سرینگر 26 ، جولائی ؍کے این ایس ؍ مرکز میں برسراقتدار جماعت کی طرف سے (تحفظ حقوقِ شادی) بل 2019کو مسلم خواتین کیلئے راحت قرار دینے کے دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں تجویز کردہ مذکورہ بل مسلم خواتین کی حالت ابدتربنا دے گا۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پارٹی کے رکنِ پارلیمان جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے ایسے حربوں پر زبردست برہمی کا اظہار کیا جن کے تحت ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دین اسلام ،جس نے ساڑھے14سو سال پہلے خواتین کے حقوق بشمول جائیداد کا حق دلائے اور شادی کو سول کنٹریکٹ قرار دیا دیتے ہوئے مخصوص حالات میں خواتین کو شادی کے بندھن سے الگ ہونے کا حق فراہم کیا، میں جنسی انصاف کا فقدان ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بل طبقاتی قانون سازی کا حصہ ہے، اس میں بغیر کسی قابل ذکر فرق کے صرف ایک طبقے کو قانون سازی کیلئے اُٹھایا گیا ہے، اس لئے یہ آئین کے تحت جائز نہیں۔ مرکزی وزیرِ قانون کے اُس دعوے کہ پارلیمنٹ یہ قانون نافذ کرنے کا اہل ہے، کو مسترد کرتے ہوئے مسعودی نے کہا کہ ایک بار سپریم کورٹ کی طرف سے طلاق ثلاثہ کو غیر قانون قرار دینے کے بعد ایک قانون نافذ کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی قانون بن گیا تھا اور ایسے معاملات میں اسی قانون کے تحت کارروائی ہوتی۔ مسعودی نے ان دعوئوں کو بھی مسترد کیا جن میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ بل کو سپریم کورٹ کے فیصلے مطابق لایا گیا ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ قرار نہیں دیا گیا ہے، جیسا پیش کردہ بل میں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلاق ثلاثہ کو قابلِ سزا جرم بنانے اور 3سال کی قید سزا سے ایک کنبہ خودبہ خود الگ ہوجائیگا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسے بل کے ذریعے ایک کنبے یا ازدواجی زندگی کو کیسے مضبوط بنایا جاسکتا ہے جو ایک بیوی کو شوہر کیخلاف مقدمہ چلانے، گرفتار کرنے، حراست میں رکھنے اور تین سال قید میں رکھنے کا حق فراہم کرتا ہو اور ساتھ اس سارے عمل کے دوران شوہر کو اپنی بیوی کی تمام ذمہ داریاں نبھانے کا بھی پابند بناتاہو۔ جسٹس مسعودی نے ایوان میں کہا کہ نیشنل کانفرنس طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ قرار دینے کی سختی سے مخالفت کرتی ہے ۔