افسران کے بار بار کے تبادلوں کے باعث ضلع میں تعمیر و ترقی تشویشناک حد تک متاثر،مسائل اپنی جگہ موجود۔۔۔عوامی حلقے
کے این ایس ۔۔۔۔۔سرینگر سے 52 کلو میٹر دور اور پیر پنچال کے دامن میں واقع پہاڑی ضلع شوپیان میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران حیرت انگیز طور پر ضلع ترقیاتی کمشنروں اور دیگر ضلع افسران کے بار بار تبادلوں اور تقریروں نے نہ صرف ضلع کی اعتباریت کو مضحکہ خیز بنا کے رکھ دی ہے بلکہ اس طرح کے غیر سنجیدہ فیصلوں سے پوری ضلع میں تعمیر و ترقی اور ترقیاتی منصوبوں کی عمل آوری تشویشناک تک ک متاثر ہوئی ہے۔ مقامی لوگوں نے کے این ایس کو بتایا کہ شوپیان ضلع کو گزشتہ ایک دہائی سے تجربہ گاہ کے بطور استعمال کیا جا رہا ہے جس دوران سروس رولز کو بالائے طاق رکھ کر من پسند طریقے اور سیاسی اثر رسوخ کی بنا پر ڈپٹی کمشنروں اور دیگر افسران کے تبادلے اور تقرریاں عمل میں لائی گئی ہے جس کے باعث پورے ضلع میں ترقیاتی سرگرمیاں ٹھپ ہوکے رہ گئی ہیں اور 14 سال قبل شوپیان کو ضلع درجہ دینے کے بعد جن پروجیکٹوں کی سنگ بنیاد رکھی گئی تھی اور لوگوں نے انتظامیہ کے سامنے جو مطالبات رکھے تھے 14برس گزرنے کے بعد بھی وہ معاملات اور مطالبات آج بھی اسی موڑ پر پر کھڑا نظر آ رہے ہیں ۔مقامی لوگوں نے کے این ایس کو مزید بتایا کہ شوپیان کو سال 2007 میں ضلع کا درجہ دیا گیا اور حیرت انگیز طور پر پر گزشتہ 14 برسوں کے دوران تعمیر و ترقی کے بجائے حکومت کی جانب سے 13 ضلع ترقیاتی کمشنروں کا تبادلہ عمل میں لایا گیا جبکہ سال 2018 میں صرف 9 ماہ کے دوران 3 ڈپٹی کمشنروں کا تبادلہ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ مہینے یعنی 16جنوری کو شری کانت بالاصاحب نے ڈپٹی کمشنر شوپیان کا چارج سنبھالا اور موصوف ابھی پھولوں کے گل دستوں کو سجانے میں ہی مصروف عمل تھے تو انکا تبادلہ عمل میں لایا گیا اور لداخ کے ڈپٹی کمشنر سچن کمار کو شوپیان ضلع کا نیا ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا۔مقامی لوگوں نے سوال کیا کہ اگر شری کانت بالاصاحب کےلئے شوپیان ضلع موضون نہیں تھا پھر کن وجوہات کی بنا پر انہیں شوپیان میں تعینات کیا گیا اور 25روز کے بعد ہی انکا تبادلہ کیوں عمل میں لایا گیا۔ضلع میں سرگرم کئی انجمنوں کے عہداروں نے کے این ایس کو بتایا کہ سرکاری افسران کے بار بار کے تبادلوں اور تقرریوں سے نہ صرف ضلع میں تعمیر و ترقی کا رفتار تشویشناک حد تک رک گیا ہے بلکہ اس طرح کی پالیسی سے ضلع میں رشوت خوری کا بازار گرم ہوگیا ہے جس کا خمیازہ برائے راست لوگوں کو ہی اٹھانا پڑ رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں دنیا کی بلند ترین 106 منزلہ عمارت بوج خلیفہ صرف 6برسوں میں مکمل ہوئی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر جے۔ کے۔ پی۔ سی ۔سی کے افسران ضلع ہسپتال شوپیان کی عمارت کو 13 برسوں سے مکمل نہ کرسکے ہیں اور آج تک کسی نے بھی اس حوالے سے جے کے پی سی سی کے افسران کو جوابدہ نہیں بنایا ہے اور حد تو یہ ہے کہ گزشتہ 13 برسوں کے دوران منعقدہ بوڈ میٹنگوں کے ساتھ ساتھ دو سابقہ وزراء اعلی نے ہسپتال عمارت کو مکمل کرنے کے لئے متعلقہ ایجنسی کو ڈیڈ لائن دی تھی لیکن یہ حکم نامے صرف کاغذوں تک ہی محدود بن کے رہ گئے ہیں اور آج ضلع ہسپتال کی حالت ایک ڈسپنسری سے بھی بتر ہے اور لوگوں کو طبی سہولیات کے حوالے سے انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ شوپیان واحد علاقہ تھا جہاں پر 30سال قبل نالہ سنگلو کے کنارے پر ذبح خانہ (Slaughter House ) تھا اور ڈاکٹروں اور ماہرین کی موجودگی میں بھیڑ بکریوں کو قصاب ذبح کرتے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر مزکورہ ذبح خانے کو بند کرکے انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا گیا اور قصاب اپنے گھروں میں من پسند اور پراسرار طریقے سے ذبح کا کام انجام دی رہے ہیں.انکا کہنا تھا کہ پوری آبادی گزشتہ 13 برسوں سے ضلع انتظامیہ کو ضلع ہیڈکوارٹر پر ذبح خانہ تعمیر کرنے کی مانگ کررہی ہے لیکن 13ڈپٹی کمشنروں میں کوئی بھی آفیسر صارفین کی یہ مانگ پورا نہ کرسکا لیکن الٹا انتظامیہ کے افسران نے حال ہی میں مزکورہ ذبح خانے کےلئے مخصوص سرکاری اراضی کو غیر قانونی طور کچھ دوکانداروں کو الاٹ کی ہے۔ سیول سوسائٹی سے وابستہ افراد نے بتایاکہ ضلع میں پینے کے پانی کا نظام انتہائی ناقص ہے اور ضلع ہیڈکوارٹر سمیت کھڈپورہ اور دیگر مقامات پر کروڑوں روپئے فلڑریشن پلانٹوں پر خرچ کئے گئے لیکن خزانہ عامرہ سے کروڑوں روپئے نکالنے کے باوجود لوگوں کو برائے راست ندی نالوں کا گندہ اور مضر صحت پانی پینے کے لئے فراہم کیا جاتا ہے جس کے باعث متعدد دیہات میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہزاروں کی تعداد میں لوگ یرقان اور دیگر مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوئے جبکہ کئی افراد یرقان بیماری سے لقمہ اجل بھی بن گئے ہیں ۔کئی تاجروں نے کے این ایس کو بتایا کہ ضلع میں ٹریفک نظام درہم برہم ہوکے رہ گیا ہے اور پورے ضلع کو چھوٹے چھوٹے سومو اور لوڑ کیرئر اسڈینڈوں میں تبدیل کردیا گیا ہے جبکہ پارکنگ کےلئے جگہ دستیاب کرنے میں منسلک ادارے ناکام ہوئے ہیں اور پارکنگ کے لئے مخصوص جگہوں کو اثر رسوخ کی بنا پر پریویٹ اداروں کو الاٹ کیا گیا ہے جسکی تحقیقات ہونی چاہے ۔انہوں نے کہا کہ بٹہ پورہ میں 52کنال اراضی پر پھیلے رقبہ پر بس اسٹینڈ تعمیر کیا گیا ہے لیکن مزکورہ اسٹینڈ کو اثر رسوخ رکھنے والے افراد کی سہولیات کے لئے رکھا گیا ہے جبکہ ضلع ہیڈ کوارٹر پر غیر قانونی اسڈینڈوں کو بٹہ پورہ منتقل نہیں کیا جارہا ہے جس کے باعث ٹریفک جام میں تشویشناک اضافہ ہورہا ہے جبکہ تجارتی سرگرمیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہونے لگے ہیں ۔سیٹیزن ویلفئر سوسائٹی اور کاڑی نیشن کمیٹی کے عہداروں نے کے این ایس کو بتایا کہ شوپیان خوبصورت علاقہ ہے اور یہاں پر متعدد دلکش اور پر کشش فضاؤں سے مالا مال مقامات ہیں اور سرکار کا دعوہ تھا کہ ان مقامات کو جازب نظر بنانے اور ان مقامات کو سیاحتی نقشے پر لانے کےلئے ہنگامی نوعیت کے اقدامات اٹھائے جائیں گے جس کے لئے ٹورازم ڈپارٹمنٹ اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا لیکن مزکورہ ادارے کی کارکردگی انتہائی ناقص اور غیر اطمینان بخش رہی ہے اور شوپیان واحد ضلع ہے جہاں پر لوگوں کی سیر و تفریح کے لئے کوئی پارک موجود نہیں ہے باقی مقامات کو جازب نظر بنانا دور کی بات ہے اور اس حوالے سے اگرچہ مختلف ضلع ترقیاتی کمشنروں نے بڑے بڑے منصوبے بنانے کے دعوے کئے لیکن زمینی سطح پر کچھ نظر نہیں آرہا ہے ۔انکا مزید کہنا تھا کہ بجلی کا نظام بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے اور ضلع ہیڈکوارٹر سے 4کلو میٹر دور کنی پورہ میں قائم گریڈ اسٹیشن کم صلاحیت والا اسٹیشن ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے اسکی صلاحیت بڑھانے کے لئے ہم مانگ کررہے ہیں لیکن مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بار بار افسران کے تبادلے اور تقرریاں عمل میں لانے کی حکومت کی پالیسی ضلع میں تعمیر وترقی کا نہ ہونا مختلف محکموں کے افسران کے لیے موثر جواز پیش کرنے میں مدد گار ثابت ہوری ہے ۔۔۔۔