مسئلہ کشمیر میں بین الاقوامی برادری کا کوئی رول نہیں: جنرل بپن راوت
کرگل 26 ، جولائی ؍کے این ایس ؍ فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے جنگجوئوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ تشدد اور بندوق کا راستہ ترک کرکے اپنے اہل و عیال کے بہتر اور پرامن مستقبل کیلئے فکر مند رہیں۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی پیش کش پر اپنے ردعمل میں کہا کہ کشمیر معاملے کا بین الاقوامی برادری کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں۔ مسئلہ کشمیر اور بین الاقوامی برادری دو الگ الگ چیزیں ہیں جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ بین الاقوامی برادری نے پڑوسی ملک پاکستان کو مکمل طور پرالگ تھلک کرکے رکھدیا ہے۔کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے جمعہ کے روز دراس کرگل میں آپریشن وجے کی 20ویں برسی کے موقعے ہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران کشمیری جنگجوئوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ تشدد اور بندوق کا راستہ ترک کرکے اپنے اہل و عیال کے بہتر اور پرامن مستقبل کیلئے تگ و دوکریں۔انہوں نے کہا کہ جنگجوئوں کو چاہیے کہ وہ تشدد اور بندوق کا راستہ چھوڑ کر اپنے اہل خانہ کے بہتر دیکھ بال کیلئے فکر مند رہیں۔کرگل جنگ کے 20سال مکمل ہونے پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل بپن راوت کا کہنا تھا کہ ’’کوئی بھی نوجوان جو اپنے ہاتھوں میں بنددق اُٹھاتا ہے، کسی بھی زاویے سے معصوم نہیں کہلاتا ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی نوجوان بندوق کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ کسی بھی طور معصوم نہیں کہلائیگا۔ انہوں نے کہا کہ فوج ہر ممکن طریقے سے یہ کوشش کررہی ہے کہ وہ جنگجونوجوانوں کے اہل خانہ کو اعتماد میں لے کر انہیں گمراہ ہوئے نوجوانوں کو واپس مین اسٹریم میں لانے کیلئے مائل کریں۔ہماری یہی کوشش ہے کہ جن نوجوانوں نے بندوق کا راستہ اختیار کیا ہو اہے ، ہماری اولین ترجیح انہیں مین اسٹریم میں واپس لانے کی ہے۔ ہم انہیں مارنا نہیں چاہتے۔ہم انسانی زندگیوں کے اتلاف پر خوش نہیں ہوتے بلکہ ہم اس بات کیلئے فکر مند رہتے ہیں کہ کس طرح جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہوئے نوجوانوں کو واپس لایا جائے۔ اس حوالے سے فوج سیول سوسائٹی، مذہبی مبلغین، والدین اور جنگجوئوں کے بچوں کے ساتھ رابط رکھے ہوئے ہیں تاکہ ان کے ذریعے سے تشدد کا راستہ اختیار کرنے والے نوجوانوں کو واپس قومی دائرے میں لایا جائے۔جنگجوئوں کی صفوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بھرتی سے متعلق فوجی سربراہ جنرل بپن راوت کا کہنا تھا کوئی ماں باپ یہ نہیں چاہے گا کہ اُن کا بیٹا پی ایچ ڈی مکمل کرکے جنگجو بن جائے۔ والدین نوجوانوں نے اس غرض کیلئے تعلیم فراہم کرتے ہیں تاکہ بڑھاپے کی عمر میں بچے اُن کا سہارا بن سکیں تاہم یہاں حالات قدرے مختلف ہے۔ یہاں پر نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بندوق اور تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں جو کہ ایک تشوشناک معاملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ فوج عوام کیساتھ رابطہ بڑھانے کیلئے مختلف سطحوں پر کام کررہی ہے جن میں سوشل میڈیاایک اہم ذریعہ ہے۔ فوج سوشل میڈیا پر مختلف مہمات چلاکر عوام کیساتھ رابطہ بڑھانے میں لگی ہوئی ہے۔ ہم نے مقامی نوجوانوں کو تشددکے راستے سے دور رکھنے کی خاطر مختلف مسابقتی امتحانات کیلئے تربیتی کلاسز شروع کئے جن میں این ای ای ٹی امتحانات شامل ہیں۔کشمیرنیوز سروس کے مطابق فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی پیش کش پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر معاملے کا بین الاقوامی برادری کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مسئلہ کشمیر اور بین الاقوامی برادری دو الگ الگ چیزیں ہیں جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ بین الاقوامی برادری نے پڑوسی ملک پاکستان کو مکمل طور پر الگ تھلک کرکے رکھ دیا ہے۔انہوں نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ پاکستان اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ وہ دراندازوںکو کشمیر بھیج کر معاملے کو گرم رکھے۔ لائن آف کنٹرول پر ہر وقت دراندازی ہوتی رہتی ہے تاہم یہاں تعینات فورسز اہلکاروں کی بروقت کارروائی کے نتیجے میں درانداز یا تو واپس پاکستان کی جاجب دھکیل دئے جاتے ہیں یا پھر کارروائی کے دوران مارے جاتے ہیں۔پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی بحالی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فوجی سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی معاملہ ہے اور اس پر سیاسی سطح کا ہی فیصلہ لیا جانا مقصود ہے۔ اس معاملے میں ہمیں حکومت کے فیصلے کا ہی انتظار کرنا ہوگا کہ کس طرح سے پاکستان زیر انتظام کشمیر کو اس والے کشمیر کیساتھ ضم کیا جائیگا۔ انہوں نے بتایا کہ 1947میں جب پاکستانی دراندازوں نے یہاں کے کشمیر پر قابض ہونا چاہا تاہم انہیں یہاں سے واپس دھکیلا گیا جس کے نتیجے میں کشمیر کا کچھ حصہ اُن کے پاس رہ گیا جسے ’’پاکستانی مقبوضہ کشمیر‘‘ کہا جاتا ہے۔
بندوق اُٹھانے والا نوجوان معصوم نہیں کہلاتا!
جنگجو تشدد کا راستہ ترک کرکے بہتر مستقبل کیلئے فکر مند رہیں