35Aپرمرکز دھمکیاں دینے کے بجائے عدالتی فیصلے کا انتظار کرے: عمر عبداللہ

کہا ڈرانے اور دھمکانے سے زیر نہیں ہونگے، کمیشن بٹھا کر ڈبل پیسے کا کوئی غلط کام ثابت کیجئے

35Aپرمرکز دھمکیاں دینے کے بجائے عدالتی فیصلے کا انتظار کرے: عمر عبداللہ

سرینگر 25 ، جولائی ؍کے این ایس ؍ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے مرکزی سرکار کو 35اے ہٹانے کی دھمکیاں دینے اور ریاست خصوصاً وادی میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کی کوششوں سے گریز کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی کو سپریم کورٹ پر بھروسہ کرکے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعرات کو حلقہ انتخاب عیدگاہ میں پارٹی کے یک روزہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے بعد ریاست خصوصاً وادی ایک ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لوگوں کے دلوں میں ایک خوف ڈالا جارہا ہے، سب کے زبان پر یہی ہے کہ 15اگست کے بعد کیا ہوگا؟ مرکز نے کیا سوچا ہے؟ یہ سب کچھ لوگ خود نہیں سوچ رہے ہیں بلکہ حکومت کی طرف سے لوگوں کے دل و دماغ میں خوف ڈالا جارہا ہے۔راشن خرید کے رکھنا، گاڑیوں میں تیل بھر کے رکھنا، موبائل فون نہیں چلیں گے، لینڈ لائن گھر میں لگا کے رکھو، ہر پولیس تھانے کو کہا گیا ہے سیٹالائٹ فون لاکے رکھو، ہر تھانے کو کہا گیا ہے کہ بلڈوزر رکھو، راستے بند ہونگے،‘ جیسی افواہیں اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کے بڑے بڑے دفتروں سے نکل رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’’میں مرکز اور ریاستی حکمرانوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس طرح خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنے اور لوگوں کو دھماکے سے کیا حاصل ہورہا ہے؟ایک طرف سے آپ پارلیمنٹ دعوے کرتے ہیں کہ کشمیر میں دوبارہ امن آگیا ہے، ملی ٹنسی بھی کم ہوگئی ہے، پتھرائو بھی کم ہوگیا ہے،لوگوں میں ناراضگی بھی کم ہوگئی ہے، دوسری طرف سے آپ یہاں افواہیں پھیلا رہے ہوں کہ ریاست میں 15اگست کے بعد دوبارہ آگ لگے گی۔اس ریاست میں آگ لگنے سے فائدہ کس کو ہے اور نقصان کس کو ہے وہ آپ خود اندازہ کیجئے۔‘‘ عمر عبداللہ نے کہا کہ نئی دلی میں بڑے بڑے لیڈران دھمکی دے رہے ہیں کہ دفعہ35اے اور 370کوبھی ہٹایا جائے گا،’’آپ کو اپنی عدالت پر بھروسہ نہیں، 35اے کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، کیا آپ 35اے پر فیصلے کا انتظار نہیں کرسکتے ہیں؟اگر ہم کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہماری سر آنکھوں پر تو آپ بھروسہ کیوں نہیں کرسکتے؟،ہم نے بابری مسجد کے معاملے پر بھی بار بار کہا ہے کہ جو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہوگا وہ ہمیں بھی قبول ہوگا اور ہم 35اے کے بارے میں بھی یہی موقف اختیار کئے ہوئے ہیں، ہماری تنظیم نے اس کیس کے دفاع کیلئے وکلاء کی خدمات حاصل کر رکھیں ہیں جو مقدمہ لڑ رہے ہیں، ہمیں عدالت پر پورا بھروسہ ہے اور میں یہاں کے حکمرانوں اور دلی کے حکمرانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ سپریم کورٹ پر بھروسہ رکھئے، 35اے کو لیکر سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ہماری سر آنکھوں پر ہوگا،لیکن یہاں پر لوگوں کو دڑانا، دھمکانا اور خوف کا ماحول پیدا کرنا بند کیجئے۔‘‘این سی نائب صدر نے کہا کہ ’’ہماری ریاست کے تین حصے کرنے کی بھی باتیں کی جارہی ہیں، لداخ الگ، جموں الگ اور کشمیر الگ ، ایسا کیوں؟کیا آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ 1947کا دو قومی نظریہ صحیح تھا؟کیونکہ جس بٹوارے کی آپ بات کررہے ہیں وہ علاقائی بٹوارہ نہیں ہوگا، وہ مذہب کی بنیاد پر بٹوارہ ہوگا، مسلمان علاقے الگ ، ہندو علاقے الگ اور بودھ علاقے الگ ۔کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہم آپ کی یہ سازشیں کامیاب ہونے کی اجازت دیں گے؟ کشمیرنیوز سروس کے مطابق عمر عبداللہ کا مزید کہنا تھا کہ جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس نے اس ریاست کیلئے خون کی قربانیاں دیں ہیں، ہم نے جو فیصلے کئے ہم اُن پر اپنی مرضی سے قائم رہے، ہم نے اپنا ایمان نہیں بھیجا، ہم نے پارٹیاں نہیں بدلیں، ہم نے اپنی سوچ نہیں بدلی،آپ مجھے سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے گھر کودیکھا، جناب میرا گھر ٹھیک ہے، میرے گھر نے اصولوں کے ساتھ سودا نہیں کیا،آپ کمیشن بٹھانے کی باتیں کرتے ہیں، پوچھ تاچھ اور گرفتاریوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں، لگائے کمیشن، بٹائے انکوائریاں، کھلائیں کتابیں، بلایئے ہم سب کو پوچھ تاچھ کیلئے ، ہم بھی تو ذرا دیکھیں کہ آپ کے پاس ہمارے خلاف ڈبل پیسے کے غلط کام کا کوئی ثبوت ہے۔انہوںنے کہا کہ ’’یہ لوگ والے ہمیں طعنہ دیتے ہیں کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ10فیصدی ووٹنگ میں جیتے ہیں اور انہیں بات کرنے کا حق نہیں، اگر صرف 10فیصد ووٹنگ ہوئی تو یہ ڈاکٹر صاحب کی کمزوری نہیں بلکہ آپ کی حکومت کی ناکامی کا نتیجہ ہے، ہماری حکومت کے دوران 2014کے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں ریکارڈ توڑ ووٹنگ ہوئی۔‘‘عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’چلئے یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو 10فیصدی ووٹنگ میں کامیاب ہوئے ، پھر آپ ہی بتائیں کہ 90فیصدی کس کے ساتھ ہیں؟ پھر آپ اُن90فیصدی لوگوں کیساتھ بات کیجئے۔ آپ الیکشن لڑنے والوں کو بھی نہیں مانتے، آپ علیحدگی پسندوں اور آزادی مانگنے والوں کو بھی نہیں مانتے، پھر آپ یہاں کن سے بات کریں گے؟اُن لوگوں سے جو دلی سے پیسہ لیکر گذشتہ 4سال سے یہاں سے لیڈر بننے کی کوشش کررہے ہیں، کیا آپ کے ایجنٹ ہی یہاں بات کرنے کا حق رکھتے ہیں‘‘۔مباگل گل نے اپنے خطاب میں آنے والے اسمبلی انتخابات کو تشخص اور وجود کا الیکشن قرار دیتے ہوئے کہاکہ ہمیں کسی بھی صورت میں اس بار ووٹ ڈالنے نکلنا ہے کیونکہ بائیکاٹ سے ریاست کے دشمنوں کو فائدہ ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن میں کامیابی اور ریاست کے مفادات کا دفاع کرنے کیلئے نیشنل کانفرنس کا مضبوط ہونا انتہائی ضروری ہے اور ہمیں اپنی پارٹی کی مضبوطی کیلئے لوگوں کے ساتھ زمینی سطح پر رابطہ بنائے رکھنا ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.