لائن آف کنٹرول پر اب بندوقیں ہونگی خاموش 

لائن آف کنٹرول پر اب بندوقیں ہونگی خاموش 

ڈاکٹر فاروق عبداللہ،محبوبہ مفتی،جی اے میر اور حکیم یاسین نے بھارت اور پاکستان کے مابین ایل او سی کی جنگ بندی معاہدے کا کیا خیرمقدم ۔۔۔۔۔۔۔۔

کے این ایس…..جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے تمام سیاستدانوں نے بھارت اور پاکستان کی جانب لائن آف کنٹرول پر جنگ ​​بندی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت کی کے این ایس کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے سابق وزیر اعلی اور ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں امن کے لئے بات چیت کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے اور انکی پارٹی نے اس پورے خطےمیں امن کے قیام کے لئے ہمیشہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کی تاکید کی اور مسقبل میں بھی کرتے رہے گے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر اور سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے کے این ایس کے ساتھ بات کرتے ہوئے دونوں ممالک کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یقینی طور پر یہ پیشرفت ہم سب کےلئے اور لائن آف کنٹرول پر رہنے والے لوگوں کے لئے خوش آئند بات ہے کیونکہ کنٹرول لائن پر رہائش پزیر لوگ جنگ ​​بندی کی خلاف ورزیوں کا خمیازہ ہمیشہ برداشت کرتے رہے ہیں اور وہ لوگ انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ وقت کی ضرورت تھی کیونکہ دونوں ممالک کو زبردست چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا ہے اور امن کی فضا قائم کرنے کےلئے بات چیت ہی واحد راستہ ہے تاہم محبوبہ مفتی نے کہا کہ کشمیر کی صورتحال اور طویل التوا میں رہا مسئلہ صرف بات چیت کے ذریعے ہی حل ہوسکتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی کے معاہدے میں کامیابی ہوگی اور ڈی جی ایم اوز کی سطح کی بات سیاسی سطح تک ضرور پہنچ جائے گی۔سابق وزیر اعلی نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے مابین سرحد پار تجارت جلد از جلد دوبارہ شروع ہوگی۔ادھر پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ کے چیئرمین حکیم محمد یاسین نے کے این ایس کو جب 2002 میں ایل او سی پر حالات کشیدہ تھے تو اس وقت بھی پھر بات چیت نے تشدد کو کم کرنے کے لئے ایک اہم کردار ادا کیا اور ہمیں امید ہے کہ جموں و کشمیر میں امن اور خوشحالی کے لئے ایک بار پھر بات چیت کا آغاز ہوگا جبکہ حکیم یاسین نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین دوستانہ تعلقات سے جموں و کشمیر کے عوام کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔اس دوران کانگریس کے صدر جی اے میر نے کے این ایس کو بتایا کہ طویل مدتی امن کے لئے مناسب پالیسی ہونی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہم سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور دونوں ممالک کے مابین ٹھوس پالیسی کے بغیر امن کی فضا قائم نہیں ہوسکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں یا کسی اور ملک میں بریانی کھانے سے پیچیدہ معاملات حل نہیں ہوتے ہیں جب تک نہ دونوں ممالک کے درمیان مسلے کے حل کےلئے ایک واضح روڈ میپ ہوگا تب تک امن کا قیام نا ممکن ہے۔ جی اے میر نے کہا کہ یہ فوجی سطح کی بات چیت ہے اور یہ مختلف مرحلوں پر ہوتی رہتی ہے لیکن طویل مدتی امن کے لئے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان معاملات کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور اسکے لئے ایک مناسب روڈ میپ تیار کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مودی حکومت کو اپنی پالیسی واضح کرنی ہوگی کیونکہ اس سے قبل بھی ہائٹ لائن رابطے میکانزم اور دونوں ممالک کے ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر جنرلوں نے تبادلہ خیال کیا۔اس دوران جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ دونوں فریقوں نے آزادانہ ، واضح اور خوشگوار ماحول میں لائن آف کنٹرول اور دیگر تمام شعبوں کے ساتھ ساتھ صورتحال کا جائزہ لیا اور سرحدوں کے ساتھ باہمی فائدہ مند اور پائیدار امن کے حصول کے مفاد میں دونوں ڈی جی ایم اوز نے ایک دوسرے کے بنیادی معاملات اور خدشات کو حل کرنے پر اتفاق کیا ۔بیان کے مطابق دونوں فریقین نے لائن آف کنٹرول اور دیگر تمام شعبوں پر 24/25 فروری 2021 کی درمیانی شب سے افہام و تفہیم کے ذریعے فائر بندی کرنے پر سختی سے اتفاق کیا تاہم بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں فریقوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ہاٹ لائن رابطے اور سرحدی پرچم اجلاسوں کے موجودہ طریقہ کار کو کسی بھی غیر متوقع صورتحال یا غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔بتایا کہ یہ امن کی سمت ایک اچھا قدم ہے اور اسے بہت پہلے ہی اٹھا چاہئے تھا تاہم انہوں نے کہا کہ ضرورت تھی اور دونوں ممالک کو موجودہ حالات میں جن چلینچوں کا سامنا ہے جنگ بندی معاہدہ ان معاملات کو کم کرنے میں بہت ہی مددگار ثابت ہوسکتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.