نئے ڈپٹی کمشنر سے لوگوں کی امیدیں وابستہ ،تعمیر وترقی اور بنیادی مسائل حل کرنے کا مطالبہ
الحق رپورٹ
شوپیان کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جیسا کہ ضلع میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں اور کچھ افسران کی کارکردگی اس طرح پیش کی جارہی ہے کہ لگتا ہے کہ ضلع میں اس جدید دور میں مقامی آبادی کو ہر قسم کی بنیادی سہولیات میسر رکھی گئی ہے۔الحاق مانیٹرنگ کے مطابق اگر شوپیان ضلع کی مجموعی تعمیر و ترقی اور لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی پر نظر ڈالی جائے تو شوپیان علاقے کو ضلع کا درجہ دینے سے پہلے لوگوں کو بنیادی سہولیات کے حوالے سے جو مشکلات در پیش تھے ان میں کسی قسم کی کمی نہیں ہوئی ہے ۔مقامی لوگوں نے الحاق کو بتایا کہ شوپیان کو سال 2007 میں ضلع کا درجہ دیا گیا اور لوگوں میں یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب انکے مسائل ترجہی بنیادیوں پر حل کئے جائے گے لیکن گزشتہ 14 برسوں کے دوران 12 ڈپٹی کمشنروں کی تقریری اور تبادلہ عمل میں لایا گیا ہے اور مختلف انجمنوں کے نمائندوں نے ضلع انتظامیہ کے سامنے جو اہم معاملات رکھے وہ معاملات اور مطالبات آج بھی اسی موڑ پر کھڑا ہیں۔انہوں نے کہا کہ شوپیان واحد علاقہ تھا جہاں پر 30سال قبل نالہ سنگلو کے کنارے پر ذبح خانہ (Slaughter House ) تھا اور ڈاکٹروں اور ماہرین کی موجودگی میں بھیڑ بکریوں کو قصاب ذبح کرتے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر مزکورہ ذبح خانے کو بند کرکے انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا گیا اور قصاب اپنے کھروں میں من پسند اور پراسرار طریقے سے ذبح کا کام انجام دی رہے ہیں.انکا کہنا تھا کہ پوری آبادی گزشتہ 13 برسوں سے ضلع انتظامیہ کو ضلع ہیڈکوارٹر پر ذبح خانہ تعمیر کرنے کی مانگ کررہی ہے لیکن 12ڈپٹی کمشنروں میں کوئی بھی آفیسر صارفین کی یہ مانگ پورا نہ کرسکا لیکن الٹا انتظامیہ کے افسران نے حال ہی میں مزکورہ ذبح خانے کےلئے مخصوص سرکاری اراضی کو غیر قانونی طور کچھ دوکانداروں کو الاٹ کی ہے۔انہوں نے کہا کہ 10 سال قبل جے کے پی سی سی نے ضلع ہسپتال شوپیان کی عمارت کا کام شروع کیا اور بعد میں متعدد حکومتوں میں منعقدہ بوڑ میٹنگوں میں مزکورہ عمارت کی تعمیر مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن دی گئی لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ ابھی تک مزکورہ عمارت کو مکمل نہیں کیا گیا اور افسران کی اعتباریت پر سوالات اس لحاظ سے بھی اٹھ رہے ہیں کہ ایک طرف عمارت پر کچھوے کے رفتار سے کام چل رہا ہے وہی دوسری جانب مریضوں کا علاج ومعالجہ بھی اسی عمارت کے نچلے حصے میں ہوتا ہے جبکہ ضلع ہسپتال میں طبی و نیم طبی عملے اور بنیادی ڈھانچے میں پائی جارہی خامیوں کو سرکاری بلند بانگ دعووں کے باوجود بھی آج تک دور نہیں کیا گیا ۔کئی انجمنوں کے عہداروں نے الحاق کو بتایا کہ ضلع میں پینے کے پانی کا نظام انتہائی ناقص ہے اور ضلع ہیڈکوارٹر سمیت کھڈپورہ اور دیگر مقامات پر کروڑوں روپئے فلڑریشن پلانٹوں پر خرچ کئے گئے لیکن خزانہ عامرہ سے کروڑوں روپئے نکالنے کے باوجود لوگوں کو برائے راست ندی نالوں کا گندہ اور مضر صحت پانی پینے کے لئے فراہم کیا جاتا ہے جس کے باعث متعدد دیہات میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہزاروں کی تعداد میں لوگ یرقان اور دیگر مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوئے جبکہ کئی افراد یرقان بیماری سے لقمہ اجل بھی بن گئے ہیں ۔انہوں نے مزید بتایا کہ سرما ہوتے ہی ضلع کے متعدد دیہات میں پینے کے پانی کی بحرانی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور آج کے اس جدید دور میں محکمہ جل شکتی کروڑوں روپئے خرچ کرنے کے باوجود علاقے کے لوگوں کو معقول پانی فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے ۔ کئی تاجروں نے الحاق کو بتایا کہ ضلع میں ٹریفک نظام درہم برہم ہوکے رہ گیا ہے اور پورے ضلع کو چھوٹے چھوٹے سومو اور لوڑ کیرئر اسڈینڈوں میں تبدیل کردیا گیا ہے جبکہ پارکنگ کےلئے جگہ دستیاب کرنے میں منسلک ادارے ناکام ہوئے ہیں اور پارکنگ کے لئے مخصوص جگہوں کو اثر رسوخ کی بنا پر پریویٹ اداروں کو الاٹ کیا گیا ہے جسکی تحقیقات ہونی چاہے ۔انہوں نے کہا کہ بٹہ پورہ میں 52کنال اراضی پر پھیلے رقبہ پر بس اسٹینڈ تعمیر کیا گیا ہے لیکن مزکورہ اسٹینڈ کو اثر رسوخ رکھنے والے افراد کی سہولیات کے لئے رکھا گیا ہے جبکہ ضلع ہیڈ کوارٹر پر غیر قانونی اسڈینڈوں کو بٹہ پورہ منتقل نہیں کیا جارہا ہے جس کے باعث ٹریفک جام میں تشویشناک اضافہ ہورہا ہے جبکہ تجارتی سرگرمیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہونے لگے ہیں ۔سیٹیزن ویلفئر سوسائٹی اور کاڑی نیشن کمیٹی کے عہداروں نے الحاق کو بتایا کہ شوپیان خوبصورت علاقہ ہے اور یہاں پر متعدد دلکش اور پر کشش فضاؤں سے مالا مال مقامات ہیں اور سرکار کا دعوہ تھا کہ ان مقامات کو جازب نظر بنانے اور ان مقامات کو سیاحتی نقشے پرلانے کےلئے ہنگامی نوعیت کے اقدامات اٹھائے جائیں گے جس کے لئے ٹورازم ڈپارٹمنٹ اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا لیکن مزکورہ ادارے کی کارکردگی انتہائی ناقص اور غیر اطمینان بخش رہی ہے اور شوپیان واحد ضلع ہے جہاں پر لوگوں کی سیر و تفریح کے لئے کوئی پارک موجود نہیں ہے باقی مقامات کو جازب نظر بنانا دور کی بات ہے اور اس حوالے سے اگرچہ مختلف ضلع ترقیاتی کمشنروں نے بڑے بڑے منصوبے بنانے کے دعوے کئے لیکن زمینی سطح پر کچھ نظر نہیں آرہا ہے ۔انکا مزید کہنا تھا کہ بجلی کا نظام بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے اور ضلع ہیڈکوارٹر سے 4کلو میٹر دور کنی پورہ میں قائم گریڈ اسٹیشن کم صلاحیت والا اسٹیشن ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے اسکی صلاحیت بڑھانے کے لئے ہم مانگ کررہے ہیں لیکن مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔مقامی لوگوں نے مزید بتایا شوپیان -زینہ پورہ شاہراہ کی تعمیر و تجدید کا کام 5سال قبل شروع کیا گیا اور حیرت انگیز طور آج تک مزکورہ سڑک کا کام مکمل نہیں ہوا جسکی وجہ سے مسافروں اور ٹرانسپوروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اب مزکورہ سڑک پر کام ہی بند کردیا گیا ہے جبکہ ضلع کی دیگر رابطہ سڑکوں کی حالت بھی ناگفتہ بہہ ہے اور گلی کوچوں کی حالت بھی انتہائی خراب ہے۔اس دوران علم گیر وبا کورونا وائرس کی آمد کے بعد درجنوں ہوٹلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کئے گئے جس دوران مریضوں کو وہاں پر ہر قسم کی ڈہولیٹ ہوٹل مالکان نے فراہم کی لیکن کئی ماہ تک کرایہ پر لینے کے باوجود ابھی تک ضلع انتظامیہ نے انکو کرایہ فراہم نہیں کیا اور وہ شدید مالی دشواریوں سے گزررہے ہیں۔ مقامی لوگوں نے الحاق کو بتایا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا ہے اس پر اب وقت زیاہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔انہوں نے کیا کہ چونکہ نئے ڈپٹی کمشنر نے شوپیان کا چارج سنبھال لیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ نئے ضلع ترقیاتی کمشنر ضلع کی تعمیر و ترقی اور لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاکر اس حوالے سے انقلابی اقدامات اٹھائے گے ۔
شوپیان میں گزشتہ 14 برسوں میں 12 ڈپٹی کمشنروں کا تبادلہ، مسائل اپنی جگہ موجود added by News Desk on
View all posts by News Desk →