وزیراعظم ریاست کی بحالی اور جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا اعلان کریں ۔۔۔
دو برسوں سے سکول بند ہیں،4جی انٹرنیٹ سروس معطل ہے ،تو کیا یہی ترقی ہے؟ ۔۔۔۔اپوزشن لیڈر غلام نبی آزاد
مرکزی سرکار کی جانب سے دفعہ 370 اور 35 اے منسوخ کرنے کے بعد جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال تشویشناک بنی ہوئی ہے اور حکومت کی غیر سنجیدہ پالیسوں کی وجہ سے تینوں خطوں میں لوگ بدترین مشکلات سے دوچار ہورہے ہیں جبکہ سیاحت اور فروٹ انڈسٹری کا نظام مفلوج ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ جات کی کارکردگی غیر اطمینان بخش ہے ۔ان باتوں کا اظہار راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے کانگریس لیڈر اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی غلام نبی آزاد نے بدھ کے روز بجٹ اجلاس کے دوران ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کو لداخ کو تقسیم کرنے کے مرکزی فیصلے پر ان تینوں خطوں میں کوئی بھی خوش نہیں ہے تاہم غلام بنی آزاد نے جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کرنے ،اسمبلی انتخابات جلد سے جلد منعقد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے مرکزی سرکار کو اس حوالے سے پارلیمنٹ میں بل لانے پر زور دیا ۔انہون نے کہا کہ میں نے ہزاروں بار سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کے علاؤہ سینئر وزراء اور اس وقت وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو ایوان زیریں اور ایوان بالا سے خطاب کرتے ہوئے سنا ہے لیکن ان میں سے یا بی جے پی کے کسی رہنما نے جموں کشمیر کو تقسیم کرنے یا یونین ٹریڑیز بنانے کے بارے میں اپنے منشور میں ذکر کرتے ہوئے نہیں سنا تاہم انہوں نے کہا کہ صرف ایک ہی ضلع میں UT کا مطالبہ تھا وہ بھی کرگل میں نہیں بلکہ لداخ (لیہ) سے تھا اور میں خوش ہوتا اگر لداخ کو یو ٹی بنادیا جاتا اور جموں و کشمیر کو اسی طرح رہنے دیا جاتا ۔ کے این ایس کے مطابق حزب اختلاف کے لیڈر نے مزید کہا کہ پوری دنیا اور دیگر لیڈران اگر دلی کے علاؤہ ہندستان کی اور کسی ریاست کو جانتے ہیں وہ تاریخی پس منظر اور خوبصورتی کے لحاظ سے صرف اور صرف کشمیر ہے ۔دنیا کا کوئی بھی وزیر خارجہ یا ریاست کا سربراہ جو ہندوستان کا دورہ کرتا ہے وہ کشمیر کو جانتا ہے اور ایسا کوئی نہیں ہوگا جس کے علم میں یہ نہیں ہوگا مگر اب میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جموں و کشمیر ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں کیوں تقسیم کیا گیا، یہاں تک کہ اب وہاں امن وامان میں کوئی بہتری نہیں ائی ہے۔انہوں نے کہا کہ منتخب حکومت کے دوران جموں کشمیر میں ترقیاتی کام سب سے اچھے تھے جبکہ ابھی تک وہاں پر تعمیر و ترقیاتی کا کوئی کام نہیں ہوا ہے جبکہ صحت ، تعلیم اور دیگر کے پیرامیٹرز بھی بد سے بتر ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ گزشتہ 2 برسوں سے وہاں پر تعلیمی ادارے بند پڑے ہوئے ہیں اور پھر وبائی بیماری کورونا وائرس کے بعد جب حکومت نے آن لائن کلاسز شروع کئے تو تیز رفتار موبائل انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہے ،کیا وہاں کے لوگ ان ہی چیزوں سے خوش اور مطمئن نظر آئے گے تاہم کانگریس رہنما نے سوال کیا کہ جب 2 سال سے تعلیمی ادارے بند ہیں تو ریاست کی ترقی کیسے ممکن ہے۔کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے کہا کہ وادی کشمیر میں سیاحت کی صنعت ختم ہوچکی ہے۔گلمرگ جانے والے کچھ سیاح براہ راست ہوائی اڈے سے ایک فائیو اسٹار ہوٹل تک جاتے ہیں لیکن اس سے وادی کے مقامی کاروبار کرنے والے افراد کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے جن میں ٹیکسی ڈرائیور ، گھوڑے بان، دکاندار اور دستکاری شامل ہیں۔ ہزاروں ہوٹلوں کے ملازمین گھروں میں ہیں کیونکہ وہاں کوئی کام نہیں ہے اور یہ بات بھی سچ ہے کہ گذشتہ دو برسوں سے کوئی سیاح ان کے پاس نہیں گیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سڑکوں کی حالت ابتر ہے،قومی شاہراہ پر بٹوت سے بانہال تک سڑک 6 سال سے مکمل نہیں ہورہی ہے جس کی وجہ سے کشمیر میں زبردست نقصان ہوا ہے جبکہقومی شاہراہ پر بندشیں عائد کرنے کے بعد پھلوں سے بھری ٹرک ایک ماہ تک پھنسے رہے جسکے باعث میواہ اور دیگر کاروبار کو بہت بڑا نقصان ہوا تاہم غلام نبی آزاد نے جموں و کشمیر میں ڈی ڈی سی کے کامیاب انتخابات کرانے پر وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی تعریف کی۔کے این ایس کے مطابق آزاد نے کہا کہ شمالی مشرقی ریاستوں سمیت جموں و کشمیر، لداخ اور پنجاب ریاستیں ہندوستان کے لئے اہم ہیں کیونکہ یہ سرحدی علاقے ہیں اور ایسا کوئی اقدام اٹھانے سے گریز کرنا چاہئے جو عوامی ناراضگی کو جنم دے گی یا عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے۔انہوں نے کہا کہ لداخ ، کشمیر اور جموں میں کوئی بھی آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنے پر خوش نہیں ہے۔انکا مزید کہنا تھا کہصرف جموں وکشمیر کے لوگ ہندوستان بھر میں خصوصی دفعات سے لطف اندوز نہیں ہو رہے ہیں بلکہ ہماچل ، اتراکھنڈ ، شمالی مشرقی ریاستوں میں بھی کوئی بھی اراضی نہیں خرید سکتا ہے ، اور اگر ایس سی اور ایس ٹی کی اراضی کی حفاظت کی گئی ہے تو یہ اکیلے جموں و کشمیر میں نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں ہے۔کے این ایس کے مطابق انہوں نے خطاب کے دوران کہا کہ اگر جموں و کشمیر کو ترقی کی راہ پر لیجانا ہے اور اگر دشمنوں سے لڑتے ہوئے سرحدوں کی حفاظت کرنی ہے تو مرکزی حکومت کو لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے محبت اور دیکھ بھال سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔غلام۔نبی آزاد نے کہا کہ میں اپنی تقریر کا اختتام وزیراعظم سے پوچھتے ہوئے کرتا ہوں کہ کہ وہ جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت کو بحال کرے اور اسمبلی انتخابات کا بھی اعلان کریں۔
دو برسوں سے سکول بند ہیں،4جی انٹرنیٹ سروس معطل ہے ،تو کیا یہی ترقی ہے؟ ۔۔۔۔اپوزشن لیڈر غلام نبی آزاد
مرکزی سرکار کی جانب سے دفعہ 370 اور 35 اے منسوخ کرنے کے بعد جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال تشویشناک بنی ہوئی ہے اور حکومت کی غیر سنجیدہ پالیسوں کی وجہ سے تینوں خطوں میں لوگ بدترین مشکلات سے دوچار ہورہے ہیں جبکہ سیاحت اور فروٹ انڈسٹری کا نظام مفلوج ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ جات کی کارکردگی غیر اطمینان بخش ہے ۔ان باتوں کا اظہار راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے کانگریس لیڈر اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی غلام نبی آزاد نے بدھ کے روز بجٹ اجلاس کے دوران ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کو لداخ کو تقسیم کرنے کے مرکزی فیصلے پر ان تینوں خطوں میں کوئی بھی خوش نہیں ہے تاہم غلام بنی آزاد نے جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کرنے ،اسمبلی انتخابات جلد سے جلد منعقد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے مرکزی سرکار کو اس حوالے سے پارلیمنٹ میں بل لانے پر زور دیا ۔انہون نے کہا کہ میں نے ہزاروں بار سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کے علاؤہ سینئر وزراء اور اس وقت وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو ایوان زیریں اور ایوان بالا سے خطاب کرتے ہوئے سنا ہے لیکن ان میں سے یا بی جے پی کے کسی رہنما نے جموں کشمیر کو تقسیم کرنے یا یونین ٹریڑیز بنانے کے بارے میں اپنے منشور میں ذکر کرتے ہوئے نہیں سنا تاہم انہوں نے کہا کہ صرف ایک ہی ضلع میں UT کا مطالبہ تھا وہ بھی کرگل میں نہیں بلکہ لداخ (لیہ) سے تھا اور میں خوش ہوتا اگر لداخ کو یو ٹی بنادیا جاتا اور جموں و کشمیر کو اسی طرح رہنے دیا جاتا ۔ کے این ایس کے مطابق حزب اختلاف کے لیڈر نے مزید کہا کہ پوری دنیا اور دیگر لیڈران اگر دلی کے علاؤہ ہندستان کی اور کسی ریاست کو جانتے ہیں وہ تاریخی پس منظر اور خوبصورتی کے لحاظ سے صرف اور صرف کشمیر ہے ۔دنیا کا کوئی بھی وزیر خارجہ یا ریاست کا سربراہ جو ہندوستان کا دورہ کرتا ہے وہ کشمیر کو جانتا ہے اور ایسا کوئی نہیں ہوگا جس کے علم میں یہ نہیں ہوگا مگر اب میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جموں و کشمیر ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں کیوں تقسیم کیا گیا، یہاں تک کہ اب وہاں امن وامان میں کوئی بہتری نہیں ائی ہے۔انہوں نے کہا کہ منتخب حکومت کے دوران جموں کشمیر میں ترقیاتی کام سب سے اچھے تھے جبکہ ابھی تک وہاں پر تعمیر و ترقیاتی کا کوئی کام نہیں ہوا ہے جبکہ صحت ، تعلیم اور دیگر کے پیرامیٹرز بھی بد سے بتر ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ گزشتہ 2 برسوں سے وہاں پر تعلیمی ادارے بند پڑے ہوئے ہیں اور پھر وبائی بیماری کورونا وائرس کے بعد جب حکومت نے آن لائن کلاسز شروع کئے تو تیز رفتار موبائل انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہے ،کیا وہاں کے لوگ ان ہی چیزوں سے خوش اور مطمئن نظر آئے گے تاہم کانگریس رہنما نے سوال کیا کہ جب 2 سال سے تعلیمی ادارے بند ہیں تو ریاست کی ترقی کیسے ممکن ہے۔کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے کہا کہ وادی کشمیر میں سیاحت کی صنعت ختم ہوچکی ہے۔گلمرگ جانے والے کچھ سیاح براہ راست ہوائی اڈے سے ایک فائیو اسٹار ہوٹل تک جاتے ہیں لیکن اس سے وادی کے مقامی کاروبار کرنے والے افراد کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے جن میں ٹیکسی ڈرائیور ، گھوڑے بان، دکاندار اور دستکاری شامل ہیں۔ ہزاروں ہوٹلوں کے ملازمین گھروں میں ہیں کیونکہ وہاں کوئی کام نہیں ہے اور یہ بات بھی سچ ہے کہ گذشتہ دو برسوں سے کوئی سیاح ان کے پاس نہیں گیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سڑکوں کی حالت ابتر ہے،قومی شاہراہ پر بٹوت سے بانہال تک سڑک 6 سال سے مکمل نہیں ہورہی ہے جس کی وجہ سے کشمیر میں زبردست نقصان ہوا ہے جبکہقومی شاہراہ پر بندشیں عائد کرنے کے بعد پھلوں سے بھری ٹرک ایک ماہ تک پھنسے رہے جسکے باعث میواہ اور دیگر کاروبار کو بہت بڑا نقصان ہوا تاہم غلام نبی آزاد نے جموں و کشمیر میں ڈی ڈی سی کے کامیاب انتخابات کرانے پر وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی تعریف کی۔کے این ایس کے مطابق آزاد نے کہا کہ شمالی مشرقی ریاستوں سمیت جموں و کشمیر، لداخ اور پنجاب ریاستیں ہندوستان کے لئے اہم ہیں کیونکہ یہ سرحدی علاقے ہیں اور ایسا کوئی اقدام اٹھانے سے گریز کرنا چاہئے جو عوامی ناراضگی کو جنم دے گی یا عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے۔انہوں نے کہا کہ لداخ ، کشمیر اور جموں میں کوئی بھی آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنے پر خوش نہیں ہے۔انکا مزید کہنا تھا کہصرف جموں وکشمیر کے لوگ ہندوستان بھر میں خصوصی دفعات سے لطف اندوز نہیں ہو رہے ہیں بلکہ ہماچل ، اتراکھنڈ ، شمالی مشرقی ریاستوں میں بھی کوئی بھی اراضی نہیں خرید سکتا ہے ، اور اگر ایس سی اور ایس ٹی کی اراضی کی حفاظت کی گئی ہے تو یہ اکیلے جموں و کشمیر میں نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں ہے۔کے این ایس کے مطابق انہوں نے خطاب کے دوران کہا کہ اگر جموں و کشمیر کو ترقی کی راہ پر لیجانا ہے اور اگر دشمنوں سے لڑتے ہوئے سرحدوں کی حفاظت کرنی ہے تو مرکزی حکومت کو لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے محبت اور دیکھ بھال سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔غلام۔نبی آزاد نے کہا کہ میں اپنی تقریر کا اختتام وزیراعظم سے پوچھتے ہوئے کرتا ہوں کہ کہ وہ جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت کو بحال کرے اور اسمبلی انتخابات کا بھی اعلان کریں۔
370 کی منسوخی کے بعد جموں وکشمیر اور لداخ میں کوئی خوش نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔آزاد added by News Desk on
View all posts by News Desk →