصاً علمائے کرام،ایمائے مساجد ،اساتذہ ، معزز شہریوں اور انتظامیہ کے افسران سے اپیل کی کہ اس بڑھتی ہوئی بدعت کا قلع قمع کرنے کیلئے اپنا بھر پور رول نبھائیں۔ انہوں نے کہا کہ منشیات کی بدعت ہماری نئی نسل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور اس تشویشناک صورتحال پر قابو پانے کیلئے ہر ایک شہری کو اپنا رول نبھانا چاہئے۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ بزرگانِ دین، صوفیان کرام اور ریشی بزرگان کی زیارتیں ہمارے اسلامی تہذیب و تمدن کے گہوارے رہے ہیں اور ان درگاہوں پر اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی دعائیںبھی قبول کرتا ہے۔
نئی دہلی نیشنل کانفرنس کے وجود سے خوفزدہ: ڈاکٹر فاروق عبداللہ
مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک دفعہ370 ہٹانا ناممکن